انسانوں کی
زندگی کے بڑے آلائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کے
اظہار کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرتے
ہیں جن سے شناخت کے تعلق کا ڈر نہ ہو۔ اور
ایک نابینا نفسیات دان سے بہتر اگالدان
کون ہوسکتا ہے؟ جی ہاں! خلق خدا کے لئے
میں ایک نفسیات دان ہوں جو دیدہ بینا سے محروم ہے اور شاید اس ہی لئے لوگ میرے
سامنے اپنی زندگی کے ان تاریک گوشوں کو بھی بیان کر دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں
جن کا سامنا وہ تنہائی میں بھی کرنے سے خائف
ہوتے ہیں۔ اس میں میرے لئے بھی دو سہولیات موجود ہیں۔ جہاں ایک طرف اس زخموں کے کاروبار سے میرے تن کی خوراک کے اسباب
مہیا ہوا کرتے ہیں ، وہیں دوسری طرف ،میری زندگی کے تاریک کینوس پر ان کی تکالیف کے رنگوں سے بننے والی خوشنما تصاویر سے میری روح کی تسکین
کے سامان ہوا کرتے ہیں۔
اس وقت بھی میں اپنے کلینک پر موجود تھا اور حسبِ عادت آنے والے مریضوں کے مصائب سے لذت کشید
کرنے میں مصروف تھا کہ اپنی باری پر وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس نے آکر مجھے سلام کیا اور کرسی گھسیٹ کر
مریضوں کے لئے مخصوص نشست پر براجمان
ہوگیا۔ آواز اور سکنات سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ پچاس کے پیٹے میں موجود ایک بھاری
تن و توش کا مرد تھا۔ میں نے معمول کی گفتگو سے کلام کا
آغاز کرنا چاہا مگر اس کے لہجے کے اضطراب سے ظاہر تھا کہ وہ کمرے تک پہنچ
تو گیا ہے مگر رازِ دل کو عیاں کرنے میں
متامل ہے۔ ایسا نہیں کہ میں پہلی مرتبہ کسی ایسے مریض کے سامنے موجود ہوں کہ جو
اپنے ماضی کی برہنگی سے خائف ہو۔ مگر اس مریض کے لہجے میں کچھ ایسا تامل تھا جو
مجھے بتا رہا تھا کہ اس بار معاملہ معمول کا نہیں تھا اور اس بار مجھے مریض کو
کھولنے کے لئے اضافی محنت درکار ہوگی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ میں اس اضافی محنت سے
خائف تھا، میں تو بس اس بات سے خائف تھا کہ اگر اضافی محنت کے
بعد بھی میں اسے نہ کھول پایا تو کیا ہوگا؟ فیس کے نہ ملنے کا مجھے کوئی غم نہیں
تھا کہ مالی طور پر میں آسودہ زندگی گزار
رہا تھا۔ فکر یہ تھی کہ اگر میرا کینوس اس کے رنگوں سے محروم رہ گیا تو کیا
ہوگا؟ ایک مفلس مصور اس عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک نابینا
مفلس مصور تو بالکل بھی نہیں۔
انجام اور اس سے ملحقہ تکالیف کو ملحوظ خاطر
رکھتے ہوئے میں اپنے تمام تر تجربے کو
بروئے کار لے آیا اور آہستگی سے اس کی ذات
کی پرتیں اتارنی شروع کر دیں۔ میں انسانی نفسیات کے اس پہلو سے بخوبی واقف تھا
کہ ہم میں سے ہر ایک، بیک وقت کئی شخصیات
کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دوستوں کے بیچ رہنے والے انسان کو اس کے گھر والے دیکھ لیں تو
کبھی پہچان بھی نہ پائیں اور دفتر کے ساتھی اگر ہمارا گھریلو روپ دیکھ لیں تو ہم حال
احوال کے رسمی تعلق سے بھی جائیں۔ جگہوں اور رشتوں کے اعتبار سے ہم نے اپنی ذات پر
جو خول یا نقاب چڑھائے ہوتے ہیں اس کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے سو فسانے کو
سمیٹتے ہوئے میں واپس اپنے مریض کی سمت آتا ہوں کہ جو میری مہارت کے آگے سر تسلیم خم کئے اب آہستہ
آہستہ اپنے وجود اور اس کی شناخت سے منسلک پرتوں کو اتارنے کے سفر میں میرے ہمراہ
تھا۔ پرت در پرت انسانوں کو کھوجنے اور کھولنے کا
یہ عمل میں اتنی مرتبہ دہرا چکا
تھا کہ اب میں یہ کام غنودگی کے عالم میں بھی کمال مہارت
سے سر انجام دے سکتا تھا۔ مگر آج معاملہ
مختلف تھا۔ آج جہاں انجام کا خوف مجھے ہوشیار رہنے پر مجبور کرتا تھا وہیں اس
انسان کے اندر سے دریافت ہونے والی پرتوں نے بھی
میرے تمام ممکنہ طبق روشن کر دیئے تھے۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں کسی مریض
کے ساتھ موجود نہیں ہوں بلکہ اپنے ہی اندرون کا سفر کر رہا ہوں۔ ایک کے بعد ایک کھلنے والی ہر پرت مجھے میری ہی ذات
کے کسی روپ سے متعارف کروا رہی تھی۔ ٹھیک ہے کہ ترتیب کا تسلسل شاید کچھ مختلف رہا
ہوگا مگر اس ترتیب کے علاوہ اس وقت مریض
اور مسیحا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔ اور اگر رہا بھی ہو تو میں اسے
ابھی تک کھوج نہیں پایا تھا۔ گفتگو کا سلسلہ دراز تر ہوتا جا رہا تھا اور اب شخصیت
کی پرتیں دبیز اور ان کے گرد قائم حفاظتی فصیلیں مضبوط تر ہوتی جا رہی تھیں۔ گو
یہاں تک پہنچ کر میں بھی ہانپ چکا تھا مگر
اپنے آپ سے ملاقات کا اشتیاق مجھے تھکنے نہیں دے رہا تھا۔ ہر کھلنے والی پرت کے
بعد میں خود کو یقین دلاتا کہ اب اس کے بعد آنے والی پرت آخری ہوگی اور آج میں اس
مریض کے صدقے اپنے آپ سے مل پاؤں گا۔ مگر
ہر اترنے والی پرت کے بعد ایک اور پرت میری منتظر ہوتی جو پہلے سے دبیز تر ہوتی
اور اس کے گرد کی فصیل کے بارے میں آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں قرار واقعی تھک کر ہمت ہار دیتا، میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا معجزہ محسوس کیا۔ اس کی شخصیت کی ایک دبیز تہہ اتارنے کے بعد میں سانس لینے کے لئے تھما تو میں نے محسوس کیا کہ پرت کے ساتھ ساتھ وہ مریض بھی غائب ہوچکا ہے۔ جانتا ہوں کہ میں نابینا ہوں مگر میری باقی حسیات قائم ہیں اور میں پورے ہوش و حواس میں بیان کر رہا ہوں کہ اگر وہ چاہتا بھی کہ خاموشی سے اٹھ جائے تو بھی وہ سالخوردہ کرسی اسے اس خاموش رخصت کی عیاشی نہیں بہم کر سکتی تھی۔ پیاز کی تہوں کی طرح انسان کی پرتیں کھولتے ہوئے بھی خیال کرنا پڑتا ہے کہ اس تہہ در تہہ وجود کی آخری پرت کے نیچے بھی محض خلا ہی بچتا ہے، پیاز یا انسان کا وجود نہیں بچ پاتا۔ مگر خیال کرنے کے لئے اور کچھ نہیں تو انسانی ہمدردی کا ہی صحیح مگر ایک باہمی تعلق ضروری ہوتا ہے جبکہ انسانوں کی زندگی کے بڑے آلائم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کے اظہار کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جن سے شناخت تک کے تعلق کا ڈر نہ ہو۔ اور ایک نابینا نفسیات دان سے بہتر اگالدان کون ہوسکتا ہے؟ جی ہاں! خلق خدا کے لئے میں ایک نفسیات دان ہوں جو دیدہ بینا سے محروم ہے اور شاید اس ہی لئے لوگ میرے سامنے اپنی زندگی کے ان تاریک گوشوں کو بھی بیان کر دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں جن کا سامنا وہ تنہائی میں بھی کرنے سے خائف ہوتے ہیں۔ اور اگر میں ان کی زندگیوں کے ان تاریک گوشوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا تقابل ان سے کر بیٹھوں تو یہ الٹا مجھے مردود ٹھہراتے ہیں۔ ابلیس کہیں کے