پیر، 20 فروری، 2017

پیر صاحب

جیل سے فرار ہوئے مجھے ایک ماہ سے اوپر ہوگیا تھا اور میں مسلسل بھاگتا پھر رہا تھا۔ گو کہ اس ایک ماہ میں میرا حلیہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا مگر مجھے ڈر تھا کہ پولیس نے میری تلاش میں اشتہارات نہ لگوا دیئے ہوں۔ پہچانے اور پھر دوبارہ پکڑے جانے کا خوف مجھے کسی بھی ایک جگہ زیادہ دن رکنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ اس ہی فرار کی حالت میں خدا معلوم کن رستوں سے ہوتا ہوا میں اس گائوں پہنچ گیا تھا۔
یہ ایک نہایت پسماندہ اور دور افتادہ گائوں تھا۔ بمشکل چند ہزار کی آبادی تھی اور سہولیات زندگی نہ ہونے کے برابر۔ آس پاس کے چار چار گائوں تک نہ کوئی سکول تھا نہ ہسپتال۔ گائوں کے لوگوں کو البتہ ان چیزوں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیا تھا اور اب وقت کے ساتھ اتنے سمجھدار ہوگئے تھے کہ کسی غریب کی طبیعت اگر زیادہ خراب ہو جاتی تو پیسے علاج پر خرچ کرنے کے بجائے تدفین کیلئے جوڑ لیئے جاتے تھے۔
سادہ سا گائوں تھا اور سادہ سے لوگ۔ یہاں ابھی تک ہاتھ باندھنے یا کھول کر نماز پڑھنے کے جھگڑے نہیں پہنچے تھے کہ یہ لڑائیاں وہاں ہوتیں جہاں نماز بھی ہوتی ہو۔ گائوں میں نہ کوئی مسجد تھی نہ مولوی! کبھی بھولا بھٹکا کوئی مولوی اگر آبھی جاتا تو ان گائوں والوں کی غربت دیکھتے ہوئے کسی ذیادہ منافع بخش جگہ کی تلاش میں آگے نکل جاتا تھا۔ شادی بیاہ اور میت کیلئے شہر سے مولانا صاحب بلائے جاتے تھے جبکہ روزمرہ کی زندگی کیلئے اللہ، رسول کے نام ان گائوں والوں کو معلوم تھے اور انکے لیئے یہی بہت تھے کہ مذہب ان کیلئے بس اتنا ہی اہم تھا کہ ان کے نزدیک جب زندگی میں کوئی راستہ نہ دکھے تو اللہ رسول کا نام لے کر رونے سے وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اور اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو کچھ گائوں چھوڑ کر ایک پیر صاحب کا ڈیرہ تھا جہاں جاکر نذرانہ چڑھانے سے کام ہوجائے گا۔
جب میں گائوں میں داخل ہوا تو رات گہری ہوچکی تھی اور گائوں کے کتے تک سوچکے تھے۔ میں کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا گائوں کے وسط میں واقع ایک برگد کے نیچے جا کر لیٹ گیا۔ جسم پھوڑا بن چکا تھا اور تھکن کی وجہ سے مزید جاگنا محال تھا۔ میں نے چادر کاندھے پر سے اتاری اور منہ پر تان کر سو گیا۔
کب رات گزری اور کب صبح ہوئی مجھے احساس تک نہیں ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو گائوں کے بوڑھوں اور بچوں میں گھرا پایا جو بڑی دلچسپی اور حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں ابھی تک نیم خوابی کے عالم میں ہی تھا اور کانونٹ کے دنوں کی بری عادت سے مجبور، بے دھیانی میں انگریزی میں ہی بات کرتا تھا۔
( میرا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اور اگر ریپ کے کیس میں پکڑا نہ جاتا تو آج میں بھی شہر میں ایک عزت دار زندگی گزار رہا ہوتا۔ تمام تر تعلیم اور تربیت کے بعد بھی میں اپنے اندر کے اس درندے کو روک نہیں پاتا تھا جو خواتین کو دیکھتے ہی میرے اندر بیدار ہوجاتا تھا۔ معاشرے کو بھی میری اس بیماری سے فرق نہیں پڑتا کہ میرے جرم کی اصل سزا یہ معاشرہ مجرم کو نہیں بلکہ جرم کا شکار ہونے والے مظلوم کو دیتا تھا۔ خودساختہ عزت بچانے کے ڈر سے کبھی کسی نے میرے خلاف رپورٹ نہیں کروائی تھی کہ اگر وہ غریب میرے خلاف تھانے جاتیں تو اول تو معاشرہ انہیں جینے نہیں دیتا اور دوسرا وہ بیچاری وہ چار گواہ کہاں سے لاتیں جو یہ کہتے کہ ہاں ہم نے بےغیرتوں کی طرح اس کی عزت لٹتے ہوئے دیکھی اور ہم نے اس وقت تو کچھ نہیں کیا مگر آج گواہی دینے آگئے ہیں۔ زندگی عیاشی میں گزر رہی تھی مگر غلطی سے میں نے ایک طاقتور کی بیٹی پر ہاتھ صاف کردیا۔ چار کی جگہ چار سو گواہ بھی آگئے اور کیس بھی اس لڑکی کے بجائے اس کی ملازمہ کی عزت لٹنے کا بنا۔ خود تو مردود صاف نکل گئی اور ہمیں عدالت نے سات سال کی بامشقت سزا سنادی۔)
میں نے انگریزی میں انہیں جھاڑا کہ تم یہاں کون سا تماشہ دیکھنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہو؟ میں کوئی چڑیا گھر کا جانور نہیں جسے اس طرح ہجوم بنا کر دیکھنے کیلئے تم لوگ یہاں جمع ہوئے ہو! دفع ہوجائو!!! گائوں والے سراسیمہ ہوکر اِدھر ادھر ہوگئے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں واپس آگئے۔ اس بار ان سب کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں جو وہ میری خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ گائوں کے بزرگوں نے واپس جاکر گائوں بھر کو خوشخبری دے دی تھی کہ اب علاج کیلئے چار کوس دور پیر صاحب کے پاس نہیں جانا پڑے گا کیونکہ خود ہمارے گائوں میں ایک اللہ لوک بزرگ تشریف لے آئے ہیں جو جنات کی بولی بھی جانتے ہیں۔
آنے والے چند ہی دنوں میں میں ایک نیم پکے مکان میں منتقل ہوچکا تھا جو گائوں کے چوہدری صاحب نے بطور خاص میرے لیئے بنوایا تھا۔ چوہدری صاحب خود تو اس گائوں میں نہیں رہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ گائوں والوں کو ان کی ذہنی اور جسمانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے میں میں کتنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہوں۔ مجھے بھی انکی نوازشات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ مجھے صرف کچھ وقت گزار کر یہاں سے آگے چلے جانا تھا۔ یہ پیری فقیری میرے بس کی چیز نہیں تھی اور کسی بھی دن اگر بھانڈہ پھوٹ جاتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
گائوں کے لوگوں کو اب ایک نیا شغل اور امید مل گئی تھی۔ پیر صاحب کیا آئے، زندگی کے ہر مسئلے کا حل ان کے ہاتھ آگیا۔ وہ اپنی ذندگی کے تمام مسائل کا رونا اب میرے پاس آکر رونے لگے۔ مجھے صرف تین وقت کے کھانے اور وقتی پناہ سے مطلب تھا سو میں ان کی اس بکواس کو اس کھانے کی قیمت سمجھ کر سن لیتا۔ گائوں والے مجھ سے بہت خوش تھے۔ اندر کی تمام بھڑاس نکالنے کے بعد وہ قدرتی طور پر بہتر محسوس کرتے اور اسے میری کرامت سے منسوب کردیا جاتا۔ دوسری چیز جو میرے حق میں گئی وہ یہ تھی کہ آس پاس کے گائوں والے بھی اب دعا کروانے میرے پاس آنے لگے تھے جس سے گائوں والی کی عزت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
دن ہفتوں میں بدل گئے اور اب میں اس تماشے سے اکتانے لگا۔ میں اب گائوں سے روانگی اور آگے کی منازل کے بارے میں سوچنے ہی لگا تھا کہ کل میرے پاس گائوں کا ایک بے اولاد جوڑا آگیا۔ وہ دونوں اولاد نہ ہونے کے غم سے پریشان تھے۔ میں نے تسلی سے ان کی بات سنی اور انہیں یقین دلایا کہ میں ان کیلئے خصوصی دعا کروں گا۔ وہ دونوں خوشی خوشی وہاں سے اٹھ کر جانے لگے تو بدقسمتی سے اس کی بیوی کے چہرے سے چادر کھسک گئی۔ میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو میں نے اس ہی وقت اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ میں نے اس کے شوہر کو کہا کہ کل وہ اپنی بیوی کو میرے حجرے پر چھوڑ جائے کہ یہ معاملہ دعا سے زیادہ دوا کا ہے۔ مجھے ایک مخصوص عمل کرنا ہوگا جس کے بعد تم دونوں کو اولاد کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ ان دونوں میاں بیوی کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ وہ اگلے دن اپنی بیوی کو لانے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
پوری رات میں صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اگلے دن میں نے صبح ہی اپنے خاص مرید کے ذریعے، آنے والے تمام لوگوں کو کہلوادیا کہ آج مرشد ایک خاص عمل کر رہے ہیں جس کیلئے انہیں تنہائی اور انہماک کی ضرورت ہے سو آپ لوگ اب کل آئیے گا۔ جب تمام مرید چلے گئے تو میں نے اس خاص خادم اور مرید کو بھی رخصت کردیا اور تیار ہوکر ان میاں بیوی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ وہ دونوں میاں بیوی بھی پہنچ گئے۔ میاں کو میں نے دروازے سے ہی رخصت کردیا اور اندر پہنچتے ہی اس عورت پر ٹوٹ پڑا۔ وہ بیچاری چپ چاپ سب کچھ سہتی رہی اور آخر میں اپنے آپ کو سنبھالتی، روتی ہوئی حجرے سے نکل کر بھاگ گئی۔
اس کے جانے کے بعد مجھے ہوش آیا کہ یہ میں کیا کر بیٹھا ہوں۔ اگر اس نے یہ بات اپنے شوہر کو بتادی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ان علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل ایک معمول کی بات تھی۔ میں تیزی سے باہر نکلا کہ اس سے پہلے وہ عورت جاکر اپنے شوہر کو یہ بات بتائے میں اسے پکڑ کر کسی طرح قائل کرلوں کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ میں رہنی چاہیئے۔ جنت جہنم کی چار باتیں ان گائوں والوں کو ڈرانے اور للچانے کیلئے بہت تھیں کہ یہ لوگ جہنم سے بے انتہا ڈرتے تھے۔ میں بھاگتا ہوا جا رہا تھا کہ مجھے وہ عورت ایک کھیت میں داخل ہوتی ہوئی دکھی۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے لپکا مگر اس سے پہلے کہ میں اس تک پہچتا وہ اپنے میاں تک پہنچ چکی تھی۔ میں وہیں پیچھے کھڑے ہوکر سننے لگا۔ وہ عورت رو رو کر اپنے شوہر کو بتا رہی تھی کہ اس سے ایک عظیم گناہ سرزد ہوچکا ہے اور اب وہ اس کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس کے شوہر نے اس کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیا ہوگیا؟ اس عورت نے جواب دینے کی کوشش کی مگر سوائے ہچکیوں کے کوئی آواز نہیں نکل پائی۔ تھوڑی دیر وہ اس ہی طرح دھاڑیں مارتی رہی اور پھر بمشکل سسکیوں کے درمیان بولی کہ اب وہ جہنمی ہوگئی ہے اور اب اپنے شوہر تو کیا کسی  انسان کے بھی لائق نہیں رہی ہے۔
میں کھیت میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور میرا خود کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ گائوں میں رکتا تو گائوں والے مار ڈالتے اور اگر گائوں چھوڑ کر بھاگتا تو پولیس مجھے نہیں چھوڑتی۔ مجھے جو بھی فیصلہ کرنا تھا نہایت سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔ میں تمام ممکنات کا جائزہ لے رہا تھا کہ اس عورت کے شوہر کی آواز ایک مرتبہ پھر آئی جو اپنی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ رونے سے کچھ نہیں ہوگا اور اسے اپنے شوہر پر بھروسہ کرتے اسے اعتماد میں لینا چاہیئے۔ وہ عورت بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے بولی، اب کچھ نہیں ہوسکتا! مجھے جہنم میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پیر صاحب جب عمل کر رہے تھے تو میری ناپاک ٹانگیں ان کی داڑھی مبارک پر لگ گئیں! تو خود بتا اب مجھے جہنم میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ میں دم بخود ان کی گفتگو سن رہا تھا اور پھر میری آنکھوں نے ایک حیران کن منظر دیکھا۔ اس کے شوہر نے اس کا ہاتھ تھاما اور بولا، پیر صاحب بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں! چل کر مل کر ان سے بات کریں گے تو مجھے یقین ہے وہ تجھے معاف کردیں گے۔ چل آجا مرشد سائیں سے معافی مانگ کر آئیں۔
میں نے ایک مرتبہ پھر دوڑ لگادی۔ اس مرتبہ میرا رخ واپس اپنے حجرے کی طرف تھا جہاں میں باقی کی پوری زندگی اطمینان سے گزار سکتاہوں۔

9 تبصرے :

  1. janab is tehreer pr tabsara krne ke liye mere paas alfaaz nahi hein, faqt do lfz 'Bohat Khoob!'

    جواب دیںحذف کریں
  2. Char gawah aur Charsoo gawah ki kahani....represent our society

    جواب دیںحذف کریں
  3. Education is very important, both religious and worldly. BTW the story is good ...

    جواب دیںحذف کریں
  4. Allaaa.........

    Bilaaa Unwaaan

    جواب دیںحذف کریں
  5. yaar bht aala,
    class kei writings hain aap ki
    maza aa gya.
    keep it up man. u can go in the range of minto of this time indeed

    جواب دیںحذف کریں
  6. i really appreciate ur "zaraf" for writing such an audacious work.
    really really appreciate u. kaafi arseh keh baad kuch acha parhneh ku mila >

    جواب دیںحذف کریں
  7. Too big of a compliment sir :) need your wishes ... grateful.

    جواب دیںحذف کریں
  8. خوب ۔۔۔ جتنا سمجھ آیا اچھا لگا ۔۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت