جانتی ہوں کہ ایک
جملہ کہنے کے لئے پوری کہانی سنانا وقت کا زیاں ہے اور مانتی ہوں کہ کچھ جملے اپنے
آپ میں مکمل داستان ہوتے ہیں مگر کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جنہیں بیان
کرنے کے لئے محض ایک جملے سے تشفی نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں ایک خوفناک احساس رہ
جاتا ہے۔ بات نہ پہنچا پانے کا احساس۔ میں اس احساس سے ڈرتی ہوں۔ اور شاید اس ہی
لئے کہانی کو ایک جملے تک محدود نہیں رکھ پا رہی۔
حالانکہ کہانی بہت مختصر سی ہے۔ میں کسی کے نکاح میں نہیں ہوں۔ اصولی طور پر کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہئے اور
قارئین کو قیاس کے گھوڑے دوڑانا شروع کر دینا چاہئیں کہ مجھے بن بیاہی، بیوہ یا مطلقہ کے خانے میں رکھ کر میری
کردارسازی کرسکیں اور اس خانے میں میرے
ہونے کی وجوہات اپنی ذہنی استعداد کے مطابق طے کر کے کہانی کو اپنی مرضی کا انجام
دے کر آگے بڑھ سکیں۔ جیسے کہ ہندی آرٹ پکچرز اور پاکستانی حقیقی زندگی میں ہوتا
ہے۔ مگر میں اصولوں کی اتنی ہی پاسدار ہوتی تو اس معاشرے میں اب تک اکیلی کاہے کو
ہوتی؟ سو اصولی طور پر یہ کہانی بے شک ختم
ہوگئی ہو مگر میری کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ رواداری کے نام پر البتہ اتنا ضرور
کر دیتی ہوں کہ کہانی کو آگے اس اسلوب میں بیان کر دوں گی کہ جس کو سننے اور پڑھنے
کے آپ سب عادی رہے ہیں۔
ایک دفعہ کا
ذکر ہے کسی جگہ پر ایک لڑکی رہتی تھی۔ اس
کی عمر کیا تھی؟ اس کی صورت کیسی تھی؟
گوری تھی کہ کالی؟ بال لانبے تھے کہ چھوٹے؟
یہ سب غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ وہ بس آپ کی جیسی لڑکی تھی۔ یا
آپ کے اندر موجود لڑکی جیسی لڑکی تھی۔ اب اگر یہ جملہ آپ کی سمجھ آگیا تو آگے کی
کہانی بھی سمجھ آجائے گی۔ اگر نہیں آیا تو میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ تو جو
کسی جگہ پر جو لڑکی رہتی تھی وہ کسی کو دل دے بیٹھی۔ اب یہ دل دینے کی واردات کی
تفصیلات کیا ہیں؟ آیا یہ دل حلال طریقے سے دیا گیا یا دل کی یہ ترسیل کسی ہنڈی
حوالے قسم کی کسی غیر اخلاقی و غیر قانونی طریقے پر ہوئی؟ یہ سوالات اضافی ہیں کہ زمانے کا
نیب پہلے ہی اس لڑکی سے ان سوالات پر ان گنت پیشیوں میں تفتیش کر چکا ہے۔ اگر آپ
مُصِر ہیں اور تفصیلات کے متقاضی ہیں تو
زمانے سے رابطہ کیجئے کہ جو لڑکیوں کے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہے جو بیچاریاں
اپنے ہی بارے میں خود تک نہیں جانتیں۔
تو کرنا خدا
کا کیا ہوا کہ جس انسان کو اس لڑکی نے دل دیا تھا وہ غریب نہ رہا۔ وہ اس کے قریب
نہ رہا یا اس دنیا میں نہ رہا ، یہ آپ اپنے اندر کی لڑکی سے خود پوچھ لیجئے۔ تو
جانے والا تو گیا مگر جاتے جاتے ساتھ اس بیچاری کا دل بھی لے گیا۔ تصور تو کیجئے،
بغیر دل کی لڑکی؟ تقابل اور سمجھانے کے لئے اگر کہوں تو مرد کے جسم میں ایک دل
ہوتا ہے جبکہ لڑکی کے دل میں ایک جسم۔ اب
جب دل ہی نہ رہ گیا تو اس غریب کے پاس بچا کیا؟ لے دے کر ایک جسم؟ اس لئے میں نے
اسے بیچاری کہا۔ تو اب وہ بیچاری لڑکی بغیر دل کے ایک جسم بن کر رہنے لگی۔ اور کرتی
بھی کیا؟ تقدیر کے علاوہ لڑکیوں کی زندگی اور موت بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تو اب وہ بیچاری
بغیر دل کے جسم لئے زندگی گزارنے کی کوشش کرنے لگی۔
کچھ دنوں بعد
وہاں سے ایک ہمدرد مسافر کا گزر ہوا ۔ اس نے جب اس لڑکی کو اکیلا دیکھا تو اسے بہت
ترس آیا۔ اس نے چاہا کہ وہ اس کا جوڑ کسی
بھلے مانس سے کرا دے۔ مگر دنیا کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ یہاں ہر چیز کی ایک
قیمت رہا کرتی ہے اور ساتھ کی قیمت ہوا کرتی ہے دل! جو اس غریب کے پاس رہا نہیں تھا۔
مگر اڑچن یہ تھی کہ لڑکی بہرحال انسان تھی اور انسان اپنی کم مائیگی کا احساس خود
خدا کے سامنے بھی شدید مشکل میں ہی بمشکل کر پاتا ہے سو کسی دوسرے انسان کے سامنے
کیسے کرے؟ کس منہ سے اسے بتاتی کہ بھائی
صاحب! میں اب اس رشتے کی قیمت چکانے کے لئے کنگال ہوں کہ کل کمائی جانے والا ساتھ
لے جا چکا ہے اور دل بازار سے ملتا نہیں کہ ایک بار چلا گیا تو دوسرا بازار سے لے
کر استعمال میں لے آئے۔ بیچاری بس اتنا ہی کہہ پائی کہ" بھائی صاحب! کوئی
مناسب جوڑ اگر ملا تو سوچوں گی۔ مگر رشتے
کی قیمت چکانے کی اب نہ حیثیت ہے نہ تاب" مسافر چونکہ مرد تھا اس لئے یہ جواب
سن کر حیران رہ گیا۔ بولا ماشاءاللہ بھری پری ہو۔ قیمت کیونکر نہ چکا پاؤ گی؟ جی
تو اس لڑکی کا بھی چاہا کہ فلسفے کا دفتر
کھول کر اس ہمدرد کو سمجھائے کہ لڑکی کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے چھوٹی چیز
اس کا جسم ہوتا ہے۔ مگر وہ ذہین تھی اور جان گئی تھی کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ہمدرد
اس بات کو کبھی سمجھ ہی نہ پائے گا اور یوں متفق ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
سو وہ بیچاری مسکرا کر بس اتنا کہہ پائی کہ "انشاءاللہ، اللہ آسانیاں فراہم
کرے گا"
وہ ہمدرد تو
مدت ہوئی گزر گیا مگر کہانی اور کہانی کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی اب بھی وہیں ہے اور
ہمدرد قطار اندر قطار آئے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو وہاں جا کر یہ بورڈ لگا دے کہ
"لڑکی جسم سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتی ہے اور اس کے پاس مرد کو دینے کے لئے سب سے
کم مایہ چیز اس کا جسم ہوتا ہے۔ مانگ کر شرمندہ نہ ہوں! "
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں