اتوار، 31 مارچ، 2019

سوئی دھاگہ


خدا نے انسان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی اس پر اسکی برداشت سے زائد بوجھ نہ ڈالے گا۔ البتہ اس بارے میں تمام الہامی کتب خاموش ہیں کہ آیا خدا  انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر برداشت سے زائد بوجھ ڈالنے سے باز رکھے گا یا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت کو زمہ داریوں کا بھاری بوجھ تو اٹھا لیتا ہے مگر توقعات کا بوجھ نہیں سہار پاتا۔اور شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان سرے سے اس المیے کو المیہ ماننے کو تیار ہی نہیں  ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک ایسے ہی المیے سے دوچار ہوں۔  
میرے بچپن کا بیشتر حصہ نانی کے گھر میں گزرا تھا ۔  ویسے تو نانی کے گھر میں نانی نانا کے علاوہ دو عدد ماموں بھی ہوا کرتے تھے   جو کافی مہربان بھی تھے مگر میری دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ چھوٹی خالہ ہوا کرتی تھیں۔  چھوٹی خالہ مرغیاں پالنے اور بچوں کو بگاڑنے کے حوالے سے پورے خاندان میں مشہور تھیں۔ مگر اس کہانی میں تو یہ سب کردار اضافی ہیں۔  مگر  جب ہم حقیقی زندگی کا سب سے بڑا حصہ اضافی کرداروں کی نظر کردیتے ہیں تو اس کہانی پر کیوں اعتراض کرنا؟ تو بچپن کی ہی ایک دوپہر میری اس سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ مرغیوں کے انڈوں سے چند دن پہلے ہی چوزے نکلے تھے اور خالہ  کے پرزور اصرار پر میں انہیں دیکھنے پہنچا ہوا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا تو گھر کے سب بڑے آرام کر رہے تھے جبکہ ہم  آنگن میں مرغیوں کا پنجرہ کھول کر چوزوں کو یہاں سے وہاں بھاگتے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اچھا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا سو ہماری خوشیاں بھی وقتی ہی ثابت ہوئیں اور محلے کی بدنام بلی  نجانے کہاں سے آن ٹپکی۔  اس سے پہلے کہ ہم معاملے کو سمجھ پاتے، آنگن میں مرغیوں نے کڑکڑا کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ بلی منہ میں ایک مرغی کو دبائے رفو چکرہو رہی تھی۔  اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی سو ہم نے بھی چپل کی فکر چھوڑ کر بلی کے پیچھے ہی باہر دوڑ لگا دی۔ باہر گلی میں پہلی مرتبہ میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ میری ہی عمر کا ایک لڑکا تھا۔ مرغی اس کے ہاتھ میں تھی جس کے نرخرے سے خون بہہ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، وہ خود ہی بول پڑا،  بلی آپ کے گھر سے مرغی لے کر بھاگ رہی تھی پر مجھے دیکھ کر پھینک گئی ہے۔  میں حواس باختہ کھڑا اس کے ہاتھ میں لرزتی ہوئی لہولہان مرغی دیکھ رہا تھا  جو شاید چند ہی گھڑیوں کی مہمان تھی۔ میں اتنا بوکھلایا ہوا تھا کہ شاید وہیں کھڑے مرغی کو اس کے ہاتھوں میں دم توڑتا دیکھتا رہتا مگر بھلا ہو کہ اس نے خود ہی مرغی کو کسی بڑے کو دکھانے کا مشورہ دے دیا۔ میں مرغی کو اس حال میں اپنے ہاتھ میں لینےمیں متامل تھا سو اس کو ساتھ لے کر گھر میں آگیا جہاں مرغیوں کا شور سن کر خالہ پہلے سے آنگن میں پہنچ چکی تھیں۔ اپنی مرغی کو اس حال میں دیکھ کر خالہ نے واپس کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں سوئی دھاگہ تھا۔ انہوں نے مجھ سے مرغی کا سر پکڑنے کو کہا اور اس کے کھلے گلے کو اس طرح سینے لگیں جیسے کپڑے میں رفو لگا رہی ہوں۔  بچہ ہونے کے باوجود میں جانتا تھا یہ ایک نہایت احمقانہ حرکت تھی اور اب اس مرغی کو مرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھامگر اول تو مرغیوں کوآنگن میں کھولنے کا آئیڈیا میرا تھا اور اس سوئی دھاگے کے ٹانکوں سے وقتی طور پر ہی سہی مگر خون کا  اخراج رک گیا تھا سو میں خالہ کو ٹوکنے یا سکھانے کی حماقت نہیں کرنا چاہتا تھا۔  مرغی کا گلا سینے کے بعد خالہ سکون میں آگئی تھیں اور مرغیوں کو واپس دڑبے میں ڈال کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔  میری  کچھ جان میں جان آئی تو مجھے اس مسیحا کی موجودگی کا احساس ہوا جس نے مجھے مکمل شرمندگی سے بچالیا تھا۔ تعارف پر معلوم ہوا وہ نانی اماں کے محلے میں نیا آیا ہے اور ایک دیگر سکول میں میری ہی جماعت کا طالب علم ہے۔ اس دن سے شروع ہونے والی ہماری دوستی آج ستائیس سال بعد بھی قائم تھی۔ہم اکثر ملتے تھے۔ ساتھ کھاتے تھے۔ ساتھ ہنستے تھے۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔  اور آج بھی میں اس سے مل کر آنے کے بعد ہی بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
آج کی ملاقات لیکن ماضی کی تمام ملاقاتوں سے مختلف تھی۔  آج وہ مجھے دوستی کے مرتبے سے بلند کر کے خدا بنانا چاہتا تھا۔ اپنے غم کوئی خدا کے علاوہ کسی کو کیسے سنا سکتا ہے ؟ اور بالفرضِ محال اگر سنا بھی دے تو اس سے چارہ جوئی کی امید کیسے کر سکتا ہے؟  مگر آج وہ یہ سب بنیادی باتیں بھول کر بیٹھا ہوا تھا اور اس بات پر مُصِر تھا کہ میں نہ صرف اس کی بات سنوں بلکہ اسے دلاسہ بھی دوں۔  اس نے اپنی روح کھول کر میرے سامنے رکھ دی جو کہ جگہ جگہ سے چاک تھی۔  کچھ زخم ایسے تھے کہ جن پر کھرنڈ آچکا تھا مگر زیادہ تر اب تک رِس رہے تھے اور دو ایک سے تو باقاعدہ خون جاری تھا۔  میں نے اسے سمجھایا کہ اس کے ان زخموں کا علاج سوائے خدا کے کسی کے پاس نہیں تو وہ بچپنا لے کر بیٹھ گیا کہ جب خالہ کی مرغی سوئی دھاگے سے سل کر  ناصرف زندہ رہ سکتی ہے بلکہ آگے چل کر انڈے بھی دے سکتی ہے توکیا تم ہمدردی کے سوئی دھاگے سے میرے زخم نہیں سی سکتے؟   میں نے اسے سمجھایا کہ میں خالہ کی طرح کم عقل نہیں ہوں۔ اس طرح سوئی دھاگے سے گلا سینے سے مرغی کو سیپٹک یا کوئی دوسری بیماری بھی ہوسکتی تھی۔  اس کا زخم پک بھی سکتا تھا۔ اس طریقے سے اسے کوئی دوسری بیماری بھی لگ سکتی تھی۔ انسان کو کچھ کام ماہرین کے لئے بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور صرف ہمدردی کے نام پر ہر کٹے ہوئے گلے کو سینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
خدا نے انسان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی اس پر اسکی برداشت سے زائد بوجھ نہ ڈالے گا۔ البتہ اس بارے میں تمام الہامی کتب خاموش ہیں کہ آیا خدا  انسانوں کو بھی ایک دوسرے پر برداشت سے زائد بوجھ ڈالنے سے باز رکھے گا یا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت کو زمہ داریوں کا بھاری بوجھ تو اٹھا لیتا ہے مگر توقعات کا بوجھ نہیں سہار پاتا۔اور شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان سرے سے اس المیے کو المیہ ماننے کو تیار ہی نہیں  ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک ایسے ہی المیے سے دوچار ہوں۔  میں اس کو سمجھا کر تو لوٹ آیا مگر شاید بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ مجھے یقین ہے میرے جانے کے بعد اس نے خود ہی سوئی دھاگہ نکال لیا ہوگا جس کے نتیجے میں اسے سیپٹک ہوا ہوگا اور اس سے تنگ آکر اس نے خودکشی کرلی۔  خود تو چلا گیا مگر مجھ پر یہ بوجھ چھوڑ گیا کہ اگر میں آتے ہوئے اس کے پاس سے بھی سوئی دھاگہ اٹھا لے آتا تو نہ اسے سیپٹک ہوتا نہ وہ جان سے جاتا۔ افسوس!

1 تبصرہ :

  1. khoobsurat tehreer!! tawaquat ka bojh apni jaga... lekin kabhi kabhar hamdardi k do alfaz bhi insan ka dukh halka kar daitay hain aur vo aisay tankay sabit hotay hain jin say na khoon rista hai na koi septic hota hai....Sohail

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت