اتوار، 26 فروری، 2017

وشواس گھات

مجھےاس کی بات مان لینی چاہئے تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ دنیا گول نہیں حرامی ہے۔انسانوں کی باتوں پر بھروسہ کرو گے تو یہی ہوگا جو میرے ساتھ ہوا۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا اب بات کرنے سے فائدہ؟ یہ کہہ کر اس  نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اسے نیچے پھینک کر  مسلتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ 
اس کا نام کچھ تو رہا ہوگا مگر نام میں کیا رکھا ہے؟ ہم نے عبداللہ نام کے عبدالشیطان بھی دیکھ رکھے ہیں!  سو اس کا نام جو کچھ بھی رہا ہو وہ جیل میں پہنچنے سے پہلے بھی جیل میں گونجتا تھا۔ چھوٹے موٹے جیب کتروں سے لے کر بڑے بڑے قاتلوں تک سب اس کی عظمت کے معترف تھے۔ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور تھی۔ مگر اس کی وجہ شہرت یہ سینکڑوں قتل نہیں بلکہ ان سینکڑوں جرائم کے باوجود کبھی پکڑا نہ جانا تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والی لاش کوئی نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔  یہی وجہ تھی کہ وہ اتنی مدت سے آزاد گھوم رہا تھا۔ مگر اب سب افسانے انجام کو پہنچ چکے تھے اور وہ خود ایک لاش کو دباتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوچکا تھا۔
اس کی گرفتاری کی خبر جب جیل میں پہنچی تو ایک جشن کا سا سماں برپا ہوگیا۔ جیل کی کیفیت ایسی تھی جیسے تامل ناڈو کے کسی قصبے میں لوگوں کو پتہ چل جائے کہ رجنی کانت ان کے ساتھ رہنے کے لئے آنے والا ہے۔ جو بڑے قیدی تھے وہ اس کوشش میں مصروف تھے کے کسی طرح آنے والا ان کے قریبی بیرک  میں رکھا جائے۔ جو ان بڑے قیدیوں کے چمچے تھے وہ سیاسی کارکنان کی طرح اس بات پرشیخیاں بگھارتے پھر رہے تھے کہ اس جنگ میں جیت ان کے مجازی باپ کی ہی ہوگی۔ اور جو قیدی کسی گنتی میں نہیں آتے تھے ان کی کیفییت بھی کسی گنتی میں نہیں آتی تھی کہ اس کے بارے میں کوئی فکر کرے تو اس پر لعنت بھیجتے ہوئے ہم واپس داستان کی طرف آجاتے ہیں۔
خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور قرعہ فال ایک مشہور سیاسی جماعت کے ایک گمنام کارکن کے نام آیا جو اپنے  نامور رہنما کے کردہ گناہوں کا الزام اپنے سر لے کر دنیا میں جنت کما بیٹھا تھا۔
جیل میں پہنچتے ہی اس کے پاس ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا تھا مگر ایک تو وہ بات چیت کے اندر لیا دیا رہنے والا آدمی تھا اور دوسرا اس کی شخصیت کا رعب ایسا تھا کہ لوگ زیادہ سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں جٹا پاتے تھے ۔ سو اس کی گرفتاری کا معمہ ہنوز ایک معمہ ہی تھا۔لوگ اس کی بیرک میں جمع ہوکر اس امید پر  آپس میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے  کہ شاید وہ بھی شریک سخن ہوگا اور کھلے گا مگر وہ کبھی ان کی گفتگو میں شریک نہیں ہوتا۔ بس خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہتا اور ہوں ہاں سے زیادہ گفتگو میں شریک نہیں ہوتا تھا۔
ایک ہفتے تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور جب لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ یہ راز، راز ہی رہے گا تو اس دن وہ خود ہی نجانے کس ترنگ میں آکر بولنا شروع ہوگیا۔ تم لوگ روزانہ اس امید پر یہاں جمع ہوتے ہو کہ میں تمہیں اپنی کہانی سناؤں گا۔ اپنے گُر تم لوگوں کو سکھاؤں گا۔ اپنا ہنر تم لوگوں میں منتقل کروں گا۔ مگر تم لوگ نہیں جانتے کہ میں کس حد تک اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔ میرا خود پر ۔ انسانیت پر۔ بلکہ یوں کہو کہ خود بھروسے پر سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ میں کسی کو کیا سکھاؤں گا؟ کیسے سکھاؤں گا؟ اگر سیکھا ہوا ہوتا تو آج تمہارے درمیان نہیں بیٹھا ہوتا۔ آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوتا۔مجھ سے زیادہ تو وہ خاتون جانتی تھی جس کا اگر بس چلتا تو وہ خاتون کی جگہ مختون ہوتی۔ مگراس ہی پر کیا موقوف؟ دنیا میں جو کوئی بھی خاتون ہے اگر اس کا بس چلے تو وہ مختون کہلائے۔ خیر میں بھی کن فضول فلسفے کی باتوں میں پڑگیا۔  میں تو بس انسانیت کا بھلا چاہتا تھا۔ درخت پر جب پتے اور شاخیں زیادہ ہوجائیں تو انسان انہیں چھانٹ دیتا ہے۔ دنیا بھی ایک درخت ہی تو ہے۔ میں تو بس اسے کاٹ چھانٹ کر خوبصورت رکھنا چاہتا تھا۔ خود انصاف کرو کہ کیا اب یہ بھی جرم ہے؟ خدا نے انسانوں کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا یہ خدا ہی جانے مگر ہم انسان اپنی نسل کی افزائش کس لئے کرتے ہیں؟  ہم بیٹیاں جنتے ہیں تاکہ وہ ہمارے لئے بیٹے جن سکیں۔ اور ہم بیٹے جنتے ہیں تاکہ وہ ان بیٹیوں سے مزید بیٹے جنوا سکیں۔  عورت کیا ہے؟ بچے پیدا کرنے کے لئے ایک مشین! اس سے زیادہ کیا؟ اور مرد کیا ہے؟ ان عورتوں سے بچے پیدا کرنے کے علاوہ محض ایک اے ٹی ایم کارڈ کہ جس سے پیسے نکلوائے جاسکیں۔ اب اگر کوئی چیز اپنا مقررہ کام کرنا بند کردے تو آپ کیا کرتے ہو؟ ہاتھ سڑ جائے تو ہاتھ کاٹنا پڑتا ہے بابو! ڈاکٹر بھی یہی کام کرتا ہے اور اس کام کے پیسے  بھی لیتا ہے۔ میں انسانیت کا ڈاکٹر ہوں۔ جب کوئی عورت بچے پیدا کرنے سے انکار کردے یا محض لڑکیاں جننا شروع ہوجائے تو وہ سڑی ہوئی عورت ہے۔ معاشرے کا بوجھ۔ میں تو بس معاشرے کو اس سڑی ہوئی عورت سے نجات دلاتا تھا۔  اور چونکہ معاشرہ اس بات کو سمجھتا تھا اس لئے کسی کی صحت پر ان خواتین کے کم ہوجانے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ یہ اموات اول تو خبر بنتی نہیں تھیں اور اگر بن بھی جائیں تو اخبار کے تیسرے صفحے کی خبر کون پڑھتا ہے؟ وہ کہتے کہتے دم لینے کے لئے رکا تو مجمعے میں موجود ایک شدید مرد بول اٹھا، عورتوں کا قتل تو سمجھ آتا ہے مگر مردوں کو مردے بنانا کہاں کی انسانیت ہے؟ اور کوئی ہوتا تو شاید اس چبھتے ہوئے سوال پر بھنا جاتا مگر اس نے مسکراتے ہوئے سگریٹ سلگائی اور کہا، جب مرد پیسے کمانا چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی معاشرے کا بوجھ ہوجاتا ہے۔ بھوک کی بیماری اچھے خاصے مرد کو بھی فلسفی کردیتی ہے۔ وہ معاشرتی تقسیم، ظلم و استبداد وغیرہ جیسے مشکل الفاظ سیکھ جاتا ہے اور موقع محل دیکھے بغیر ان کا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے آدمی کی وجہ سے معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا اس کا ٹھکانے لگنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ مگر محض معاشرے کی اصلاح کے نام پر لوگوں کو مارنا؟ بغیر پیسے لئے؟ کیا یہ دھندے کے بنیادی اصول کے خلاف نہیں ہے؟ ایک اور جذباتی نوجوان بول پڑا۔  یہ سوال سن کر وہ ہنس پڑا تھا۔ کہا، اب کل کے بچے مجھے دھندے کے اصول سکھائیں گے؟ میں نے آج تک بغیر پیسے لئے کبھی کام نہیں کیا!  ان بھوکوں کے مارنے کے لئے پیسے مجھے پیٹ بھرے لوگ دیتے تھے۔  کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان بھوکوں کا مرنا کس حد تک ضروری ہے۔
وہ سب تو ٹھیک ہے۔ میں نے مان لیا کہ تو ایک عظیم آدمی ہے۔ انسانیت کا درد رکھتا ہے۔ ساری باتیں اپنی جگہ ٹھیک مگر مجھے یہ بتا کہ تو ان لاشوں کا کرتا کیا تھا؟ کبھی کوئی لاش ملی کیوں نہیں؟ اور اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ تو پکڑا گیا؟ دو تین لوگوں کو سوال کرتا دیکھ کر ایک بوڑھے قیدی نے بھی ہمت پکڑ لی تھی اور بالآخر وہ سوال کر بیٹھا جس کا جواب سننے کے لئے وہ لوگ روز یہاں جمع ہوا کرتے تھے۔
اس نے درمیان پہ پہنچی ہوئی سگریٹ کی طرف دیکھا اور ایک گہرا کش بھرتے ہوئے گویا ہوا، بہت آسان تھا چاچا! میں بس لاش کو لے جا کر کتب خانوں میں دبا آتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ واحد جگہ ہے جہاں انسان تو کیا انسان کا شک تک بھی نہیں جاتا۔لوگ رات کی تاریکی میں لاشیں  دبانے والوں کو ڈھونڈتے تھے اور میں دن دہاڑے لائبریری میں مردے گاڑ آتا تھا۔
خیال تو بہت عمدہ ہے مگر پھر تو پکڑا کیسے گیا؟ بوڑھے قیدی سے اب بالکل ضبط نہیں ہورہا تھا۔ اس نے ایک تلخ مسکراہٹ بوڑھے کی سمت اچھالی اور ایک بار پھر بول اٹھا،  انسانوں پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے! لاشوں کو دباتے ہوئے ایک اہم بات کا اور خیال رکھنا ہوتا تھا کہ جس وقت یہ کام سر انجام دیا جائے اس وقت لوگ کسی انسانی جان سے بھی زیادہ اہم کام میں مصروف ہوں۔ دو ہفتے پہلے میں نے بھی ایک لاش کو ٹھکانے لگانا تھا اور میں نے اپنے ایک دوست سے اچھی طرح تسلی لینے کے بعد اس رات لڑکی کا کام اتارا اور اگلے دن لاش دبانے کے لئے جب نکلا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ لاہور اور کراچی کا کرکٹ میچ دن کے وقت ہے مگر یہ افواہ تھی۔ اس دن کیا ، اگلے تین دن تک کوئی میچ نہیں ہونے والا تھا اور قوم بالکل فارغ بیٹھی تھی اس لئے یہ قتل خبر بن گیا اور میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔ اور اب جب تک اگلا بڑا ٹورنامنٹ شروع نہیں ہوتا یہیں سڑوں گا!
غلطی میری تھی! مجھے خود سے میچ کا شیڈول دیکھ کر نکلنا چاہئے تھا یا شاید میری غلطی یہ تھی کہ مجھےاس خاتون کی بات مان لینی چاہئے تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ دنیا گول نہیں حرامی ہے۔انسانوں کی باتوں پر بھروسہ کرو گے تو یہی ہوگا جو میرے ساتھ ہوا۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا اب بات کرنے سے فائدہ؟ یہ کہہ کر اس نے  سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اسے نیچے پھینک کر  مسلتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ 



پیر، 20 فروری، 2017

پیر صاحب

جیل سے فرار ہوئے مجھے ایک ماہ سے اوپر ہوگیا تھا اور میں مسلسل بھاگتا پھر رہا تھا۔ گو کہ اس ایک ماہ میں میرا حلیہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا مگر مجھے ڈر تھا کہ پولیس نے میری تلاش میں اشتہارات نہ لگوا دیئے ہوں۔ پہچانے اور پھر دوبارہ پکڑے جانے کا خوف مجھے کسی بھی ایک جگہ زیادہ دن رکنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ اس ہی فرار کی حالت میں خدا معلوم کن رستوں سے ہوتا ہوا میں اس گائوں پہنچ گیا تھا۔
یہ ایک نہایت پسماندہ اور دور افتادہ گائوں تھا۔ بمشکل چند ہزار کی آبادی تھی اور سہولیات زندگی نہ ہونے کے برابر۔ آس پاس کے چار چار گائوں تک نہ کوئی سکول تھا نہ ہسپتال۔ گائوں کے لوگوں کو البتہ ان چیزوں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیا تھا اور اب وقت کے ساتھ اتنے سمجھدار ہوگئے تھے کہ کسی غریب کی طبیعت اگر زیادہ خراب ہو جاتی تو پیسے علاج پر خرچ کرنے کے بجائے تدفین کیلئے جوڑ لیئے جاتے تھے۔
سادہ سا گائوں تھا اور سادہ سے لوگ۔ یہاں ابھی تک ہاتھ باندھنے یا کھول کر نماز پڑھنے کے جھگڑے نہیں پہنچے تھے کہ یہ لڑائیاں وہاں ہوتیں جہاں نماز بھی ہوتی ہو۔ گائوں میں نہ کوئی مسجد تھی نہ مولوی! کبھی بھولا بھٹکا کوئی مولوی اگر آبھی جاتا تو ان گائوں والوں کی غربت دیکھتے ہوئے کسی ذیادہ منافع بخش جگہ کی تلاش میں آگے نکل جاتا تھا۔ شادی بیاہ اور میت کیلئے شہر سے مولانا صاحب بلائے جاتے تھے جبکہ روزمرہ کی زندگی کیلئے اللہ، رسول کے نام ان گائوں والوں کو معلوم تھے اور انکے لیئے یہی بہت تھے کہ مذہب ان کیلئے بس اتنا ہی اہم تھا کہ ان کے نزدیک جب زندگی میں کوئی راستہ نہ دکھے تو اللہ رسول کا نام لے کر رونے سے وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اور اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو کچھ گائوں چھوڑ کر ایک پیر صاحب کا ڈیرہ تھا جہاں جاکر نذرانہ چڑھانے سے کام ہوجائے گا۔
جب میں گائوں میں داخل ہوا تو رات گہری ہوچکی تھی اور گائوں کے کتے تک سوچکے تھے۔ میں کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا گائوں کے وسط میں واقع ایک برگد کے نیچے جا کر لیٹ گیا۔ جسم پھوڑا بن چکا تھا اور تھکن کی وجہ سے مزید جاگنا محال تھا۔ میں نے چادر کاندھے پر سے اتاری اور منہ پر تان کر سو گیا۔
کب رات گزری اور کب صبح ہوئی مجھے احساس تک نہیں ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو گائوں کے بوڑھوں اور بچوں میں گھرا پایا جو بڑی دلچسپی اور حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں ابھی تک نیم خوابی کے عالم میں ہی تھا اور کانونٹ کے دنوں کی بری عادت سے مجبور، بے دھیانی میں انگریزی میں ہی بات کرتا تھا۔
( میرا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اور اگر ریپ کے کیس میں پکڑا نہ جاتا تو آج میں بھی شہر میں ایک عزت دار زندگی گزار رہا ہوتا۔ تمام تر تعلیم اور تربیت کے بعد بھی میں اپنے اندر کے اس درندے کو روک نہیں پاتا تھا جو خواتین کو دیکھتے ہی میرے اندر بیدار ہوجاتا تھا۔ معاشرے کو بھی میری اس بیماری سے فرق نہیں پڑتا کہ میرے جرم کی اصل سزا یہ معاشرہ مجرم کو نہیں بلکہ جرم کا شکار ہونے والے مظلوم کو دیتا تھا۔ خودساختہ عزت بچانے کے ڈر سے کبھی کسی نے میرے خلاف رپورٹ نہیں کروائی تھی کہ اگر وہ غریب میرے خلاف تھانے جاتیں تو اول تو معاشرہ انہیں جینے نہیں دیتا اور دوسرا وہ بیچاری وہ چار گواہ کہاں سے لاتیں جو یہ کہتے کہ ہاں ہم نے بےغیرتوں کی طرح اس کی عزت لٹتے ہوئے دیکھی اور ہم نے اس وقت تو کچھ نہیں کیا مگر آج گواہی دینے آگئے ہیں۔ زندگی عیاشی میں گزر رہی تھی مگر غلطی سے میں نے ایک طاقتور کی بیٹی پر ہاتھ صاف کردیا۔ چار کی جگہ چار سو گواہ بھی آگئے اور کیس بھی اس لڑکی کے بجائے اس کی ملازمہ کی عزت لٹنے کا بنا۔ خود تو مردود صاف نکل گئی اور ہمیں عدالت نے سات سال کی بامشقت سزا سنادی۔)
میں نے انگریزی میں انہیں جھاڑا کہ تم یہاں کون سا تماشہ دیکھنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہو؟ میں کوئی چڑیا گھر کا جانور نہیں جسے اس طرح ہجوم بنا کر دیکھنے کیلئے تم لوگ یہاں جمع ہوئے ہو! دفع ہوجائو!!! گائوں والے سراسیمہ ہوکر اِدھر ادھر ہوگئے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں واپس آگئے۔ اس بار ان سب کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں جو وہ میری خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ گائوں کے بزرگوں نے واپس جاکر گائوں بھر کو خوشخبری دے دی تھی کہ اب علاج کیلئے چار کوس دور پیر صاحب کے پاس نہیں جانا پڑے گا کیونکہ خود ہمارے گائوں میں ایک اللہ لوک بزرگ تشریف لے آئے ہیں جو جنات کی بولی بھی جانتے ہیں۔
آنے والے چند ہی دنوں میں میں ایک نیم پکے مکان میں منتقل ہوچکا تھا جو گائوں کے چوہدری صاحب نے بطور خاص میرے لیئے بنوایا تھا۔ چوہدری صاحب خود تو اس گائوں میں نہیں رہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ گائوں والوں کو ان کی ذہنی اور جسمانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے میں میں کتنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہوں۔ مجھے بھی انکی نوازشات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ مجھے صرف کچھ وقت گزار کر یہاں سے آگے چلے جانا تھا۔ یہ پیری فقیری میرے بس کی چیز نہیں تھی اور کسی بھی دن اگر بھانڈہ پھوٹ جاتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
گائوں کے لوگوں کو اب ایک نیا شغل اور امید مل گئی تھی۔ پیر صاحب کیا آئے، زندگی کے ہر مسئلے کا حل ان کے ہاتھ آگیا۔ وہ اپنی ذندگی کے تمام مسائل کا رونا اب میرے پاس آکر رونے لگے۔ مجھے صرف تین وقت کے کھانے اور وقتی پناہ سے مطلب تھا سو میں ان کی اس بکواس کو اس کھانے کی قیمت سمجھ کر سن لیتا۔ گائوں والے مجھ سے بہت خوش تھے۔ اندر کی تمام بھڑاس نکالنے کے بعد وہ قدرتی طور پر بہتر محسوس کرتے اور اسے میری کرامت سے منسوب کردیا جاتا۔ دوسری چیز جو میرے حق میں گئی وہ یہ تھی کہ آس پاس کے گائوں والے بھی اب دعا کروانے میرے پاس آنے لگے تھے جس سے گائوں والی کی عزت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
دن ہفتوں میں بدل گئے اور اب میں اس تماشے سے اکتانے لگا۔ میں اب گائوں سے روانگی اور آگے کی منازل کے بارے میں سوچنے ہی لگا تھا کہ کل میرے پاس گائوں کا ایک بے اولاد جوڑا آگیا۔ وہ دونوں اولاد نہ ہونے کے غم سے پریشان تھے۔ میں نے تسلی سے ان کی بات سنی اور انہیں یقین دلایا کہ میں ان کیلئے خصوصی دعا کروں گا۔ وہ دونوں خوشی خوشی وہاں سے اٹھ کر جانے لگے تو بدقسمتی سے اس کی بیوی کے چہرے سے چادر کھسک گئی۔ میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو میں نے اس ہی وقت اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ میں نے اس کے شوہر کو کہا کہ کل وہ اپنی بیوی کو میرے حجرے پر چھوڑ جائے کہ یہ معاملہ دعا سے زیادہ دوا کا ہے۔ مجھے ایک مخصوص عمل کرنا ہوگا جس کے بعد تم دونوں کو اولاد کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ ان دونوں میاں بیوی کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ وہ اگلے دن اپنی بیوی کو لانے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
پوری رات میں صبح ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اگلے دن میں نے صبح ہی اپنے خاص مرید کے ذریعے، آنے والے تمام لوگوں کو کہلوادیا کہ آج مرشد ایک خاص عمل کر رہے ہیں جس کیلئے انہیں تنہائی اور انہماک کی ضرورت ہے سو آپ لوگ اب کل آئیے گا۔ جب تمام مرید چلے گئے تو میں نے اس خاص خادم اور مرید کو بھی رخصت کردیا اور تیار ہوکر ان میاں بیوی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ وہ دونوں میاں بیوی بھی پہنچ گئے۔ میاں کو میں نے دروازے سے ہی رخصت کردیا اور اندر پہنچتے ہی اس عورت پر ٹوٹ پڑا۔ وہ بیچاری چپ چاپ سب کچھ سہتی رہی اور آخر میں اپنے آپ کو سنبھالتی، روتی ہوئی حجرے سے نکل کر بھاگ گئی۔
اس کے جانے کے بعد مجھے ہوش آیا کہ یہ میں کیا کر بیٹھا ہوں۔ اگر اس نے یہ بات اپنے شوہر کو بتادی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ان علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل ایک معمول کی بات تھی۔ میں تیزی سے باہر نکلا کہ اس سے پہلے وہ عورت جاکر اپنے شوہر کو یہ بات بتائے میں اسے پکڑ کر کسی طرح قائل کرلوں کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ میں رہنی چاہیئے۔ جنت جہنم کی چار باتیں ان گائوں والوں کو ڈرانے اور للچانے کیلئے بہت تھیں کہ یہ لوگ جہنم سے بے انتہا ڈرتے تھے۔ میں بھاگتا ہوا جا رہا تھا کہ مجھے وہ عورت ایک کھیت میں داخل ہوتی ہوئی دکھی۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے لپکا مگر اس سے پہلے کہ میں اس تک پہچتا وہ اپنے میاں تک پہنچ چکی تھی۔ میں وہیں پیچھے کھڑے ہوکر سننے لگا۔ وہ عورت رو رو کر اپنے شوہر کو بتا رہی تھی کہ اس سے ایک عظیم گناہ سرزد ہوچکا ہے اور اب وہ اس کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس کے شوہر نے اس کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیا ہوگیا؟ اس عورت نے جواب دینے کی کوشش کی مگر سوائے ہچکیوں کے کوئی آواز نہیں نکل پائی۔ تھوڑی دیر وہ اس ہی طرح دھاڑیں مارتی رہی اور پھر بمشکل سسکیوں کے درمیان بولی کہ اب وہ جہنمی ہوگئی ہے اور اب اپنے شوہر تو کیا کسی  انسان کے بھی لائق نہیں رہی ہے۔
میں کھیت میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور میرا خود کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ گائوں میں رکتا تو گائوں والے مار ڈالتے اور اگر گائوں چھوڑ کر بھاگتا تو پولیس مجھے نہیں چھوڑتی۔ مجھے جو بھی فیصلہ کرنا تھا نہایت سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔ میں تمام ممکنات کا جائزہ لے رہا تھا کہ اس عورت کے شوہر کی آواز ایک مرتبہ پھر آئی جو اپنی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ رونے سے کچھ نہیں ہوگا اور اسے اپنے شوہر پر بھروسہ کرتے اسے اعتماد میں لینا چاہیئے۔ وہ عورت بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے بولی، اب کچھ نہیں ہوسکتا! مجھے جہنم میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پیر صاحب جب عمل کر رہے تھے تو میری ناپاک ٹانگیں ان کی داڑھی مبارک پر لگ گئیں! تو خود بتا اب مجھے جہنم میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ میں دم بخود ان کی گفتگو سن رہا تھا اور پھر میری آنکھوں نے ایک حیران کن منظر دیکھا۔ اس کے شوہر نے اس کا ہاتھ تھاما اور بولا، پیر صاحب بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں! چل کر مل کر ان سے بات کریں گے تو مجھے یقین ہے وہ تجھے معاف کردیں گے۔ چل آجا مرشد سائیں سے معافی مانگ کر آئیں۔
میں نے ایک مرتبہ پھر دوڑ لگادی۔ اس مرتبہ میرا رخ واپس اپنے حجرے کی طرف تھا جہاں میں باقی کی پوری زندگی اطمینان سے گزار سکتاہوں۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت