ہر ذلیل ترین اپنے زمانے کا عزیز ترین رہا ہوتا ہے۔
کیا یہ لازم ہے؟
شاید! کیونکہ دنیا تو برے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ خود اپنے ایمان سے کہو کیا کبھی ان میں سے کسی کو دیکھ کر تمہارے اندر غصے کی وہ لہر دوڑی ہے جو کسی سابقہ اپنے کو دیکھ کر دوڑتی ہے؟
نہیں!
اور کیا ایسا نہیں ہے کہ تعلق جتنا مضبوط رہا ہو، تاسف اتنا ہی شدید ہوتا ہے؟
شاید ایسا ہی ہے۔
تو مان کیوں نہیں لیتے کہ ہر ذلیل ترین اپنے زمانے کا عزیز ترین رہا ہوتا ہے؟
میرے مان لینے سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟
فرق تو پڑتا ہے۔ ایک انسان کے قائل ہوجانے سے بھی فرق پڑتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تم نے لکھنا کیوں چھوڑا؟
کیونکہ کسی ایک کو بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔
تو اب مجھے یہ کہانی کیوں سنا رہے ہو؟
کیونکہ تمہیں فرق پڑتا ہے۔ اور تمہیں فرق پڑنا بھی چاہئے کیونکہ اب سے تم اور میں ایک جیسے ہیں۔
میں اور تم ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ مجھ اور تم میں کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہے!
ایک قدر مشترک ہے۔
وہ کیا؟
ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ ہم دونوں کے ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔
یہ ایک نہایت بے ہودہ مذاق ہے!
میرے پیارے! مذاق یہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ ہے جو تقدیر نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔
اب تقدیر کہاں سے آگئی؟
یہ بھی ایک کہانی ہے۔
مگر تم نے تو کہانی کہنا چھوڑ دی ہے؟
چھوڑ دی ہے مگر ایک مختصر کہانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اچھا؟
ہاں! توہوا کچھ یوں کہ خدا نے جب فرشتے بنائے تو ان میں سے ہر ایک احسان شناسی کے تقاضوں کے تحت خدا کی عبادت کیا کرتا تھا اور خدا بھی قدر شناسی کے تقاضوں کے تحت ان کو محبوب رکھتا تھا۔ انسانوں کی طرح تمام فرشتے بھی ایک جیسے نہیں تھے۔ ان میں بھی وقت کے ساتھ طبقات وجود میں آگئے۔ اپنی عبادات کے خلوص اور کثرت کی وجہ سے عزازیل نامی ایک فرشتہ ترقی کے مدارج طے کرتا ہوا مقربین کی فہرست میں سب سے آگے پہنچ گیا اور سرداری کے منصب پر فائز کیا گیا۔سمے اپنی رفتار سے گزرتا گیا اور راوی چین ہی چین لکھتا رہا مگر پھر ایک دن خدا نے ان مقربین کے سامنے اپنے نائب یعنی انسان کو پیش کر دیا اور ان مقربین کو حکم ہوا کہ اس نائب کے آگے سر کو خم کر دیں۔
یہ کہانی میں نے سن رکھی ہے۔ سارے فرشتوں نے حکم مان لیا تھا سوائے ابلیس کے اور اس کے بعد سے وہ مردود ہوگیا تھا۔
جانتے ہو ابلیس نے ایسا کیوں کیا تھا؟
تکبر کی وجہ سے!
اور یہ تکبر کس بات کا تھا؟
کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے جبکہ مجھے آگ سے !
صرف یہی وجہ رہی ہوگی؟
قرآن میں تو یہی وجہ لکھی ہے
میں قرآن کے خلاف جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ قرآن میں لکھا ہے تو ٹھیک ہی لکھا ہوگا۔ مگر میری کہانی تھوڑی مختلف ہے ۔ میری کہانی کے ابلیس کا تکبر اس کے تعلق پر تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا تعلق اتنا مستحکم اور اتنا منفرد ہے کہ تاعمر کبھی بھی کسی کو بھی مجھ پر فوقیت نہیں دی جا سکتی اور اس لئے جب انسان نے آکر اس کی جگہ لے لی تو ابلیس نے قسم کھائی کہ مالک کو دکھا کر چھوڑے گا کہ اس نے مجھے چھوڑ کر جس کو چنا ہے وہ کس حد کا گھٹیا اور رذیل ہے۔
تو نے لکھنا چھوڑ دیا تھا نا؟
ہاں! کیوں؟
اچھا کیا تھا۔
کیا یہ لازم ہے؟
شاید! کیونکہ دنیا تو برے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ خود اپنے ایمان سے کہو کیا کبھی ان میں سے کسی کو دیکھ کر تمہارے اندر غصے کی وہ لہر دوڑی ہے جو کسی سابقہ اپنے کو دیکھ کر دوڑتی ہے؟
نہیں!
اور کیا ایسا نہیں ہے کہ تعلق جتنا مضبوط رہا ہو، تاسف اتنا ہی شدید ہوتا ہے؟
شاید ایسا ہی ہے۔
تو مان کیوں نہیں لیتے کہ ہر ذلیل ترین اپنے زمانے کا عزیز ترین رہا ہوتا ہے؟
میرے مان لینے سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟
فرق تو پڑتا ہے۔ ایک انسان کے قائل ہوجانے سے بھی فرق پڑتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تم نے لکھنا کیوں چھوڑا؟
کیونکہ کسی ایک کو بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔
تو اب مجھے یہ کہانی کیوں سنا رہے ہو؟
کیونکہ تمہیں فرق پڑتا ہے۔ اور تمہیں فرق پڑنا بھی چاہئے کیونکہ اب سے تم اور میں ایک جیسے ہیں۔
میں اور تم ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ مجھ اور تم میں کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہے!
ایک قدر مشترک ہے۔
وہ کیا؟
ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ ہم دونوں کے ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔
یہ ایک نہایت بے ہودہ مذاق ہے!
میرے پیارے! مذاق یہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ ہے جو تقدیر نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔
اب تقدیر کہاں سے آگئی؟
یہ بھی ایک کہانی ہے۔
مگر تم نے تو کہانی کہنا چھوڑ دی ہے؟
چھوڑ دی ہے مگر ایک مختصر کہانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اچھا؟
ہاں! توہوا کچھ یوں کہ خدا نے جب فرشتے بنائے تو ان میں سے ہر ایک احسان شناسی کے تقاضوں کے تحت خدا کی عبادت کیا کرتا تھا اور خدا بھی قدر شناسی کے تقاضوں کے تحت ان کو محبوب رکھتا تھا۔ انسانوں کی طرح تمام فرشتے بھی ایک جیسے نہیں تھے۔ ان میں بھی وقت کے ساتھ طبقات وجود میں آگئے۔ اپنی عبادات کے خلوص اور کثرت کی وجہ سے عزازیل نامی ایک فرشتہ ترقی کے مدارج طے کرتا ہوا مقربین کی فہرست میں سب سے آگے پہنچ گیا اور سرداری کے منصب پر فائز کیا گیا۔سمے اپنی رفتار سے گزرتا گیا اور راوی چین ہی چین لکھتا رہا مگر پھر ایک دن خدا نے ان مقربین کے سامنے اپنے نائب یعنی انسان کو پیش کر دیا اور ان مقربین کو حکم ہوا کہ اس نائب کے آگے سر کو خم کر دیں۔
یہ کہانی میں نے سن رکھی ہے۔ سارے فرشتوں نے حکم مان لیا تھا سوائے ابلیس کے اور اس کے بعد سے وہ مردود ہوگیا تھا۔
جانتے ہو ابلیس نے ایسا کیوں کیا تھا؟
تکبر کی وجہ سے!
اور یہ تکبر کس بات کا تھا؟
کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے جبکہ مجھے آگ سے !
صرف یہی وجہ رہی ہوگی؟
قرآن میں تو یہی وجہ لکھی ہے
میں قرآن کے خلاف جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ قرآن میں لکھا ہے تو ٹھیک ہی لکھا ہوگا۔ مگر میری کہانی تھوڑی مختلف ہے ۔ میری کہانی کے ابلیس کا تکبر اس کے تعلق پر تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا تعلق اتنا مستحکم اور اتنا منفرد ہے کہ تاعمر کبھی بھی کسی کو بھی مجھ پر فوقیت نہیں دی جا سکتی اور اس لئے جب انسان نے آکر اس کی جگہ لے لی تو ابلیس نے قسم کھائی کہ مالک کو دکھا کر چھوڑے گا کہ اس نے مجھے چھوڑ کر جس کو چنا ہے وہ کس حد کا گھٹیا اور رذیل ہے۔
تو نے لکھنا چھوڑ دیا تھا نا؟
ہاں! کیوں؟
اچھا کیا تھا۔