اتوار، 26 فروری، 2017

وشواس گھات

مجھےاس کی بات مان لینی چاہئے تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ دنیا گول نہیں حرامی ہے۔انسانوں کی باتوں پر بھروسہ کرو گے تو یہی ہوگا جو میرے ساتھ ہوا۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا اب بات کرنے سے فائدہ؟ یہ کہہ کر اس  نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اسے نیچے پھینک کر  مسلتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ 
اس کا نام کچھ تو رہا ہوگا مگر نام میں کیا رکھا ہے؟ ہم نے عبداللہ نام کے عبدالشیطان بھی دیکھ رکھے ہیں!  سو اس کا نام جو کچھ بھی رہا ہو وہ جیل میں پہنچنے سے پہلے بھی جیل میں گونجتا تھا۔ چھوٹے موٹے جیب کتروں سے لے کر بڑے بڑے قاتلوں تک سب اس کی عظمت کے معترف تھے۔ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور تھی۔ مگر اس کی وجہ شہرت یہ سینکڑوں قتل نہیں بلکہ ان سینکڑوں جرائم کے باوجود کبھی پکڑا نہ جانا تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والی لاش کوئی نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔  یہی وجہ تھی کہ وہ اتنی مدت سے آزاد گھوم رہا تھا۔ مگر اب سب افسانے انجام کو پہنچ چکے تھے اور وہ خود ایک لاش کو دباتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوچکا تھا۔
اس کی گرفتاری کی خبر جب جیل میں پہنچی تو ایک جشن کا سا سماں برپا ہوگیا۔ جیل کی کیفیت ایسی تھی جیسے تامل ناڈو کے کسی قصبے میں لوگوں کو پتہ چل جائے کہ رجنی کانت ان کے ساتھ رہنے کے لئے آنے والا ہے۔ جو بڑے قیدی تھے وہ اس کوشش میں مصروف تھے کے کسی طرح آنے والا ان کے قریبی بیرک  میں رکھا جائے۔ جو ان بڑے قیدیوں کے چمچے تھے وہ سیاسی کارکنان کی طرح اس بات پرشیخیاں بگھارتے پھر رہے تھے کہ اس جنگ میں جیت ان کے مجازی باپ کی ہی ہوگی۔ اور جو قیدی کسی گنتی میں نہیں آتے تھے ان کی کیفییت بھی کسی گنتی میں نہیں آتی تھی کہ اس کے بارے میں کوئی فکر کرے تو اس پر لعنت بھیجتے ہوئے ہم واپس داستان کی طرف آجاتے ہیں۔
خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور قرعہ فال ایک مشہور سیاسی جماعت کے ایک گمنام کارکن کے نام آیا جو اپنے  نامور رہنما کے کردہ گناہوں کا الزام اپنے سر لے کر دنیا میں جنت کما بیٹھا تھا۔
جیل میں پہنچتے ہی اس کے پاس ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا تھا مگر ایک تو وہ بات چیت کے اندر لیا دیا رہنے والا آدمی تھا اور دوسرا اس کی شخصیت کا رعب ایسا تھا کہ لوگ زیادہ سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں جٹا پاتے تھے ۔ سو اس کی گرفتاری کا معمہ ہنوز ایک معمہ ہی تھا۔لوگ اس کی بیرک میں جمع ہوکر اس امید پر  آپس میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے  کہ شاید وہ بھی شریک سخن ہوگا اور کھلے گا مگر وہ کبھی ان کی گفتگو میں شریک نہیں ہوتا۔ بس خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہتا اور ہوں ہاں سے زیادہ گفتگو میں شریک نہیں ہوتا تھا۔
ایک ہفتے تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور جب لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ یہ راز، راز ہی رہے گا تو اس دن وہ خود ہی نجانے کس ترنگ میں آکر بولنا شروع ہوگیا۔ تم لوگ روزانہ اس امید پر یہاں جمع ہوتے ہو کہ میں تمہیں اپنی کہانی سناؤں گا۔ اپنے گُر تم لوگوں کو سکھاؤں گا۔ اپنا ہنر تم لوگوں میں منتقل کروں گا۔ مگر تم لوگ نہیں جانتے کہ میں کس حد تک اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔ میرا خود پر ۔ انسانیت پر۔ بلکہ یوں کہو کہ خود بھروسے پر سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ میں کسی کو کیا سکھاؤں گا؟ کیسے سکھاؤں گا؟ اگر سیکھا ہوا ہوتا تو آج تمہارے درمیان نہیں بیٹھا ہوتا۔ آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوتا۔مجھ سے زیادہ تو وہ خاتون جانتی تھی جس کا اگر بس چلتا تو وہ خاتون کی جگہ مختون ہوتی۔ مگراس ہی پر کیا موقوف؟ دنیا میں جو کوئی بھی خاتون ہے اگر اس کا بس چلے تو وہ مختون کہلائے۔ خیر میں بھی کن فضول فلسفے کی باتوں میں پڑگیا۔  میں تو بس انسانیت کا بھلا چاہتا تھا۔ درخت پر جب پتے اور شاخیں زیادہ ہوجائیں تو انسان انہیں چھانٹ دیتا ہے۔ دنیا بھی ایک درخت ہی تو ہے۔ میں تو بس اسے کاٹ چھانٹ کر خوبصورت رکھنا چاہتا تھا۔ خود انصاف کرو کہ کیا اب یہ بھی جرم ہے؟ خدا نے انسانوں کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا یہ خدا ہی جانے مگر ہم انسان اپنی نسل کی افزائش کس لئے کرتے ہیں؟  ہم بیٹیاں جنتے ہیں تاکہ وہ ہمارے لئے بیٹے جن سکیں۔ اور ہم بیٹے جنتے ہیں تاکہ وہ ان بیٹیوں سے مزید بیٹے جنوا سکیں۔  عورت کیا ہے؟ بچے پیدا کرنے کے لئے ایک مشین! اس سے زیادہ کیا؟ اور مرد کیا ہے؟ ان عورتوں سے بچے پیدا کرنے کے علاوہ محض ایک اے ٹی ایم کارڈ کہ جس سے پیسے نکلوائے جاسکیں۔ اب اگر کوئی چیز اپنا مقررہ کام کرنا بند کردے تو آپ کیا کرتے ہو؟ ہاتھ سڑ جائے تو ہاتھ کاٹنا پڑتا ہے بابو! ڈاکٹر بھی یہی کام کرتا ہے اور اس کام کے پیسے  بھی لیتا ہے۔ میں انسانیت کا ڈاکٹر ہوں۔ جب کوئی عورت بچے پیدا کرنے سے انکار کردے یا محض لڑکیاں جننا شروع ہوجائے تو وہ سڑی ہوئی عورت ہے۔ معاشرے کا بوجھ۔ میں تو بس معاشرے کو اس سڑی ہوئی عورت سے نجات دلاتا تھا۔  اور چونکہ معاشرہ اس بات کو سمجھتا تھا اس لئے کسی کی صحت پر ان خواتین کے کم ہوجانے سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ یہ اموات اول تو خبر بنتی نہیں تھیں اور اگر بن بھی جائیں تو اخبار کے تیسرے صفحے کی خبر کون پڑھتا ہے؟ وہ کہتے کہتے دم لینے کے لئے رکا تو مجمعے میں موجود ایک شدید مرد بول اٹھا، عورتوں کا قتل تو سمجھ آتا ہے مگر مردوں کو مردے بنانا کہاں کی انسانیت ہے؟ اور کوئی ہوتا تو شاید اس چبھتے ہوئے سوال پر بھنا جاتا مگر اس نے مسکراتے ہوئے سگریٹ سلگائی اور کہا، جب مرد پیسے کمانا چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی معاشرے کا بوجھ ہوجاتا ہے۔ بھوک کی بیماری اچھے خاصے مرد کو بھی فلسفی کردیتی ہے۔ وہ معاشرتی تقسیم، ظلم و استبداد وغیرہ جیسے مشکل الفاظ سیکھ جاتا ہے اور موقع محل دیکھے بغیر ان کا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے آدمی کی وجہ سے معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا اس کا ٹھکانے لگنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ مگر محض معاشرے کی اصلاح کے نام پر لوگوں کو مارنا؟ بغیر پیسے لئے؟ کیا یہ دھندے کے بنیادی اصول کے خلاف نہیں ہے؟ ایک اور جذباتی نوجوان بول پڑا۔  یہ سوال سن کر وہ ہنس پڑا تھا۔ کہا، اب کل کے بچے مجھے دھندے کے اصول سکھائیں گے؟ میں نے آج تک بغیر پیسے لئے کبھی کام نہیں کیا!  ان بھوکوں کے مارنے کے لئے پیسے مجھے پیٹ بھرے لوگ دیتے تھے۔  کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان بھوکوں کا مرنا کس حد تک ضروری ہے۔
وہ سب تو ٹھیک ہے۔ میں نے مان لیا کہ تو ایک عظیم آدمی ہے۔ انسانیت کا درد رکھتا ہے۔ ساری باتیں اپنی جگہ ٹھیک مگر مجھے یہ بتا کہ تو ان لاشوں کا کرتا کیا تھا؟ کبھی کوئی لاش ملی کیوں نہیں؟ اور اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ تو پکڑا گیا؟ دو تین لوگوں کو سوال کرتا دیکھ کر ایک بوڑھے قیدی نے بھی ہمت پکڑ لی تھی اور بالآخر وہ سوال کر بیٹھا جس کا جواب سننے کے لئے وہ لوگ روز یہاں جمع ہوا کرتے تھے۔
اس نے درمیان پہ پہنچی ہوئی سگریٹ کی طرف دیکھا اور ایک گہرا کش بھرتے ہوئے گویا ہوا، بہت آسان تھا چاچا! میں بس لاش کو لے جا کر کتب خانوں میں دبا آتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ واحد جگہ ہے جہاں انسان تو کیا انسان کا شک تک بھی نہیں جاتا۔لوگ رات کی تاریکی میں لاشیں  دبانے والوں کو ڈھونڈتے تھے اور میں دن دہاڑے لائبریری میں مردے گاڑ آتا تھا۔
خیال تو بہت عمدہ ہے مگر پھر تو پکڑا کیسے گیا؟ بوڑھے قیدی سے اب بالکل ضبط نہیں ہورہا تھا۔ اس نے ایک تلخ مسکراہٹ بوڑھے کی سمت اچھالی اور ایک بار پھر بول اٹھا،  انسانوں پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے! لاشوں کو دباتے ہوئے ایک اہم بات کا اور خیال رکھنا ہوتا تھا کہ جس وقت یہ کام سر انجام دیا جائے اس وقت لوگ کسی انسانی جان سے بھی زیادہ اہم کام میں مصروف ہوں۔ دو ہفتے پہلے میں نے بھی ایک لاش کو ٹھکانے لگانا تھا اور میں نے اپنے ایک دوست سے اچھی طرح تسلی لینے کے بعد اس رات لڑکی کا کام اتارا اور اگلے دن لاش دبانے کے لئے جب نکلا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ لاہور اور کراچی کا کرکٹ میچ دن کے وقت ہے مگر یہ افواہ تھی۔ اس دن کیا ، اگلے تین دن تک کوئی میچ نہیں ہونے والا تھا اور قوم بالکل فارغ بیٹھی تھی اس لئے یہ قتل خبر بن گیا اور میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔ اور اب جب تک اگلا بڑا ٹورنامنٹ شروع نہیں ہوتا یہیں سڑوں گا!
غلطی میری تھی! مجھے خود سے میچ کا شیڈول دیکھ کر نکلنا چاہئے تھا یا شاید میری غلطی یہ تھی کہ مجھےاس خاتون کی بات مان لینی چاہئے تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ دنیا گول نہیں حرامی ہے۔انسانوں کی باتوں پر بھروسہ کرو گے تو یہی ہوگا جو میرے ساتھ ہوا۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا اب بات کرنے سے فائدہ؟ یہ کہہ کر اس نے  سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اسے نیچے پھینک کر  مسلتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ 



کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت