چھوٹی کہلائی
جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ عشیر بھی
اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا اپنے پیر
پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ پر چبھا لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔
ایسی واہیات و
بے سروپا باتیں میں نہیں کرتا ۔ میں تو صرف غریب کہانی کار ہوں اور اس کی یہ
بھونڈی دلیل آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ کیوں پہنچا رہا ہوں؟ میں نہیں جانتا۔ شاید تمہید
باندھنے کے لئے ؟ یا شاید اس لئے کہ آج جسم میں پھانس چبھو بیٹھا ہوں اور اس
سستے فلسفے سے جڑے کہیں زیادہ قیمتی اور عملی
فلسفے کا ادراک کر رہا ہوں؟ یا شاید اس لئے کیونکہ میں تخلیق پر قدرت رکھتا ہوں اور ہر خالق ہی کی طرح میں بھی اپنے اس اختیار کو بے جا
استعمال کرنے کی عادت رکھتا ہوں؟ یا شاید
اس لئے کیونکہ میں بھی بالآخر ایک انسان
ہوں اور ہم انسان جس چیز کو بھولنا
چاہیں اسے یاد کرنے کے بہانے غیر متعلق چیزوں میں سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں؟ یا شاید یہ تمام وجوہات بیک وقت اس تحریر کا
موجب بن رہی ہوں؟ اصل وجہ کیا ہے، میں
نہیں جانتا! میں بس یہ جانتا ہوں کہ میری
اس کی یہ گفتگو جامعہ کے باغ میں ہوئی تھی
جہاں چلتے چلتے اس نے پیروں سے گرگابی اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور چار قدم
چلنے کے بعد ہی کراہتی ہوئی نیچے بیٹھ کر پیر میں چبھنے والی پھانس نکالنے کے
دوران اس نے مجھے یہ سستا فلسفہ سنایا تھا۔
انسانوں کے
المیے کے لئے خود ان کا انسان ہونا ہی کافی تھا مگر ستم بالائے ستم یہ کہ ہم اپنی انسانیت کی سمجھ دوسرے انسانوں پر
بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں سے کیا شکوہ کہ میں خود بھی ایک عمر تک اس ہی
ذلیل حرکت کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔ سچ تو
یہ ہے کہ یہ گفتگو بھی ایک ایسے ہی انسانی المیے کے نتیجے میں ہی وقوع پذیر ہوئی
۔
کہانی بہت معمولی ہے۔ ایک غریب سے ایک امیر زادی کا عشق اور اس کے لازمی نتیجے میں امیر زادی کے گھر والوں کا غریب کو یاد دلانا کہ ایسی شادیاں تو اب ہندوستانی سینما میں بھی نہیں دکھائی جاتیں اور جتنی تمہاری آمدنی ہے اتنے تو ہمارے کتوں پر خرچ ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ معمول کی کہانیوں کے اعتبار سے لڑکے کو اس سب کے بعد لڑکی کو بھگا کر لے جانا چاہئے جبکہ حقیقت پسند لکھاری شاید یہاں لڑکے کو قارئین کی سہولت کے اعتبار سے چند لاکھ یا ایک آدھا کروڑ دلوا کر چپ کروا دیں۔ مگر چونکہ فی زمانہ اینٹی کلائمیکس لکھنے کا رواج ہے اور یہ کہانی بھی نئے زمانے کی ہے سو یہاں غریب زادہ بغیر پیسے لئے ہی اپنی اوقات پہچان لیتا ہے اور امیر زادی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔
امیر زادی نے چونکہ زندگی میں کبھی نہ نہیں سنا اس لئے وہ غریب زادے کے سادے سے انکار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتی ہے۔ تِس پہ یہ نوجوان اپنا دیوتا ؤں والا چوغہ نکالتا ہے اور امیر زادی کے سامنے ایک ایسے بھیانک انسان کے روپ میں آجاتا ہے کہ جس سے خدا کی ہر مخلوق گھن کھاجائے۔ امیر زادی عشق میں مبتلا ضرور تھی مگر ایک نفیس طبیعت کی مالک تھی۔ اول تو اس نے سب کو اپنا وہم یا سمجھ کی غلطی سمجھ کر ٹال دیا مگر جب غریب نے مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ چوغہ اوڑھے رکھا تو ناچار امیر زادی بھی گھن کھا کر خود ہی پسپا ہوگئی ۔ رخصت کی یہ آخری ملاقات جامعہ میں ہی ہوئی تھی کہ جہاں دونوں پڑھتے تھے۔ یہ آخری ملاقات ہر لحاظ سے آخری ملاقات تھی۔ اور جاتے سمے جامعہ کے باغ کی گھاس پر ہونے والی یہ گفتگو ہم دونوں کے درمیان کی آخری گفتگو تھی۔ میں نے آخری ملاقات کی جگہ آخری گفتگو کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ اس دن کے بعد ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہو۔
کہانی بہت معمولی ہے۔ ایک غریب سے ایک امیر زادی کا عشق اور اس کے لازمی نتیجے میں امیر زادی کے گھر والوں کا غریب کو یاد دلانا کہ ایسی شادیاں تو اب ہندوستانی سینما میں بھی نہیں دکھائی جاتیں اور جتنی تمہاری آمدنی ہے اتنے تو ہمارے کتوں پر خرچ ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ معمول کی کہانیوں کے اعتبار سے لڑکے کو اس سب کے بعد لڑکی کو بھگا کر لے جانا چاہئے جبکہ حقیقت پسند لکھاری شاید یہاں لڑکے کو قارئین کی سہولت کے اعتبار سے چند لاکھ یا ایک آدھا کروڑ دلوا کر چپ کروا دیں۔ مگر چونکہ فی زمانہ اینٹی کلائمیکس لکھنے کا رواج ہے اور یہ کہانی بھی نئے زمانے کی ہے سو یہاں غریب زادہ بغیر پیسے لئے ہی اپنی اوقات پہچان لیتا ہے اور امیر زادی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔
امیر زادی نے چونکہ زندگی میں کبھی نہ نہیں سنا اس لئے وہ غریب زادے کے سادے سے انکار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتی ہے۔ تِس پہ یہ نوجوان اپنا دیوتا ؤں والا چوغہ نکالتا ہے اور امیر زادی کے سامنے ایک ایسے بھیانک انسان کے روپ میں آجاتا ہے کہ جس سے خدا کی ہر مخلوق گھن کھاجائے۔ امیر زادی عشق میں مبتلا ضرور تھی مگر ایک نفیس طبیعت کی مالک تھی۔ اول تو اس نے سب کو اپنا وہم یا سمجھ کی غلطی سمجھ کر ٹال دیا مگر جب غریب نے مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ چوغہ اوڑھے رکھا تو ناچار امیر زادی بھی گھن کھا کر خود ہی پسپا ہوگئی ۔ رخصت کی یہ آخری ملاقات جامعہ میں ہی ہوئی تھی کہ جہاں دونوں پڑھتے تھے۔ یہ آخری ملاقات ہر لحاظ سے آخری ملاقات تھی۔ اور جاتے سمے جامعہ کے باغ کی گھاس پر ہونے والی یہ گفتگو ہم دونوں کے درمیان کی آخری گفتگو تھی۔ میں نے آخری ملاقات کی جگہ آخری گفتگو کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ اس دن کے بعد ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہو۔
اس ایک ملاقات
کے قریب گیارہ برس بعد کل ہم دونوں دوبارہ
ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے۔ اب میں بھی اتنا غریب نہیں رہا ہوں ۔ غربت کی وجہ سے
عشق لٹانے والے اکثر مرد بعد میں کبھی غریب نہیں رہتے۔ ایک عام انسان کے مقابلے
میں ایسے انسانوں کی ترقی کی بھوک سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کھو دینے کا کرب جان
جاتے ہیں۔شہر کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے کل وہ ایک بار
پھر میرے سامنے آئی تھی ۔ اس بار وہ اکیلی نہیں تھی۔ ایک آٹھ سالہ حسینہ نے اس کی
انگلی تھام رکھی تھی جبکہ ملازمہ سٹرالر میں ایک دو سالہ بچے کو لئے اس کے آگے چل
رہی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے ٹھٹھکے ضرور مگر پھر وہ خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
اس ایک لمحے
میں اس کی نگاہیں کئی ہزار لاکھ پھانسیں میرے پورے جسم میں پیوست کر گئی ہیں۔ اس
کی آنکھوں میں میرے لئے جو نفرت اور حقارت تھی اس نے میرے دیوتائی چوغے کے تارو
پود بکھیر دیے ہیں۔ میرا دل کیا تھا کہ میں دوڑ کر اس کو روک لوں اور اسے بتاؤں کہ
میں اتنا مہان انسان ہوں جو تمہاری بہتر زندگی کے لئے اور تمہیں غربت سے جڑے آلام
سے محفوظ رکھنے کے لئے خود تمہاری نظروں میں گرنے تک کے لئے تیار ہوگیا۔ جس نے
تمہیں کبھی بھاپ تک نہ لگنے دی کہ وہ غلاظت کی دلدل میں محض اس لئے کود رہا ہے
تاکہ تمہارے دامن پر کوئی چھینٹ نہ آئے۔ ایسے دیوتا تو پوجے جانے کے لائق ہوتے
ہیں! کوئی ان سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟
مگر پھر یاد آیا کہ اس ہی لئے دیوتا ؤں کی جگہ آسمانوں میں ہوتی ہے۔ کسی
وجہ سے ہی وہ انسانوں سے براہِ راست مخاطب نہیں ہوتے۔ انسانوں کے درمیان تعلق بھی انسانوں والے ہی جچتے ہیں۔
کل سے اب تک
چن چن کر جسم سے پھانس نکال رہا ہوں اور فلسفے کے نئے سبق سیکھ رہا ہوں۔ میں سیکھ
رہا ہوں کہ پھانس بھی رشتوں کی طرح ہوتی ہے کہ اگر ڈھنگ سے کلوژر نہ کیا جائے تو
چبھن مستقل ہوجاتی ہے۔ خواہ وہ رشتہ انسانوں سے ہو یا شہر سے یا کسی بھی دوسری
مادی شے سے ۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ پھانس کے چبھنے کا کرب اپنی جگہ مسلم صحیح مگر
پھانس کے نکالنے کے اپنا ایک کرب ہے جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ میں سیکھ رہا ہوں کہ کچھ کہانیاں پھانس ہی کی
طرح ہوتی ہیں کہ جن کا آغاز بھی تکلیف دہ ہوتا
ہے اور جب تک وہ جاری رہتی ہیں تکلیف پہنچاتی رہتی ہیں۔ اور پھر ایسی
کہانیوں کا انجام بھی صرف ایک ہوتا ہے۔ اذیت!
میں ایک غریب
کہانی کار ہوں اور میں سیکھ چکا ہوں کہ فلسفہ سستا صحیح مگر یہی حقیقت ہے کہ چھوٹی
کہلائی جانے والی باتیں انسان کو جتنا گہرا دکھ دیتی ہیں ، بڑی باتیں اس کا عشرِ
عشیر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ یقین نہ آئے تو زندگی کی رفتار سے ایک موٹا سریا
اپنے پیر پر مار کر دیکھ لیں اور اس کی آدھی رفتار سے ایک باریک پھانس اس ہی جگہ
پر چبھا لیں۔ فرق خود سمجھ آجائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں