مجھے
معلوم ہے تم منتظر ہو
کہ ہر سال گذشتہ کی طرح سے
رسم اک بار پھر دہرائی جائے
تخیل کی حسیں وادی میں جا کر
خیالی وصل
کے لمحوں کی راحت
وفا کے باب
کے سارے فسانے
مثالی اک
تعلق سوچ کر میں
حسیں الفاظ
کے قالب میں ڈھالوں
تمہارے نام
پہ غزلیں تراشوں
حسیں عنوان
کے روشن سے قصے
تمہارے نام
سے منسوب کر کے
جہاں کو
پھر سے یہ احساس دوں کہ
یہ رشتہ کس
قدر کا معتبر ہے ۔۔۔۔
میری
جاں اب مگر میں تھک چکا ہوں
یہ
چوبیس سال کی دوری ہے جاناں)
(قرار واقعی میں تھک چکا ہوں
میں
لکھوں کس طرح تم ہی بتائو
گذشتہ
شب سے ہی یہ سانحہ ہے
تخیل
کی بلندی سرنگوں ہے
قلم
اب تاب کھوتا جا رہا ہے
فقط
الفاظ باقی رہ گئے ہیں
ہر
ایک احساس مٹتا جا رہا ہے
میں
تیرے ساتھ اس دن مر گیا تھا
اور
اب اندر کا شاعر مر گیا ہے
سید
عاطف علی
23-Oct-2013
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں