ہفتہ، 1 مئی، 2021

زٹل

 

ہم انسان ایک روح ہیں کہ جسے ایک جسم دیا گیا ہے یا پھر ہم ایک جسم ہیں کہ جسے ایک روح ودیعت کی گئی ہے؟  اس کہانی کے برے یا بھلے اور جھوٹے یا سچے  ہونے کا کل  دارو مدار آپ کے نقطہ نظر پر  ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک جسم ہیں جسے ایک روح عطا کی گئی ہے تو عیش کیجئے ۔ کہانیاں روح کی تالیف اور تربیت کے لئے ہوتی ہیں  اور جب آپ نے روح کو ثانوی تسلیم کر ہی لیا ہے تو اس کی ضروریات بھی آپ کے لئے ثانوی ٹھہریں گی اور ایک ثانوی چیز کی تسکین کے لئے کہانی سننے اور پڑھنے ایسا وقت کا زیاں   چہ معنی ؟ البتہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ انسان ایک روح ہے اور اسے ایک عارضی جسم عطا کیا گیا  ہے تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا  ہو گا  کہ روح  کے بنیادی اور جسم کے ثانوی ہونے کے ناتے ، روح کی ضروریات ہی آپ کی بنیادی ضروریات ہیں اور اس کہانی کا سننا آپ کے لئے لازم ہے کہ یہ کہانی میرے اور آپ جیسے ہی ایک انسان  کی ہے جو اپنی روح کی بقا کی خواہش میں وقت نامی سمندر میں بہتا ہوا ایک ایسےجزیرے پہ جا رکا تھا کہ جہاں اس سے پہلے کسی انسان کے قدم تو کیا سوچ کی پرچھائی بھی نہ پڑی تھی۔

تبدیلی  اپنے ادراک کے مکمل ہونے سے پہلے تک ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتی ہے۔  گو کہ اس جزیرہ پر کسی بھی قسم کی حیوانی و نباتاتی حیات کا گزر نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس کے لئے زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ خود اس کا دریافت شدہ۔ زندگی کے ہر احساس سے عاری، مگر مکمل اس کا۔  وہ دن بھر  اس جنت کے مختلف گوشوں کی سیر کرتا اور شام ڈھلتے ہی اس امید پر ساحل پر آ بیٹھتا کہ مبادا    کوئی بھولا بسرا مسافر کبھی اس جزیرہ پر آ نکلے   تو جزیرہ کو غیر آباد جان کر واپس نہ پلٹ جائے ۔  انجان چیزوں کو لے کر انسانی فطرت کا تجسس اپنی جگہ مگر وہ یہ جانتا تھا کہ  ویران جگہوں کا خوف انسان ایسے معاشرتی حیوانوں کی سرشت میں ازل سے موجود ہے۔

وقت کا احساس فکر کے ساتھ منسلک ہے اور جنت میں چونکہ تفکرات نہیں ہوتے لہذا وہ بھی اب سمے کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ سورج کے ڈھلنے اور اگنے سے دن کی تبدیلی کا احساس اپنی جگہ موجود تھا مگر جسے آپ وقت کہتے  اور سمجھتے ہیں، وہ اس کے حساب اور فکر سے مکمل آزاد تھا۔ خدا جانے اس جنت میں اس پر کتنے زمانے بیت چکے تھے جب پہلی مرتبہ اسے اپنی زندگی سے محروم جنت کا مکمل ادراک اور پہلی مرتبہ بھوک کا احساس ہوا تھا۔  جنت میں غذا کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ اس دن پورا وقت ساحل پر شکار کی تلاش میں گھومتا  اور کسی نہ آنے والے مسیحا کوچیخ چیخ کر پکارتا رہا  مگر وہ ساحل بھی اس  جزیرے سے اپنے تعلق کے طفیل زندگی کے لئے مکمل بانجھ ہو چکا  تھا۔ اور پھر اس جیسے کتنے ہی دن رات وہ  اس ساحل اور جزیرے پر ایک غیر حاضر غذا کی تلاش میں دیوانہ وار گھومتا رہا  اور مدد کے لئے پکارتا رہا ، یہاں تک کہ نڈھال ہو کر  گر نہ پڑا۔

انسانی خواہشات میں سب سے گراں  اور عظیم تر خواہش بقا کی ہوتی ہے۔ جب وہ جزیرے پر غذا کی موجودگی اور باہر سے آنے والی کسی بھی امداد  سے مکمل مایوس ہوگیا تو اس نے زمین پر پڑے پڑے ہی اپنے قریب سے ایک نوکیلا پتھر اٹھایا اور اپنے وجود کی تمام تر توانائی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پنڈلی میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اٹھنے والی ٹیسوں اور بہنے والے خون سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی بوٹی کو چبانے میں مصروف ہوگیا۔ گوشت پیٹ میں اترنے سے کچھ حواس بحال ہوئے تو اس  نے گیلی مٹی کا لیپ لگا کر زخم کو مندمل کیا اور بہت مدت کے بعد سکون کی نیند سوگیا۔

خدا جانے وہ کتنا عرصہ سوتا رہا اور نجانے کتنی ہی مدت مزید سوتا رہتا مگر واپس آجانے والی بھوک  نے اسے گڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔  زخمی ٹانگ کے ساتھ وہ دوبارہ (انسانوں سے چوٹ کھا کر بھی ایک مختلف نتیجے کی امید لے دوبارہ  ان ہی انسانوں کے پاس واپس جانے والے  کسی انسان کی طرح )کسی معجزے کی امید کے ساتھ دوبارہ   جزیرے کے سفر پر روانہ ہو گیا کہ شاید  اس کے آنکھیں بند کر لینے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ چکی ہو مگر انسانوں کے دلوں ہی کی طرح بنجر پتھروں کے اس جزیرے میں بھی اس کے لئے  ماسوائے  تھکن کچھ بھی نہ تھا۔

دوسری مرتبہ جب وہ گرا تو وہ ساحل پر موجود تھا۔  اس بار اس نے  کیفیت نیم مرگ کا انتظار نہ کیا اور کمزوری کے عالم میں ہی لیپ کے لئے گیلی مٹی کی  ڈھیری جمع کر کے دوسری پنڈلی کے لئے جیب میں موجود اس قیمتی نوکیلے پتھر کو نکال لیا۔

پنڈلی کے بعد ران اور ران کے بعد ایک ہاتھ کا بازو اور بازو کے بعد کان (کہ  اسے لگتا تھا کہ اتنے برسوں کے خاموش اور تھکا دینے والے تجربات  کے بعد اسے کان نہیں محض زبان کی ضرورت تھی) اور کان کے بعد اس  کا زندگی کی حسرتوں سے بھرا  دل! جی ہاں۔ اس کا دل!  وہ ایک ایک کر کے سب کاٹ کر کھا گیا۔ اور اس سے پہلے کہ آپ میری کہانی منقطع کر کے اپنا سوال داغیں، لطف کی بات یہ کہ وہ نا صرف اس دل کو  کھا چکنے کے بعد بھی زندہ رہا  بلکہ محاورے کی زبان میں کہا جائے تو سراپا دل بن گیا۔

جانتا ہوں کہ اب تک آپ اس کہانی کو ہذیان سمجھ کر آگے بڑھ جانا چاہتے  ہوں گے مگر یہاں تک پہنچ  ہی گئے ہیں تو یہ بھی سنیں کہ جب وہ یہ تمام اعضا کاٹ پیٹ کر کھا چکا اور ایک ادھڑی ہوئی زندہ لاش بن چکا ،تو ایک دن ساحل پر ایک اور انسان نمودار ہو گیا۔ آنے والے کے رنگ، نسل، عمر اور جنس سے قطع نظر، ایک انسان!

 اس انسان نے  سفر مکمل کر کے اپنے حواس جب بحال کئے اور اپنے پیروں میں لوٹتی اس کٹی پھٹی زندہ لاش کو دیکھا تو گھن اور خوف کی آمیزش بھری ایک چیخ ماری اور اس زندہ لاش کے ہاتھ  سے وہ نوکیلا پتھر چھین کر اس وقت تک برساتا رہا/رہی  جب تک اس کے جسم کی باقیات بھی ریزہ ریزہ نہ ہوگئیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ریزوں میں بٹنے کے باوجود بھی  موت اس پر مہربان نہ ہوئی اور اس انسان  کو ان ہی ریزوں میں اپنی رہی سہی عمر مکمل  کرنی پڑی۔ مگر کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پوری کہانی استعاروں کی ہے اور وہ جنت  دراصل انسانی جسم تھا اور  یہ کہانی اس میں مقید روح کی ہے کہ جو اپنی بھوک میں خود اپنے دل ، اپنے  آپ تک  کو چبا گئی۔  سنی سنائی باتوں کا کیا بھروسا؟

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت