بدھ، 5 مارچ، 2014

یادِ گم گشتہ

بہت سالوں کا قصہ ہے
ادھورا یاد ہے اب بھی
وہ شاید اک نومبر تھا
کراچی جل رہا تھا ان دنوں، ہر سال کی مانند
(کسی نے فیس بک پر (یا سماجی رابطے کے اور زریعہ پر
مجھے درخواست بھیجی تھی
کوئی تحریک تھی شاید
یا پھر دھرنا رہا ہوگا
کہ "ہم سب ظلم کے آگے کھڑے ہیں، آپ بھی آئیں"
میں پڑھ کر ہنس دیا تھا وہ
مگر سوچا،
چلو اس بار چل کر دیکھ لیتے ہیں!!!

ادھورا یاد ہے کچھ کچھ ۔۔۔۔
بہت سالوں کا قصہ ہے
وہ دھرنا تھا کہ جلسہ تھا
بہت پرجوش تھا لیکن!
مقرر زور دے کر کہہ رہے تھے کس طرح ان کا ستم پچھلوں سے کم ہوگا
بڑا پرجوش مجمع تھا
بڑے پرجوش نعرے تھے
ادھورا یاد ہے سب کچھ
بہت سالوں کا قصہ ہے
پر اتنا یاد ہے اب بھی
وہیں میں نے تمہیں دیکھا
یہ بالکل یاد ہے مجھ کو
بہت پر جوش تھیں تم بھی
تمہارے سرخ چہرے پر
پسینہ یوں چمکتا تھا
کہ جیسے چند موتی گر گئے ہوں اک انگارے پر
تمہارے کان کا آویزہ
ہر نعرے کی لے پر رقص کرتا تھا
تمہاری زلف
کوڑا بن کے ہلتی تھی
تمہارے ہاتھ ۔۔۔۔
بہت ہی خوبصورت ہاتھ تھے وہ
پر ۔۔۔
میں شاید بھول بیٹھا ہوں!!!
بہت مدت کی باتیں ہیں
بہت مدت کی باتیں، اس طرح کب یاد رہتی ہیں!!
ارے ہاں، یاد آیا
تمہاری آنکھ میں اس دن بھی کچھ الجھن رہی ہوگی
یا شاید اور کچھ جذبے
جنہیں تم روکنا چاہتیں تھیں
مگر جذبے کہاں پابند؟
اشاروں میں، کنایوں میں
یہ باہر آ ہی جاتے ہیں
یہ اپنا رنگ دکھاتے ہیں
بہت مدت کی باتیں ہیں
کہاں اب یاد رہنی ہیں
مگر ایک بات تو طے ہے
سنو معصوم سی لڑکی
تمہاری جھیل آنکھوں میں
اداسی تب بھی بستی تھی!!!

سید عاطف علیٓ -
5-3-2014

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت