جمعہ، 25 جنوری، 2019

دوسری دفعہ کا ذکر ہے ۔۔۔


دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔۔
مگر نانا ابا! کہانی میں تو ایک دفعہ کا ذکر ہوتا ہے؟ 
بیٹا! ایک دفعہ کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے اور چونکہ  اس پرانی کہانی میں ایک نیا موڑ ہے لہٰذا یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ اب چپ کر کے کہانی سنو! سو دوسری دفعہ کا ذکر ہےکہ کسی جنگل میں پانچ بکریاں رہتی تھیں جن سب کا ایک ایک بچہ تھا۔
مگر کہانی میں تو ایک بکری کے پانچ بچے ہوا کرتے تھے؟
میری جان! وہ ایک دفعہ کی بات تھی۔ یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں خاندانی منصوبہ مندی کا تصور اتنا عام نہیں ہوا تھا تو پانچ بچے پیدا کرنے کے لئے ایک بکری کافی ہوتی تھی۔ اب نیا زمانہ ہے۔ اب پانچ بچوں کے لئے پانچ بکریاں چاہئے ہوتی ہیں۔ سو   بال کی کھال نہ اتارو اور کہانی سنو۔ تو ان پانچ بکریوں اور ان کے بچوں کے علاوہ جنگل میں دوسرے جانور بھی رہا کرتے تھے۔ شیر، چیتے ، ہاتھی، بھالو، لومڑی، بھیڑیے، خرگوش، گلہری وغیرہ سب۔ بہت بھرا پرا جنگل ہوا کرتا تھا۔ بالکل ہمارے شہر جیسا۔ تو وہاں ان بھیڑیوں کے بیچ میں ایک ایسا بھیڑیا بھی تھا جو گرگِ باراں دیدہ تھا۔  تمہیں پتہ ہے گرگِ باراں دیدہ کیا ہوتا ہے؟
مجھے پتہ ہے! مجھے پتہ ہے! آپ نے بتایا تھا گرگ بھیڑیئے کو کہتے ہیں جبکہ باراں بارش کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اورگرگ باراں دیدہ کا مطلب ہوتا ہے وہ بھیڑیا جس نے بارش دیکھ لی ہو۔
شاباش! ایران میں یہ حکایت ہے کہ جب بارش بہت تیز اور مسلسل ہوتی ہے تو چھوٹے جانور اور پرندے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اس طرح دبک کر بیٹھنے کی وجہ سے جنگل کے درندوں کیلئے شکار ختم ہوجاتا ہے۔ ہر گوشت خور اس عارضی قحط کا علاج اپنے طور پر کرتا ہے مگر بھیڑیوں کے پاس اس چیز کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ جب وہ شکار کی تلاش سے تھک جاتے ہیں تو سارے بھوکے بھیڑیے ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ حلقہ تعداد میں کبھی معیًن نہیں ہوتا۔ یہ دس، بیس، سو یا جتنے بھی بھیڑیے ہیں، ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ بھوک اور کچھ مسلسل چوکس بیٹھنے کی تھکن سے کچھ ہی گھنٹوں میں کسی ایک بھیڑیے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اس کے آنکھیں موندتے ہی باقی تمام بھیڑیے اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کو نوچ نوچ کر کھالیتے ہیں۔ کہنے کو بھوک مٹنے کے بعد اس حلقے کی ضرورت ختم ہوجانی چاہیئے مگر یہ قدرت کا قانون ہے کہ ظالم اکثر اپنے ہی اس ظلم کا نشانہ بنتا ہے جو اس نے کسی وقت کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پہلے بھیڑیے کو کھانے کے بعد باقی تمام بھیڑیے دوبارہ اس ہی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گرگ باراں دیدہ کا پورا حلقہ نہ ختم ہوجائے اور آخر میں صرف ایک بھیڑیا نہ بچ جائے۔ اس آخری بچ جانے والے بھیڑیے کو گرگ باراں دیدہ کہتے ہیں۔ تو ان بھیڑیوں میں سے ایک گرگِ باراں دیدہ بھی تھا جسے اپنے گرگِ باراں دیدہ ہونے پر بے حد ناز بھی تھا اور اس ہی گھمنڈ  میں وہ خرگوش وغیرہ کا شکار کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔  مگر پیٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ غرور سے نہیں بھرتا۔ اسے بھرنے کے لئے جتن بھی کرنے پڑتے ہیں اور اکثر جھکنا بھی پڑتا ہے۔ سو شیر کی طرح وہ بھینسے کا شکار  کرنے کی کوشش میں شرمندہ ہونے کے بعد پیٹ کا جہنم بھرنے اور اپنی مجروح انا کی تسلی کے لئے اس کی نظر اب کسی کمزور شکار پر تھی۔ بڑے جانوروں کے شکار میں سب سے آسان شکار بکری تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ  اسے ان کے سینگوں سے خوف آتا تھا۔ وہ براہِ راست ان کا شکار کرنے سے خائف تھا۔
تو پھر اس نے کیا کیا؟
اس نے وہی کیا جو پہلی دفعہ میں کیا تھا۔ بکریوں سے الگ الگ جا کر میٹھی میٹھی باتیں کیں۔  جب ملنے جاتا ان کے بچوں کے لئے خاص طور پر چارہ ساتھ لے کر جاتا۔  ان کو یقین دلاتا کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اگر کوئی پریشانی ہوئی تو انہیں بھیڑیے بھائی کا تحفظ حاصل رہے گا۔ وہ بیچاری بکریاں یہ سمجھتیں کہ بھیڑیے بھائی ہمارے بچوں کی محبت میں چارہ لے کر آتے ہیں مگر جب وہی چارہ کھا کھا کر ان کے بچے خوب فربہ ہوگئے تو بھیڑیے بھائی ایک ایک کر کے انہیں ہڑپ کرگئے!
مگر  اس کے بعد تو بکریوں نے ان کا پیٹ پھاڑ کر اس میں سے اپنے بچوں کو نکال لیا تھا نا؟
نہیں بیٹا! ایسا صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں تو یہ ہوا تھا کہ پہلی دو بکریاں جب اپنے بچے کی موت کا رونا رونے بھیڑیے بھائی کے پاس پہنچیں تو بھیڑیے بھائی ان دونوں کو بھی کھا گئے۔ تیسری غریب کو حقیقتِ حال پتہ چلی تو وہ اتنی بد دل ہوئی کہ جنگل ہی چھوڑ گئی کہ یہ جنگل اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اور باقی دو کا کیا ہوا؟ ان دونوں کو بھی بھیڑیے نے کھا لیا؟
نہیں! یہی تو کہانی کا نیا موڑ ہے۔دو بکریوں اور تین بچوں کے کھانے کے بعد بھیڑیے بھائی کے مزاج آسمانوں پر تھے سو انہوں نے ان کے بچے کو کھانے کے بجائے اغوا کر کے اپنے گھر رکھ لیا اور جنگل میں اعلان کر دیا کہ آج سے یہ بھیڑیے کے بچے کہلائیں گے۔ جنگل والوں نے سمجھایا کہ بھائی ان کا تو نام ہی بکری کے بچے ہے ، یہ تمہارے بچے کیسے ہوسکتے ہیں؟ تو بھیڑیے بھائی نے جواب دیا کہ  جنگل میں بکریوں کا ان سے بڑا خیر خواہ کوئی نہیں ہے اور وہ ان بچوں  کی دیکھ بھال کے لئے کوئی بکری ہی رکھیں گے سو یہ بکری کے بچے کہلانے کے باوجود رہیں گے اب بھیڑیے کے بچے بھی۔ اور اگر کسی کو زیادہ مسئلہ ہے تو وہ ان بکریوں کو بول دے کہ مجھ سے آکر خود بات کر لیں!
یہ تو اتنی مزاحیہ بات ہے
ہے نا!
تو پھر ان بکریوں نے کیا کیا؟
 جیسے ہی ان دونوں کو احساس ہوا کہ بھیڑیا ان کے لاڈلے بچے کو کھانے کے ارادے میں ہے ان دونوں نے مل کر ایکا کر لیا۔ وہ دونوں پہلی کہانی کے مطابق لوہار کے پاس اپنے سینگ تیز کروانے تو ضرور گئیں مگر اپنے سینگوں پر دھار لگوانے کے بعد انہوں نے بھیڑیے بھائی پر حملہ نہیں کیا بلکہ الٹا اس کے بھِٹ کے سامنے ہی اپنا گھر بنا لیا تاکہ صبح شام گھر میں آتے جاتے بھیڑیے کی نظر ان پر اور ان کے دھار لگے ہوئے سینگوں پر پڑتی رہے۔
اس سے کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا؟ بیچارہ گرگِ باراں دیدہ جو اپنے آپ کو مکاری کا باپ سمجھتا تھا اب اٹھتے بیٹھتے ان کو دیکھ دیکھ کر کانپتا ہے کہ کب یہ اپنے سینگوں سے مجھ پر حملہ آور ہوں گی۔
تو وہ کب حملہ آور ہوں گی؟
شاید کبھی نہیں! دونوں بکریاں سیکھ چکی ہیں کہ موت سے زیادہ موت کا خوف برا ہوتا ہے۔ اس کی مکمل موت انہیں شاید ایک وقتی خوشی ضرور دے جائے گی  مگر یہ جو قطرہ قطرہ موت کا خوف اس بھیڑیے کی نیندیں اڑاتا ہے، اس خوشی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
تو ان کے بچوں کا کیا ہوا؟
ارے وہ تو میں بتانا ہی بھول گیا۔ جیسے ہی ان بکریوں کو پتہ چلا کہ بھیڑیے بھائی ان کے بچوں کو کھانے کے درپے ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کو چھپا کر وہاں روئی کے پتلے رکھ دیے ۔ بکری کے بچے سمجھ کر بھیڑیے بھائی جنہیں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے تھے اور جنہیں وہ سجا بنا کر رکھتے ہیں وہ محض روئی کے پتلے ہیں۔ اصل بچے اب بھی بکری کے پاس ہیں اور اب اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ خود ان کے بھی سینگ نکل آئے ہیں۔ دھار والے سینگ! اگر تم کبھی جنگل میں جاؤ تو ان بکریوں سے بچ کر رہنا۔ وہ اب کمزور نہیں ہیں۔  اب جلدی سے سو جاؤ ۔ کہانی ختم۔ پیسہ ہضم!

اتوار، 13 جنوری، 2019

ولن


نانا ابا ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کہانی کبھی نہیں بدلتی، فقط کردار بدلتے ہیں! اور کردار  کی تبدیلی بھی کیا؟ فقط ان کے نام!
آج جب برسوں بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو یہاں نانا ابا کے کمرے میں موجود ہر ہر چیز وہیں موجود ہے جہاں کبھی ہوا کرتی تھی۔ البتہ مسلسل جھاڑ پونچھ اور صفائی کے باوجود وقت چیزوں پر اپنے اثرات چھوڑ گیا ہے اور تمام اشیاء سالخوردہ معلوم ہوتی ہیں۔ شاید کراچی کی ہوا ہی ایسی ہے۔ یہ انسانوں اور رشتوں کو نہیں بخشتی تو چیزیں اگر کھوکھلی ہوجائیں تو تعجب کیسا؟میں بالعموم فلسفہ نہیں بکتا مگر اب نانا ابا کی لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں تو  کچھ تو اثر آنا بنتا ہے نا۔  
میں نے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اس ہی میز کی دوسری طرف گزارا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا نانا ابا کو بیشتر میز کے اس جانب بیٹھے لکھتا پایا تھا جہاں اس وقت میں براجمان تھا۔ نانا ابا اپنے وقت کے بہترین لکھاری تھے۔ ان کے فن کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ان کی زندگی تو کجا ، ان کے گزرنے کے پندرہ سال بعد بھی وہ مشہور نہیں ہوسکے تھے۔ اس ہی میز پر بیٹھ کر نانا ابا نے وہ تمام شاہکار تراشے تھے جن کا آخری ٹھکانہ چولہا یا کوڑے دان ہوا کرتا تھا۔ انسانی نفسیات نانا ابا کا پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا۔ وہ اس کی نئی نئی پرتیں دریافت کرکے اپنی کہانیوں کے ذریعے انہیں کھولنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اگر عقدہ حل ہوجاتا تو اسے جلا دیتے اور اگر ناکام رہتے تو کسی بھی اخبار یا جریدے کو بھیج کر فرضی نام سے چھپوا دیا کرتے اور خوب خوب داد سمیٹتے۔چہیتا ہونے کی سزا کے طور پر وہ کہانیاں جلنے سے پہلے میرے  حصے میں آتیں اور بسا اوقات میں انہیں محض یہ سوچ کر برداشت کرلیتا تھا کہ انشاءاللہ اس کے بعد یہ کہانی اس ہی طرح جل کر راکھ ہوگی جیسے اس وقت میں اندر ہی اندر بھسم ہورہا ہوں۔
اس ہی میز کے دوسرے طرف بیٹھ کر میں نے نانا ابا سے وہ آخری کہانی بھی سنی تھی کہ جس کے بعد نانا ابا نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کس طرح اس دن ہم دونوں دیر تک بحث کرتے رہے تھے۔  نانا ابا کا کہنا تھا کہ کہانی ہمیشہ ہیرو کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی رہی ہے۔ کبھی کسی نے ولن کا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور اگر کی بھی تو اس بھونڈے پن سے کہ کہانی کے آخر میں وہ ولن ہی ہیرو بن گیا۔ گویا وہ کہانی بھی ایک ہیرو کی ہی ہوئی کہ جسے زمانہ ولن سمجھتا رہا تھا۔ میرا ماننا  تھا کہ کہانیاں ہوتی ہی اصلاح کے لئے ہیں۔ ایسی کہانی کا فائدہ جس میں کوئی پیغام ہی نہ ہو  یا اس سے بھی بدتر کہ برا پیغام جائے؟  وہ کہانی تو نہ ہوئی، نری زبان کے چٹخارے کی مشق ہوئی ! نانا ابا کی جوابی دلیل یہ تھی کہ جسے اصلاح چاہئے وہ سر سید احمد خان کو پڑھے یا غامدی کو سنے ۔ جس کو ہو جان و دل عزیز میری گلی میں آئے کیوں؟  میں اس بات پر مُصِر تھا کہ لفاظی برطرف، کہانی کے اندر بہرحال مقصدیت ہونی چاہئے ورنہ کہانی لکھنے کا احسان نہیں کرنا چاہئے۔ گفتگو میں آوازیں اونچی نہیں ہوئیں تھیں مگر لفظ ادائیگی میں جس طرح چبائے جا رہے تھے وہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ  ہم دونوں  ہی سمجھتے تھے کہ ہم غلط ہیں مگر ہماری انا اس بات کے ثابت ہوجانے سے خائف تھی۔
نانا ابا کی اس آخری کہانی کے مطابق کسی گاؤں میں ایک نہایت کمینہ اور کم ظرف آدمی رہا کرتا تھا جو تمام انسانیت کے کام آتا تھا۔ دنیا اس کے ساتھ ہر طرح کے ناروا سلوک کرتی تھی۔  اس کی نیک نیتی پر سوال اٹھاتی تھی۔  اس کے فلاحی کاموں سے بھرپور فائدہ اٹھاتی اورساتھ اس ہی کے منہ  پر یہ بھی کہتی جاتی تھی کہ وہ یہ سب اپنی نیک نامی کے لئے کرتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے تھے کہ وہ دنیا کے طعنے اس لئے مسکرا کر برداشت کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی انا کا مریض ہے اور خود کو یہ سوچ کر تسلیاں دیتا ہے کہ دیکھو! ان کے اس حد کے نیچ رویے کے باوجود نہ میں نیکی کرنا چھوڑوں گا نہ ان طعنوں کا جواب دوں گا۔  یہ سلسلہ اس ہی طرح جاری رہا اور نہ لوگ اپنے طعنوں سے باز آئے اور نہ وہ اپنی نیکی سے۔  چونکہ ہر انسان کے اندر بہرحال ایک ولن چھپا ہی  ہوتا ہے سو اس کے اندر کا ولن بھی جاگ گیا اور چونکہ وہ ایک نہایت کمینہ اور کم ظرف آدمی تھا اس لئے اس سے پہلے کہ وہ ولن کام دکھاتا، اس نے خودکشی کر کے اپنا قصہ تمام کیا اور رہتی دنیا کے لئے احساسِ کمتری چھوڑ گیا کہ ایک انسان ایسا بھی تھا جو ساری عمر ہیرو رہا اور کبھی ولن نہیں بن پایا۔ آنے والے برسوں میں نجانے کتنے ہیرو امیدوں کے اس بوجھ سے ولن بن گئے کہ آیا ہم اس جیسے بن بھی پائیں گے یا نہیں۔
نانا ابا ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کہانی کبھی نہیں بدلتی، فقط کردار بدلتے ہیں! اور کردار  کی تبدیلی بھی کیا؟ فقط ان کے نام! آج جب برسوں بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو یہاں نانا ابا کے کمرے میں موجود ہر ہر چیز وہیں موجود ہے جہاں کبھی ہوا کرتی تھی۔ البتہ مسلسل جھاڑ پونچھ اور صفائی کے باوجود وقت چیزوں پر اپنے اثرات چھوڑ گیا ہے اور تمام اشیاء سالخوردہ معلوم ہوتی ہیں۔ شاید کراچی کی ہوا ہی ایسی ہے۔ یہ انسانوں اور رشتوں کو نہیں بخشتی تو چیزیں اگر کھوکھلی ہوجائیں تو تعجب کیسا؟ شاید اس ہی  کھوکھلے پن سے تنگ آ کر نانا ابا نے خودکشی کر لی تھی۔ میں بالعموم فلسفہ نہیں بکتا مگر اب نانا ابا کی لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں تو  کچھ تو اثر آنا بنتا ہے نا۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت