پیر، 4 ستمبر، 2017

بھیڑیا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک دو پیروں والا بھیڑیا رہتا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ شہروں میں بسنے والے دو پیروں کے بھیڑیے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے جنگل میں بھی دو پیر کے بھیڑیے پائے جا سکتے ہیں مگرکیا کریں کہ جس بھیڑیے کی یہ کہانی ہے وہ واقعی دو پیروں والا تھا اور جنگل میں ہی رہتا تھا۔  گو کہنے کو اس بھیڑیے کا ایک نام بھی تھا مگر اس نام  کو یہاں بتانے میں ایک مسئلہ ہے کہ نام سن کر آپ لوگ اس کا مذہب اور پھر اس مذہب کا مسلک ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ  کہانی کے اختتام کی بنیاد پر طے کر سکیں کہ وہ آیا واقعی آپ کے اپنے مسلک کا تھا یا دشمن کا ایجنٹ تھا جو آپ کےفرقے کو بدنام کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا لہٰذا ہم اس بھیڑیے کے نام کو یہیں چھوڑ کر کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

تو جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا آیا ہے کہ  کہانی کا مرکزی کردار چند مشکل حالات میں زندگی شروع کرتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ قسمت اس کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور اس کے بعد اس کے دن پھر جاتے ہیں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ ویسا ہی اس کہانی میں بھی ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ آخر کو لیکھک نے بھی تو وہی لکھنا ہے جو قارئین شوق سے پڑھتے ہیں۔ زندگی اور تقدیر کی مسلسل ٹھوکریں کھانے کے بعد ایسی کہانیوں کی افیم سے ہی تو انہیں یہ ڈھارس ملتی ہے کہ ان کی قسمت کا دروازہ بھی کسی دن کھل جائے گا۔   لیکھک یہ بات جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کامیابی مجمع  اکٹھا کرنے میں ہے اور مجمع اکٹھا کرنے کے لئے وہ باتیں کرنا ضروری ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں ناکہ وہ باتیں جو انہیں سننے کی ضرورت ہے۔مگر چونکہ نہ میں لیکھک ہوں اور نہ ہی دوراندیش لہٰذا آج کہانی وہاں سے شروع ہوگی جہاں پر کہانی ختم ہوتی آئی تھی۔

سو جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ کہانی سب کے ہنسی خوشی رہنے کے بعد شروع ہوتی ہے تو جب سب ہنسی خوشی رہنے لگے تو اس کے چند دن بعد انہیں یہ احساس ہوگیا کہ یہ ہنسی خوشی رہنا تو بہت بورنگ سی چیز ہے۔اب ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے منہ نوچنے لگیں اور پھر ہنسی خوشی رہنے لگیں مگر ہم نے ایسا کیا تو آپ کہیں گے کہ بھئی کیا عمدہ کہانی ہے   اور ہم محشر کے حساب اور قبر کے عذاب کے بعد سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتے ہیں وہ سخن ناشناس کی تعریف ہے۔ بخدا سخن شناس کی خاموشی اتنا نہیں کھَلتی جتنا سخن ناشناس کی تعریف سے جان جاتی ہے۔ تو کہانی کو بہرحال آگے بڑھنا ہے اور کہانی آگے بڑھتی ہے کہ جب سب لوگ ایک دوسرے کے منہ نوچ رہے تھے تب اس دو پیر کے بھیڑیے نے ایک چیز محسوس کی کہ وہ پنجے چلانے کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی چلانا شروع ہو گیا ہے اور قریب آنے والے ہر  جانور کو بلاتخصیص کاٹنے لگا ہے۔ چونکہ وہ بھیڑیا   تھا اور اپنے خالہ زاد بھائی کی طرح اسے شہروں کی ہوا نہیں لگی تھی تو بجائے سب کو بھنبھوڑنے کی عادت پر فخر کرنے کے اس نے الٹا اس بات پر شرمندہ رہنا شروع کردیا۔  میں جانتا ہوں کہ شہروں میں بسنے والے دو پیروں کے بھیڑیے اس بات پر بھی جزبز ہورہے ہوں گے کہ عجیب احمق بھیڑیا ہے اور ہمارے نام پر دھبا ہے وغیرہ وغیرہ مگر کیا کریں؟  یہ ہماری کہانی ہے اور ہر کہانی کار کی طرح ہماری بھی مرضی کے اپنے تخلیق کردہ کردار سے جس طرح کے چاہے ڈرامے کروائیں۔ جیسے چاہیں اس کی زندگی رگید دیں۔ اور پھر اس کے بعد احسان بھی جتائیں ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ تو ہوا یوں کہ ہوتے ہوتے اس کی شرم اتنی بڑھ گئی کہ اس نے  تمام جانوروں سے دور جا کر رہنے کا فیصلہ کرلیا۔

                                                                        باقی جانوروں پر تو اس کے اس فیصلے کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا مگر جو غریب اس سے محبت کرتے تھے وہ بہت ملول ہوگئے۔ انہوں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ وقتی چیز ہے اور ختم ہوجائے گی مگر اس نے اول اول تو ان پر بھی پنجے جھاڑے اور بعد میں ان سے خود ہی کنارا کر لیا کہ وہ اب اپنے وحشی پن سے انہیں مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

اس کے بعد کیا ہوا۔ کس طرح جب کوئی نہ بچا اور اس نے خود اپنے آپ کو نوچ نوچ کر مار ڈالا وغیرہ وغیرہ یہ سب غیر اہم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

ختم شد

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت