میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام
لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔
میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ
دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔
میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ بیس سال کی عمر تک میں بھی آپ
جیسا ہی ایک عام سا انسان تھا جو ایک بالکل
عام سی ہی زندگی گزار رہا تھا۔ میری زندگی
میں بھی ویسی ہی محرومیاں اور احساس کمتری شامل تھا جیسا کسی بھی عام آدمی کی
زندگی میں ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ میں اپنے اندر کی اس کمی پر کامیابی سے
پردہ ڈال کر زندگی گزار رہا تھا۔ جب تک کوئی مجھے بہت قریب سے نہ جان لیتا، اسے یہ
احساس نہیں ہوتا تھا کہ میری شخصیت میں کتنے جھول ہیں جن پر میں تصنع کا پردہ ڈال
کر گھوم رہا ہوں۔ شاید اس ہی وجہ سے میں کسی انسان کو بہت زیادہ قریب نہیں آنے دیتا
تھا۔
زندگی اپنے طور پر گزر رہی تھی مگر پھر ایک دن میری دوستی
ایک لڑکی سے ہوگئی۔ ہم دونوں کی پہلی مرتبہ بات آرکٹ پر ہوئی جہاں ایک کمیونٹی پر
روتیلی شاعری بھیجنے کا مقابلہ ہورہا تھا۔
اس مقابلے میں وہ اور میں مشترکہ فاتح قرار پائے تھے اور یہیں سے ہماری
دوستی کا آٖغاز ہوگیا۔ اس دن کے بعد سے ہم روزانہ ایک دوسرے کو سکریپ بھیجنے لگے۔
دو دو پیراگراف کے ٹیسٹیمونیئل ہر دوسرے دن آنے لگے۔ بات آرکٹ سے آگے نکل کر رات بارہ سے صبح سات تک
کے فری نائٹ پیکج تک پہنچ گئی ۔یہ سلسلہ کوئی ایک ماہ جاری رہا اور پھر ایک دن ہم
دونوں نے ملاقات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
کسی ریستوران میں ملتے تو پکڑے جانے کا ڈر تھا لہٰذا ہم نے
سرکاری لائبریری میں ملنے کا فیصلہ کرلیا کہ وہاں سوائے لائبریرین کے کوئی نہیں
جاتا تھا۔ صبح گیارہ بجے ملاقات کا وقت طے ہوا تھا مگر راستے میں بس والے کا چالان
ہوگیا اس لیئے مجھے پہنچتے پہنچتے سوا گیارہ ہوگئے۔ میں لائبریری کے اندر پہنچا تو
لائبریرین کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ میں ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے
کہ میرا موبائل بج اٹھا۔ موبائل نکال کردیکھا تو اس کا میسج آیا ہوا تھا کہ اس نے
مجھے بس سے اترتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اس کا میرے جیسے جھوٹے کے ساتھ گزارا نہیں
تھا جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا کہ اس کے پاس اپنی گاڑی ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ
آئندہ میں اس سے بات کرنے کی کوشش نہ کروں اور اسے بھول جاؤں۔
میں کافی دیر تک اپنے موبائل کی سکرین کو تکتا رہا اور پھر
غصے کی ایک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ سماج کیخلا ف جو نفرت میرے اندر مدت سے کہیں
چھپی ہوئی موجود تھی وہ طاقتور ہوکر سامنے
آگئی۔ دماغ میں عجیب خیالات آنے لگے کہ اگر میرا باپ بھی امیر آدمی ہوتا تو آج میں گاڑی پر
یہاں آتا اور میری محبوبہ مجھے چھوڑ کرنہیں جاتی۔ کیا تھا اگر خدا مجھے بھی کسی
امیر آدمی کے گھر پیدا کر دیتا؟ان ہی سوچوں کے درمیان مجھے احساس ہوا کہ میری
زندگی کی ان سب تکالیف کا اصل زمہ دار میرا باپ ہے، اگر وہ خود
محنت کرلیتا یا پھرکسی امیر عورت سے شادی کرلیتا تو مجھے آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔
والدین کی کوتاہیوں کا خیال آیا تو میں نے لائبریرین سے کہہ
کر والدین کے فرائض نامی کتاب نکلوائی اور پڑھنا شروع ہوگیا۔ جیسے جیسے میں کتاب
پڑھتا چلا گیا، میری آنکھوں پر پڑے پردے ہٹتے چلے گئے۔ مجال ہے کہ میرے والدین نے
کوئی ایک فرض بھی ڈھنگ سے ادا کیا ہو۔ میرا دل کیا کہ میں یہاں سے اٹھنے کے بعد
گھر جانے کے بجائے کہیں اور چلا جاؤں۔ کیا فائدہ ایسے فرض ناشناس والدین کا؟ پھر
مگر خیال آیا کہ میں اب تک کچھ کما نہیں رہا تھا اور اگر اس وقت گھر چھوڑنے کی
حماقت کی تو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے۔ میں نے گھر چھوڑنے کے خیال کو ترک کردیا
اور لائبریری سے اٹھ کر گھر آگیا۔
اس واقعے کو گزرے سات
آٹھ سال ہونے کو آرہے تھے مگر میں آج تک اس واقعے کے اثرات سے نکل نہیں
پایا ہوں۔ اب مجھے رہ رہ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ دنیا کتنی واہیات جگہ ہے۔ میرے
اپنے سگے ماں باپ میرے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
خواتین کا پیٹ صرف محبت سے نہیں بھرتا، انہیں پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ستم یہ تھا کہ میں اب پہلے کی طرح اپنے جذبات اپنے اندر قید
نہیں کرپاتا تھا۔دفتر کے ساتھی، محلے کے دوست،
خاندان والے، الغرض کون تھا جو میری قنوطیت سے تنگ نہ ہو؟ میں جہاں بیٹھتا
لوگوں پر تنقید شروع کردیتا۔ ہر سیدھی بات میں سے ٹیڑھ نکالنے کی کوشش کرتا۔ جس
چیز کو خود صحیح سمجھتا اسے دنیا کی سب سے صحیح چیز ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں
لگا رہتا۔ اور جس چیز کو غلط سمجھتا اسے دنیا کی بدترین و مکروہ ترین چیز ثابت کرے
بغیر چین سے نہ بیٹھتا۔ میری سیاسی ،
لسانی، مسلکی ترجیحات کے خلاف اگر کوئی غریب بات کرنے کی کوشش کرتا تو میں باتوں
باتوں میں اس کے خاندان تک کو رگید دیتا۔ میری اس عادت سے تنگ آکر لوگوں نے مجھ سے ملنا
چھوڑ دیا۔ محلے کے لوگ مجھے دیکھ کر راستہ بدلنے لگے۔ دفتر کے ساتھی مجھے دیکھتے
ہی جان بوجھ کر کام کی بات شروع کردیتے ۔ خاندان والوں نے ہمارے گھر آنا بند کردیا
اور گھر والوں نے مجھے اپنے ساتھ ان کے گھر لےجانا چھوڑ دیا۔ میں بھری دنیا میں
اکیلا ہوگیا تھا۔
میں اپنی زندگی سے بے انتہا مایوس ہوچکا تھا۔ وہ بھڑاس جو
لوگوں سے بات کرکے نکل جایا کرتی تھی اب اندر کسی لاوے کی طرح پک رہی تھی اور باہر
نہ نکلنے کی وجہ سے یہ لاوہ اب مجھے اندر ہی اندر گھلانے لگا تھا۔ میں زندگی سے
مایوس ہوکر سڑکوں پر گھوم رہا تھا کہ میری نظر اس لائبریری پر پڑی جس نے میری
زندگی کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا۔ میں جاکر
اس لائبریری کے باہر پڑےایک بینچ پر بیٹھ گیا اور موبائل نکال کر سب وے سرف کھیلنے
لگا۔ ابھی مجھے گیم کھیلتے تھوڑی ہی دیر
ہوئی ہوگی کہ ایک لڑکا آکر میرے برابر میں بیٹھ گیا۔ میں نے بغور اس کا جائزہ لیا
تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس کی شکل پر عجیب سے نحوست طاری ہے۔ بکھرے بال ، ملگجی
کپڑے، بڑھی ہوئ داڑھی، اور جسم سے اٹھتی ہوئی پسینے کی ناگوار بو جو بتا رہی تھی
کہ وہ مدت سے نہایا نہیں ہے۔ مجھے یقین
ہوگیا کہ یہ معاشرے کا دھتکارہ ہوا کوئی زندگی سے بیزار قسم کا انسان ہے جس کی
زندگی میں دوستوں اور خواتین کا کوئی گزر نہیں ہے
اور اس کے اندر بھی ویسا ہی لاوہ
بھرا ہوا ہے جیسا میرے اپنے اندر۔ مجھے اس لڑکے سے ہمدردی ہوگئی۔ میں نے اس سے بات
کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
تھوڑی ہی دیر کی گفتگو میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس لڑکے کے
بارے میں میرے تمام اندازے غلط تھے۔ وہ ایک نہایت مطمئن اور خوش باش زندگی گزار
رہا ہے۔ دوستوں کا ایک وسیع حلقہ ہے اور ایک چھوڑ تین تین گرل فرینڈز رکھتا ہے۔ میں
نےاس کامیاب انسان سے مدد مانگنے کا فیصلہ کرلیا اور ہمت جمع کرکے اپنی پوری
صورتحال اسے بتادی۔ وہ سنجیدگی سے میری کتھا سنتا رہا اور داستان ختم ہونے کے بعد
بولا، میرےنئے دوست! ایک زمانے میں میری
صورتحال تم سے بھی زیادہ بدتر ہوا کرتی تھی۔ میں زندگی سے اتنا مایوس تھا کہ میں
نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ایک دن میں خودکشی کرنے کیلئے نیند کی گولیاں کھا کر لیٹ بھی گیا۔ غنودگی سی طاری ہوئی تو دیکھا ایک جنت نما جگہ پرہوں۔ آگے بڑھا تو ایک مرد درویش کی زیارت نصیب ہوئی جنہوں نے مجھے
سمجھایا کہ خودکشی حرام ہے اور دنیا میں اب بھی ایک جگہ ایسی
ہے جہاں میرے اور تمہارے جیسے لوگوں کی قدر کی جاتی ہے۔ مایوسی چھوڑو اور اس یو آر ایل پر جاکر دیکھو۔بزرگ کی یہ بات سن کر میری آنکھ
کھل گئی۔ قے کرکے ساری دوائی باہر نکالی اور اس ویب سائٹ پر چلا گیا۔
وہاں جاکر
مجھے اندازہ ہوا کہ میری تمہاری جیسی وہ تمام نفسیاتی آتمائیں جن کی دنیا میں کوئی
نہیں سنتا وہ اس ویب سائٹ پر موجود تھیں۔بالآخر
مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی تھی جہاں میں بلامقصد جو جی میں آئے بول سکتا تھا۔ جس کی
دل چاہے عزت اتار سکتا تھا۔ دھڑلے سے ٹھرک جھاڑ سکتا تھا۔ سب کے سامنے رو سکتا تھا۔ بلکہ ان باتوں پر بھی
رو سکتا تھا جن کا کوئی وجود نہ ہو۔ اس جگہ کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ جو جتنا بڑا نفسیاتی تھا وہ اتنا ہی مشہور تھا۔ تم بھی یہ ویب سائیٹ جاکر دیکھو۔ خدا تمہاری مشکلات
آسان کرے۔
میں نے ناک پر ہاتھ رکھ کر اس لڑکے کے ہاتھ چومے اور وہاں سے اٹھ آیا۔ مجھے زندگی
گزارنے کا نیا طریقہ مل چکا تھا۔
میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں ایک
مشہور ٹوئیٹر سلیبرٹی ہوں جس کو پانچ ہزار کے قریب انسان فالو کرتے ہیں اور میں سب کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ "جس کا دنیا میں کوئی نہیں ہوتا، اس کا ٹوئیٹر
پر اکاؤنٹ ہوتا ہے۔"