اس کا نام جو
بھی کچھ رہا ہو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب کا ماننا تھا کہ وہ پیدائشی
گونگی بہری ہے۔ بہری قوم یا افراد کو آپ
جو جی چاہے لقب دے دیجئے ، پیار سے بلائیے یا دشنام سے نوازیے، ان کی صحت پر کیا
فرق پڑتا ہے؟ وہ تو اپنے حال میں مست رہتے اور رہتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اپنے
منطقی انجام کو پہنچ جائیں۔ سو اس کے نام سے بھی اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
مگر اس کے بہرے پن سے اب گھر والوں کو فرق پڑنے لگا تھا۔ خاندان، محلے کی کسی بھی
تقریب میں جہاں چار لوگ جمع ہوتے، بلاوجہ ہمدردیاں جتانے لگتے۔ ہائے اللہ! کتنی
پیاری بچی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی چن چن کر لوگوں کو آزماتا ہے۔ دیکھو معصوم اگر سن
بول پاتی تو کیا چلا جاتا کسی کا؟ مگر
خیر! اللہ آپ لوگوں اور اس بچی کو صبر دے! گھر والے شروع میں تو یہ باتیں سنتے اور چپ ہو جاتے۔ پھر اس کے بعد ان باتوں کو
سننے کے بعد جھلانے کا مرحلہ شروع ہوا اور بالآخر کسی بھی اور انسان کی طرح اس کے گھر والوں کو بھی ہمدردی کی عادت پڑ گئی
اور اگر آپ ان سے مل کر ہمدردی نہ جتائیں تو انہوں نے باقاعدہ اس بات کا برا منانا
شروع کردیا۔
اسے ان تمام
باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں مست تھی اوراس ہی مستی میں
بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی عمر اب پندرہ برس ہوچلی تھی اور گھر والوں کو ہمدردی
کے بادلوں کے پیچھے چھپا حقیقت کا سورج نظر آنے لگا تھا۔ مانا کہ تمازت ابھی اتنی
نہ بڑھی تھی کہ انسان جھلس جائے مگر آج
نہیں تو کل اس حقیقت نے سامنے آجانا تھا۔ چار پانچ برس میں وہ معاشرے کی مروجہ
شادی کی عمر کو پہنچنے والی تھی اور صورتحال یہ تھی کہ اس کے تمام شوق اب تک بچوں
والے ہی تھے کہ گویا وہ محض جسمانی طور پر تو بڑھ رہی تھی مگر ذہنی طور پر وہ ایک پانچ
سات سالہ بچی کی طرح ہو۔ علاج معالجے کا
مسئلہ یہ تھا کہ شہر چھوٹا تھااور بیماری بڑی۔ پہلے شہر کے بڑے ڈاکٹروں کو
دکھایا گیا مگر جب لکھوکھا روپے کے نسخے اور آپریشن تجویز ہوئے تو واپس قصبے
کے حکیموں اور نیم حکیموں کی چوکھٹ چومی
گئی۔ جب وہاں سے افاقہ نہ ہوا تو کسی نے
مشورہ دے دیا کہ اسے ایران لے جاؤ۔ وہاں مشہد کے روزے پر سنا ہے کہ ہر قسم کی بیماری
شفا پا جاتی ہے۔
چھوٹے شہر کے
متوسط طبقے کے لوگ تھے جن کی زندگیوں کی معراج یہی تھی کہ لاہور یا کراچی دیکھ
آئیں۔ قصبے میں چند گھر ایسے ضرور تھے کہ
جو خلیجی ممالک میں مزدوری کرتے تھے مگر ایران جانے کا تجربہ کسی کا بھی نہیں تھا۔
کہتے ہیں نا کہ ماں مرے ماسی جئے۔ خالہ اماں نے ذمہ داری اٹھائی کہ اگر بچی اور ان
کے خاوند کا خرچہ گھر والے اٹھا لیں تو وہ اپنے میاں کے ساتھ اسے مشہد لے جائیں گی
کہ اس ہی صدقے میں ان کی بھی زیارت ہو جائے گی۔ سودا برا نہیں تھا سو سفر کی تیاری
شروع کر دی گئی اور اللہ اللہ کر کے خیر سے یہ لوگ مشہد پہنچ گئے۔
مشہد پہنچنے
کے دو دن بعد خالہ کا ٹیلیفون آیا کہ معجزہ ہو گیا ہے۔ صبح جب وہ اسے روزے پر لے
کر گئیں تو روزے کے حکام نے انہیں یہ کہہ
کر روک دیا کہ وہ ننگے سر حرم میں نہیں جا سکتیں ۔ پہلے جا کر روزے کے ساتھ موجود
دفتر سے مفت میں چادر وصول کریں اور پھر
سر ڈھانپ کر آئیں۔ وہ مسلسل فارسی میں سمجھا رہے تھے، خانم ! بے حیائی! خانم! بے
حیائی! ہماری تو خیر ہوئی کہ ہم نے دفتر سے جا کر چادر وصول کی اور حرم میں جا کر
فاتحہ پڑھی اور واپس آگئے مگر جب حرم سے باہر نکلے تو مجھے لگا کہ یہ کچھ بدبدا رہی ہے۔ غور کیا تو
معلوم ہوا کہ معجزہ ہوگیا ہے۔ خیر سے ہماری شہزادی نہ صرف سن سکتی ہے بلکہ بول بھی
سکتی ہے۔ وہ بدبدا رہی تھی، خانم بے حیائی۔ خانم بے حیائی! بھئی میں نے تو بے ساختہ
ماتھا چوم لیا شہزادی کا۔ خیر سے وہیں بازار سے میوہ خریدا اور واپس جا کر حرم پر
نیاز چڑھا آئی۔ تمہارے خالو تو خیر تہران
چلے گئے ہیں اور یہ یہاں بیٹھی خانم بے حیائی کر کر کے میرا سر کھا رہی ہے۔ میں نے پوچھا مطلب پتہ ہے اس
بات کا تو جواب میں کہتی ہے خانم بے حیائی
کھی کھی کھی اب بتاؤ اس بات پر میں کیا بولتی۔ میں نے بے حیائی کا مطلب اشاروں میں
سمجھایا تو اب گانے کی طرح شروع ہوگئی ہے
خانم م م م ! بےےےے حیااااااائی ۔۔۔ خانم م م م ! بےےےے
حیااااااائی ۔۔۔۔ یہ لو خود اس کے
منہ سے سن لو!
پانچ دن کے
بعد خالہ اسے لے کر خیر سے واپس گھر پہنچ گئیں ۔
گھر والے سارے اس کے گرد جمع تھے۔ سب بہت پراشتیاق تھے کہ آج اس کو بولتا سنیں گے مگر خلاف معمول آج وہ
بہت مضمحل لگ رہی تھی۔ خالہ سے پوچھا تو
کہنے لگیں پرسوں تک اچھی خاصی تھی مگر خدا جانے پرسوں سے بالکل ویسے ہی چپ ہے جیسے
کبھی بولی ہی نہ ہو۔ تم سب نے خود اسے فون پر بولتے سنا تھا ۔ میں خود سے کہہ رہی ہوتی کہ یہ بولی تھی تو تم
شک کرتے مگر تم سب نے خود اسے فون پر بولتے سنا تھا۔ بیٹا بولو! شاباش بول کر
دکھاؤ۔ بیٹا میں جانتی ہوں تم سن سکتی ہو اور سمجھ بھی سکتی ہو۔ دیکھو یہاں سب
تمہارے اپنے ہیں۔ شاباش بول کر دکھاؤ۔
بولو خانم بے حیائی!
اس نے اپنے
دامن پر سے نظریں اٹھائیں۔ سب کی طرف دیکھا۔ اس کی بائیں آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا
اور وہ دھیرے سے بولی ۔۔۔۔ خالو بے حیائی!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں