دن بھر کی مشقت کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اتنا تھک چکا تھا کہ نقاب بدلے بغیر ہی سو گیا۔ رات کے پچھلے پہر اس کی بیٹی کی پیاس سے آنکھ کھلی تو پہلو میں باپ کی جگہ کسی انجان چہرے کو دیکھ کر گھبرا ہٹ میں چلا اٹھی۔ چپ کرانے کے لاکھ جتن کئے مگر وہ مان کر نہ دی۔ غریب کی عمر ہی کیا تھی کہ وہ باپ کی مجبوریاں سمجھتی؟ بڑی مشکل سے الماری سے گھر والا نقاب نکال کر لگایا تب جا کر اس معصوم کی جان میں جان آئی ۔ انسانوں اور بالخصوص بچوں کا المیہ یہی ہے کہ یہ اپنے پسندیدہ کرداروں کو کبھی اپنی مرضی کے روپ کے علاوہ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر چاہے وہ ان کی مرضی کا روپ محض ایک نقاب ہی ہو مگر وہ اصل پر اس من چاہی نقل کو فوقیت دیتے آئے ہیں۔
وہ کافی دیر بیٹی کے ساتھ جاگ کر اسے تسلیاں دیتا رہا اور جب اسے سلا کر فارغ ہوا تب احساس ہوا کہ اپنی نیند غائب ہوچکی ہے۔ اول تو یونہی دیر تک کروٹیں بدلتا رہا مگر جب نیند کی جگہ جھنجھلاہٹ آنے لگی تو اٹھ کر خوابگاہ سے باہر آگیا۔ اسے رہ رہ کر اپنی حماقت پر غصہ آرہا تھا۔ کیا تھا اگر گھر میں گھسنے سے پہلے وہ گھر والا نقاب لگا لیتا؟ اس معصوم کا کیا قصور تھا کہ وہ اس کا یہ روپ دیکھتی؟ پھر سوچا آج نہیں تو کل کبھی تو اس نے یہ والا روپ بھی دیکھ ہی لینا تھا؟ تب کیا ہوتا؟ کل کا ہوتا آج سہی ! پھر خیال آیا تب تک وہ بڑی ہوچکی ہوتی اور شاید اس طرح نہ ڈرتی؟ سوچ کا سلسلہ مسلسل دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ڈرنے سے اس کے دماغ میں ایک اور سوچ ابھر آئی۔ اس نے سوچا کیا میں اتنا ہی بھیانک ہوں کہ میری اپنی اولاد تک مجھ سے خوف کھائے؟ پھر جوابی سوچ آئی کہ جو کچھ دیکھ کر وہ ڈری وہ میری اصل نہیں تھی۔ وہ تو محض حالات کی وجہ سے طاری کیا گیا ایک نقاب تھا۔ اصل پر طاری ہوا ایک نقاب۔ سوچ کے تسلسل میں چلتا ہوا وہ بے دھیانی میں شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر نقاب کو جانچنے لگا۔ اس وقت وہ ایک مکمل باپ تھا۔ شفیق اور مہربان ۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے نقاب کو یک بار گی اتار کر پھینک دیا۔ نیچے سے برآمد ہونے والا چہرہ ایک شوہر کا تھا۔ محبت کی چمک سے بھرپور اور صبیح۔ اسے یاد آیا کہ یہ نقاب اس نے باپ والے نقاب سے پہلے پہنا تھا۔ اس نے اسے بھی نوچ کر پھینک دیا۔ وہ اب اس چہرے کی تلاش میں تھا جو اس کا اپنا چہرہ تھا۔ شوہر کے چہرے کے پیچھے ایک فرمانبردار بیٹے کا نقاب آویزاں تھا۔ اس کے ہاتھ اب میکانکی انداز میں چل رہے تھے۔ بیٹے کے بعد بھائی۔ بھائی کے بعد دوست۔ دوست کے بعد مزدور۔ ایک کے بعد ایک چہرہ آتا گیا اور وہ بغیر رکے ان نقابوں کو نوچتا چلا گیا یہاں تک کہ چہرے پر کوئی نقاب باقی نہ رہا۔اب اس کے سامنے کوئی نقاب نہیں تھا۔ فقظ ایک چہرہ تھا۔ نقابوں کے بوجھ سے جھریوں زدہ۔ نقابوں کے ٹانکوں سے زخم آلود۔ وہ چہرہ کہیں سے بھی انسانی چہرہ نہیں تھا۔ شیشے میں اس کے سامنے ایک عفریت کھڑی تھی۔ اس نے گھبرا کر نقاب دوبارہ لگانے چاہے تو احساس ہوا کہ جذبات میں آکر نقاب اتارنے کے دوران وہ ساری نقابیں پھاڑ بیٹھا ہے۔ شیشے میں موجود عفریت اب فلک شگاف قہقہے لگا رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا اور جب قریب کوئی چیز نہ دکھی تو اپنا منہ شیشے پر دے مارا اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک کے شیشہ کرچی کرچی ہوکر آدھا زمین اور باقی اس کے چہرے میں پیوست نہیں ہوگیا۔ اپنے چہرے سے جاری خون کی دھاروں کو وہ باقاعدہ محسوس کرسکتا تھا۔اسے نے بہتے ہوئے گرم سیال خون کو اپنے چہرے پر محسوس کیا تو گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اسے اٹھتا دیکھ کر اس کی معصوم بیٹی سہم کر بولی، بابا! میں تو آپ کو پیار کرنے آئی تھی مگر مجھ سے تھوڑا سا دودھ گر گیا۔ آئی ایم سوری۔ اس نے بے ساختہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور جب یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ محض ایک بھیانک خواب تھا اور نقاب چہرے پر سلامت موجود ہے تو بیٹی کا ماتھا چوم کر دوبارہ سونے لیٹ گیا۔
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں