کہانی کا انجام ہمیشہ اس کے آغاز میں پوشیدہ ہوتا ہے
۔ اور میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ آغاز سے
انجام کے درمیان ہونے والا سیاہی کا زیاں
فقط قاری کی تسلی اور اس جھوٹی امید کے قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے کہ شاید اب کی
بار کہانی مختلف نکلے گی۔ مگر کہانی کا انجام ہمیشہ اس کے آغاز میں پوشیدہ
ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کسی جگہ
ایک طفیلیا بسا کرتا تھا۔ جی ہاں! وہی طفیلیا جسے آپ اردو میں پیراسائٹ کہا کرتے
ہیں۔ تو جیسے کے طفیلیے اپنی خوراک کے لئے دوسرے جانداروں پر منحصر ہوتے ہیں ویسے
ہی یہ بھی ایک طفیلیا تھا۔ فرق محض اتنا
تھا کہ یہ ایک جذباتی طفیلیا تھا۔ جی نہیں! اس کی خوراک دوسروں کے جذبات تھے۔ اب شاید آپ منطق کی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں کہ
اس حساب سے تو انسان نامی تمام مخلوق ہی طیفلیوں میں گنی جانی چاہیے کہ ان کی تمام تر زندگی ہی ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے مگر میں ایک معمولی لیکھک ہونے کے ناطے خود کو ہر
طرح کے فلسفے اور علمی مباحث سے دور رکھنا چاہوں گا کہ فی زمانہ اردو ادب میں اس قسم کی چیزوں کا فیشن موجود نہیں ہے۔ ہماری کہانی ایک مخصوص طفیلیے تک محدود تھی جو
دوسروں کے جذبات کو اپنی انا کی خوراک بنا کر زندہ ہے، اور یہ کہانی اس ہی طفیلیے
اور اس سے جڑے کرداروں تک ہی محدود رہے
گی۔
تو ہماری
کہانی کا طفیلیہ ایک مدت سے مزے کی زندگی
بسر کر رہا تھا۔ معاشرتی تہذیب کی بنا پر خود کو جانوروں سے برتر سمجھنے والے
انسانوں کے درمیان بات چیت اس زمانے میں
بھی محض اپنی سنانے تک ہی محدود تھی اور شاید تب بھی انسان دوسروں کی بات سمجھنے
سے زیادہ جواب دینے کے لئے سننے کے عادی تھے۔ لہٰذا سینکڑوں سننے والوں کے بیچ
کوئی ایک بھی سمجھنے والا نہ پانے کا دکھ جن نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا تھا، اس
میں جذبات سے بھر پور اور توجہ کے منتظر
شکار بآسانی دستیاب تھا۔ لہذا ہمارا طفیلیہ مرزا غالب کی بیان کردہ
توضیح کہ " انسان کو جس چیز کا شغف
ہو، اس کے میسر ہو جانے کا نام عیش ہے"
کے حساب سے عیاشی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔
کہانی کا آغاز
وہاں سے ہوتا ہے کہ جب اس طفیلیے کی زندگی میں ایک ایسے انسان کی آمد ہوتی ہے جو
در اصل خود بھی ایک طفیلیہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ایک دوسرے کی فطرت
پہچانتے ہوئے سلام کر کے رخصت لے لیتے مگر
ہر منفرد چیز کو برتنے کا شوق آج ہی کی طرح اس دور میں بھی انسانوں کی زندگیاں تاراج کیا کرتا تھا۔ سو بجائے راہیں جدا کرنے کے وہ
دونوں طفیلیے ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے۔
شروعات میں ہر چیز حسین ہوا ہی کرتی ہے سو وہ
دونوں بھی دوسروں سے جمع کردہ جذبات ایک دوسرے کی غذا بنا کر خوش ہوتے اور طفیلیوں
کی فطرت نبھاتے رہے مگر آنے والے وقت میں دونوں کو احساس ہو گیا کہ ان دونوں کے
ایک ساتھ زندہ رہنے کے لئے ان دونوں ہی کا دوسرے انسانوں سے جڑا رہنا ضروری ہے۔ گو
کہ معاملہ باہمی ضرورت کا تھا مگر رشتے کی نوعیت کا تقاضہ تھا کہ دونوں اس بات پر
کڑھا کریں کہ کیسے ان کا جیون ساتھی ان سے مخلص نہیں ہے اور کیسے زندگی نے ان کے لئے تکلیف دہ فیصلے کیے ہیں
وغیرہ وغیرہ۔
کہنے کو ایک
راستہ یہ بھی ممکن تھا کہ دونوں اکٹھے
ہوکر اپنی موجودہ شناخت ترک کریں اور من تو شدم تو من شدی ہوکر ایک نئی شناخت
اختیارکر لیں مگر شناخت کے سفر سے اختیاری
مفر انسانوں کے لئے کب ممکن رہا ہے؟ پھر وہ خواہ طفیلیہ ہی کیوں نہ ہو! سو دونوں
ساتھ رہ کر باقی زندگی ہنسی خوشی اذیت سے
گزارنے لگے۔
کہانی کے
کمرشلی کامیاب ہونے کے لئے ہونا تو یہی چاہیے کہ اختتام پر دونوں اپنی راہیں جدا
کر کے ہنسی خوشی رہنے لگیں مگر جیسا کہ
میں نے عرض کیا کہ اس کہانی کے انجام میں
وہ دونوں طفیلیے جذباتی کہانیاں
سنا کر میزبانوں کا جھنڈ اپنے گرد جمع رکھتے
اور ہنسی خوشی اذیت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
میں کہانی کے
آغاز میں ہی عرض کر چکا ہوں کہ کہانی کے آغاز میں ہی اس کا انجام پوشیدہ ہوتا ہے
۔ اور میں تو اس بات کا بھی قائل ہوں کہ
آغاز سے انجام کے درمیان ہونے والا سیاہی
کا زیاں فقط قاری کی تسلی اور اس جھوٹی امید کے قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے کہ شاید
اب کی بار کہانی مختلف نکلے گی۔ مگر
کہانی کا انجام تو ہمیشہ اس کے آغاز میں
پوشیدہ ہوتا ہے۔