ہفتہ، 2 اپریل، 2016

غیرت مند

میں جب کمرے میں پہنچا تو عروسی لباس میں وہ ڈری، سہمی، بہت سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ محض سترہ سال کی عمر میں اسے بیاہ کر بھیج دیا گیا تھا اور شادی سے ایک ہفتہ پہلے سے نصائح کے نام پر شادی زدہ خواتین نے  آنے والی زندگی کے جو نقشے کھینچے تھے اس کے بعد اس کا سہم جانا نہایت قابلِ فہم تھا۔

ایسا نہیں کہ وہ کوئی بہت سادہ لڑکی رہی ہو۔ اپنی دوستوں کے حلقے میں وہ گولی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اور وہ تھی بھی
 گولی جیسی۔ زبان تو خیر گولی کی طرح چلتی ہی تھی ساتھ میں سکول اور اس کے بعد کالج میں بھی وہ ہمیشہ دوڑ اور جمناسٹک میں سب سے آگے رہتی، اور جب کھیلتی تو جیت کر لوٹتی تھی۔ ابھی وہ گیارہویں میں ہی تھی کہ کالج کی ایک لیکچرر کو اپنے چھوٹے بھائی عاطف کے لئے پسند آگئی اور بارہویں کے امتحانات سے فراغت پاتے ہی اس کے ہاتھ پیلے کر دیے گئے اور آج وہ رخصت ہوکر اپنے سسرال پہنچ چکی تھی۔

ابتدائی سلام دعا کے درمیان وہ جھجکتی ہی رہی مگرمیں  نے یہ مرحلہ اس کے لئے آسان کر دیا اور اسے بولنے کا تردد نہیں
 کرنا پڑا کہ سارا وقت میں ہی بولتا رہا اور یہ خاموشی سے سر جھکائے  میری سابقہ زندگی کے کارنامے سنتی رہی۔تمہیدی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے مطلب پر آگیا اور اٹھ کر کمرے کی بتی بجھا دی۔

فراغت کے بعد جب میں نے اٹھ کر کمرے کی بتی دوبارہ جلائی تو بستر کی چادر ویسی ہی صاف تھی جیسی کہ اس کے اس کمرے میں آنے سے پہلے تھی۔ میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے اس سے صاف صاف پوچھ لیا کہ آیا وہ مجھ سے پہلے بھی کسی مرد کے ساتھ تعلقات رکھ چکی ہے۔  میرے سوال پر کچھ دیر کے لئے تو وہ بھونچکی سی ہو گئی مگر پھر اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس نے حیرت اور گھن کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بولی، نہیں! آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں؟  میں نے اس کی توجہ بستر کی چادر کی جانب کرائی جہاں خون کا ایک معمولی دھبا تک موجود نہ تھا۔ اس نے معصومیت سے جوابی سوال داغ دیا کہ اس بات کا اس کے بدکردار ہونے سے کیا تعلق؟ تس پہ میں نے جھلا کر اسے تفصیل سے سمجھادیا اور ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ غیرتمند مرد اس معاملے میں بیویوں کا خون بھی کردیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ میرے سمجھانے پر وہ شرمندہ ہوتی ، اس نے الٹا مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ  کر دی کہ آیا اس پردہ بکارت کے ضائع ہونے کی صرف یہی ایک صورت ہے؟ اور  اگر آپ کے بقول خدا نے باکرہ عورت کی پہچان کے لئے یہ نشانی رکھی ہے تو دوسری بار یہ فعل انجام دینے والے مرد کے لئے خدا کی جانب سے کیا نشانی رکھی گئی ہے؟ یہ بکارت محض عورت کے لئے ہی کیوں لازم ہے؟  اور آیا غیرتمند خواتین کو بھی مردوں کی طرح اپنے شوہروں کو اس بات پر مار دینا چاہئے؟


شادی پر اٹھنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کے باوجود مطلوبہ چیز نہ ملنے پر میرا خون ویسے ہی کھول رہا تھااور اوپر سے اس کے فضول کے سوالات نے میرا پارہ اور چڑھا دیا۔ اب میرا خرچہ پورا ہونے کے لئے کہیں نہ کہیں سے تو خون نکلنا ضروری ہوگیا تھا۔ میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا گلدان اٹھایا اور اس کے منہ پر ضربیں لگانی شروع کردیں اوراس وقت تک نہ رکا جب تک وہ رنڈی بے جان ہوکر میرے ہاتھوں میں نہیں جھول گئی۔ اس کی چیخوں کی آواز سن کر کمرے کے باہر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے تھے اور مسلسل دروازہ پیٹ رہے تھے مگر میں مطمئن تھا کہ آج کے بعد میری غیرتمندی پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔

نوٹ: اس کہانی کا اصل عنوان "رنڈی" ہے مگر آپ جیسے منافقین کی سہولت کے لئے اس کا عنوان تبدیل کردیا گیا ہے   تاکہ  اس تحریر کو پھیلاتے ہوئے آپ کی  خودساختہ تہذیب نہ آڑے آئے 

2 تبصرے :

  1. آپ کے قلم میں سیاہی کی بجائے خون بھرا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ بعض اوقات خون اگلتے ہیں مگر شاید غلطی آپ کی نہیں

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت