پیاری ڈائریً!
تم شاید سمجھ رہی ہوگی کہ میں خود کو بڑا ادیب سمجھنے لگا ہوں اس لیئے لکھنا کم کردیا ہے۔ یا شاید تم نے سوچا ہوگا کہ چونکہ مجھے اس ڈائری کو لکھنے کے کوئی پیسے نہیں ملتے اس وجہ سے میں نے تم سے باتیں کرنا چھوڑ دی ہیں۔ مگر یقین جانو یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ تم شاید بھول بیٹھی ہو کہ میں قومیت کے اعتبار سے پاکستانی ہوں اور محض واقعات و سانحات پر چند لمحات کیلئے زندہ ہوتا ہوں ورنہ ہماری نیم مردہ زندگی تو اصحابِ کہف کی نیند کو پہنچنے لگی ہے۔ تو لکھنے کیلئے زندہ ہونا اور زندہ ہونے کیلئے کوئی سانحہ ضروری ہوتا ہے۔ سو آج ایک سانحہ سا ہوگیا ہے جس نے تمہارے زبان دراز کے مردہ جسم میں کچھ دیر کو روح پھونک دی ہے اور اس کچھ دیر کی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قلم اٹھایا اور تمہارے پاس آگیا۔
اب تم سوچ رہی ہوگی کہ اتنی لمبی تمہید کیوں؟ اور مجھے یقین ہے کہ تم یہ بھی جاننا چاہتی ہو کہ آج ایسا کیا ہوگیا ہے کہ میاں زبان دراز پھر ڈائری کھول کر بیٹھ گئےہیں؟ تو سنو! تم تو جانتی ہو کہ میں اب ایک مشہور آدمی ہوں اور مجھے دن رات لفافے موصول ہوتے رہتے ہیں۔ جی نہیں! میری مراد وہ مروجہ محاورے والے لفافے نہیں بلکہ خطوط کے لفافے ہیں۔ کبھی کوئی اپنی ناکام محبت کی داستان لکھوانا چاہ رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی کو اپنی ڈرامائی زندگی پر ٹیلیویژن کا ڈرامہ لکھوانا ہوتا ہے۔ اب تو میں نے ایک مستقل مسودہ تیار کر لیا ہے اور جوابی خط کے طور پر وہی مسودہ نقل کرکے بھیج دیتا ہوں۔ آج مگر مجھے ایک بہت عجیب سا خط ملا ہے۔ یہ نہ تو ناکام محبت کی داستان ہے نہ تباہ حال جوانی کا احوال۔ یہ خط کسی بچے نے لکھ بھیجا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ عالمِ بالا میں موجود ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہا کہ اس خط کا کیا جواب دوں۔ پھر سوچا کہ تمہیں بھی یہ خط سنائوں، ہو سکتا ہے تم کوئی جواب تجویز کردو۔ سو یہ خط ملاحظہ کرو اور میری مدد کرو۔
پیارے انکل
السلام علیکم! مجھے پتہ ہے کہ آپ اچھے حال میں ہیں اور میں اللہ میاں سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سدا اچھے حال میں ہی رہیں۔ میرا نام ۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔ مگر مجھے یہ یاد ہے کہ آج صبح تک میرا بہت اچھا سا نام ہوا کرتا تھا۔ وہ اچھا سا نام کیا تھا مجھے یاد نہیں، ہاں کل کے اخبار میں جب فہرست چھپے گی تو میں اس میں سے دیکھ کر آپ کو ضرور بتائوں گا۔ اللہ کا پکا والا وعدہ!
آپ پریشان ہو رہے ہونگے کہ میں نے آپ کو خط کیوں لکھا ہے؟ جب آپ مجھے جانتے تک نہیں ہیں اور آپ کو کیا، خود مجھے بھی اپنا نام تک یاد نہیں، تو میں آپ سے کیوں مخاطب ہوں؟ تو انکل بات یہ ہے کہ مجھے ابھی قائد اعظم انکل ملے تھے ۔ وہ ہم سب بچوں کو یہاں لینے کیلئے آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے امی ابو تک کچھ باتیں پہنچانا چاہتا ہوں تو انہوں نے مجھے آپ کا پتہ بتا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بھی پہلے آپ کو خطوط لکھتے رہے ہیں۔ اور آپ کی تحاریر تو اخبار میں بھی چھپتی ہیں، تو میں نے سوچا کہ میں آپ کو خط لکھوں تو شاید آپ میرا پیغام اخبار میں چھاپ دیں اور میرے امی ابو تک میرا پیغام پہنچ جائے۔ مجھے امید ہے آپ میرے لیئے یہ کام کر دیں گے۔ کرٰیں گے نا؟
افوہ! میں بھی کن باتوں میں لگ گیا۔ آپ کے سوالات ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں اور میں اپنی فرمائشیں لیکر بیٹھ گیا ہوں۔ مگر میں نے آج تک کسی کو خط نہیں لکھا نا ۔۔۔ شاید اس لیئے مجھے صحیح سے خط لکھنا بھی نہیں آتا۔ اردو کے ٹیچر نے اگر یہ خط دیکھ لیا تو بہت غصہ ہوں گے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ انسان اپنی تحریر اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ اور میں آپ کو ایک مزے کی بات بتائوں؟ مجھے گفتار کا مطلب ہی نہیں پتہ ۔۔۔۔ مگر آپ یہ بات اردو کے ٹیچر کو نہیں بتائیے گا۔ میں ہمیشہ ان کی بات سن کر ایسے سر ہلاتا تھا جیسے ساری بات سمجھ میں آگئی ہو۔ انہیں پتہ چلے گا کہ اتنے عرصے سے میں انہیں الو بنا رہا تھا تو وہ بہت خفا ہوں گے۔
تو انکل میں آپ کو بتارہا تھا کہ میرا نام ۔۔۔۔ مگر مجھے تو اپنا نام یاد ہی نہیں ہے؟ مجھے تو بس یہ یاد ہے کہ میں آج اپنے اسکول میں تھا اور کلاس میں دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر لات پڑی اور دو انکل کلاس میں گھس آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ پھر انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس کے فوراُ بعد مجھے ایسا لگا کہ کوئی کھولتی ہوئی چیز میرے پیٹ کو پھاڑتی ہوئی میرے جسم میں گھس گئی۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے پورے جسم میں آگ لگ گئی ہو۔ مگر میں رویا نہیں۔ اگر آپ میرا خط اخبار میں چھاپیں تو امی کو بتا دیجئے گا کہ میں ان کا بہادر بیٹا تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ بہادر بچے چوٹ لگنے پر روتے نہیں ہیں۔ تو میں کیسے رو سکتا تھا؟ میں تو امی کا بہادر بیٹا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں بہت زور سے روئوں مگر میں چپ رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے جسم سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۔ میرا سارا یونیفارم بھی سرخ ہوگیا تھا۔ میں نے ہاتھ سے یونیفارم صاف کرنے کی کوشش کی مگر وہ صاف ہی نہیں ہوا۔ امی کو بولیئے گا کہ وہ غصہ نہ ہوں۔ میں اللہ میاں سے کہوں گا کہ وہ ہمارے گھر کے حالات بہتر کردیں اور امی گھر میں کام کرنے والی کوئی مددگار رکھ لیں۔ پھر امی کو میرا یونیفارم دھونے کیلئے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ نیلے نہیں کرنے پڑیں گے۔ تو انکل پھر آپ کو پتہ ہے کیا ہوا؟ مگر یہ تو مجھے بھی نہیں یاد کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اس شدید ترین اذیت کے بعد میں بہت تھک گیا تھا اس لیئے میں وہیں سو گیا۔ آنکھ کھلی تو ہم سب کلاس کے بچے نئے کپڑے پہن کر یہاں موجود تھے۔ بہت سارے پیارے پیارے لوگ ہم سے ملنے کیلئے بھی آرہے تھے۔ میں نے یہیں قائد اعظم کو بھی دیکھا۔ تصویر میں تو وہ اتنے دبلے پتلے دکھتے ہیں مگر یہاں تو وہ اتنے صحت مند ہیں۔ پہلے تو میں انہیں پہچانا ہی نہیں۔ پھر مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہے انکل؟ ہم اسکول میں سنتے تھے قائداعظم بہت بہادر انسان تھے مگر یہاں آکر میں نے خود دیکھا، قائد اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ شیم شیم!!
ابو کہتے تھے کہ بڑوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے اس لیئے میں نے ان کے سامنے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں ہم سارے دوست مل کر اتنا ہنسے ان پر۔ بیچارے قائد اعظم۔ ارے ابو سے یاد آیا مجھے ابو کو بھی سلام بولنا تھا۔ آپ میرے ابو کو جانتے ہیں؟ مگر آپ میرے ابو کو کیسے جان سکتے ہیں؟ میرے ابو کو تو صرف وہی جان سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو مٹی کے نیچے دفن ہوتے دیکھا ہو۔ مگر یہ تو بڑوں والی بات ہوگئی۔ ابو کہتے تھے بچوں کو اپنی عمر کے حساب سے باتیں کرنی چاہیئیں۔ سوری ابو! آپ کی اگر میرے ابو سے بات ہو تو انہیں یہ مت بتائیے گا کہ میرے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ایک دفعہ میں سیڑھیوں سے گر کر اپنا سر پھاڑ بیٹھا تھا۔ اس وقت گھر میں گاڑی نہیں تھی تو ابو مجھے پیدل ہی اٹھا کر چار کلومیٹر دور ہسپتال بھاگے تھے۔ بغیر رکے۔ میرے ابو بہت اچھے ایتھلیٹ ہیں۔ وہ روزانہ صبح دوڑنے باغ میں جاتے ہیں اور بغیر ہانپے میدان کے کئی چکر لگا لیتے ہیں۔ مجھے اتنی ہنسی آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ میں ان کا سہارا ہوں۔ بھلا بتائیں، ابو کو سہارے کی کیا ضرورت؟ وہ تو خود اتنے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اس دن جب میرا سر پھٹا تھا تو ابو نے دفتر سے چھٹی لے لی تھی۔ جب تک میں بستر پر رہا، ابو میری چارپائی کے سرہانے لگے بیٹھے رہے۔ انہیں میری تکلیف کا پتہ چلے گا تو وہ بہت اداس ہوں گے۔ میں ابو سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ میری وجہ سے اداس ہوں۔ آپ نہیں بتائیں گے نا؟؟
اور آخری بات مجھے آپ سے کرنی ہے۔ نجانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ جب میرے جانے کی خبر ٹیلیویژن پر آئے گی تو ملک بھر میں کہرام مچ جائے گا۔ سب لوگ مجھے مارنے والوں کو گالیاں دیں گے۔ احتجاج کیا جائے گا۔ میری یاد میں شمعیں روشن ہوں گی۔ آپ بھی ایسے ہی کسی پروگرام میں شریک ہوکر اپنا فرض ادا کریں گے اور اس کے بعد اگلے بچے کے مرنے تک مکمل خاموشی پھیل جائے گی۔ پیارے انکل! میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے نہیں جانتے! مگر نجانے کیوں میرا دل کر رہا ہے کہ میں آپ سے ایک ننھی سی فرمائش کردوں۔ کیا آپ میرے لیئے اتنا کر سکتے ہیں کہ کل خواہ کسی احتجاجی جلوس میں جائیں یا نہ جائیں، مگر مجھ اور میرے جیسے ایک سو تیس بچوں کیلئے ایک کام کردیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا دشمن اپنے ارادے میں کامیاب ہو! اس نے صرف میری جان نہیں لی، اس نے میرے پیارے پاکستان کو ایک سو تیس ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدانوں، فنکاروں، کھلاڑیوں سے محروم کردیا ہے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کا نام روشن کرنا تھا۔ کیا آپ کل کے احتجاج کیلئے استعمال ہونے والا پیٹرول، پلے کارڈ، موم بتی، وغیرہ کے پیسے بچا کر، پورے پاکستان میں کہیں بھی، کسی بھی ایک، صرف ایک بچے کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ اٹھا سکتے ہیں؟ پلیز؟ پلیز؟ پلیز؟
والسلام
پیاری ڈائری! اب تم ہی بتائو کہ میں کیا جواب دوں؟
[caption id="attachment_622" align="aligncenter" width="492"] They went to school and never came back[/caption]
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں