جمعرات، 26 اگست، 2021

گھناؤنا

 کہتے ہیں جس کے اپنے چھوٹ جائیں اسے غیر مل جاتے ہیں۔    یہ اور بات ہے کہ بعض انسان اپنوں کے دئے گئے تجربات کے زہر سے اتنے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی لاش کو کاندھا دینے والے پرایوں کے احسان تو دور، وجود  تک کا ادراک نہیں ہوتا۔  ان کی زندگی اس راوس مچھلی کے مصداق ہوتی ہے جو اپنی اصل کی تلاش میں سرگرداں، کھلے سمندروں سے بیزار ،واپس اس ندی کو جانا چاہتی ہو کہ جہاں اس نے جنم لیا تھا۔  مچھلی چونکہ بالعموم کم فہم جانور ہے لہٰذا اپنی جائے پیدائش کو ہی اپنی اصل سمجھ کر مطمئن ہوجاتی ہے جبکہ انسانوں میں سے جو تھوڑے ذی شعور ہوجاتے ہیں وہ یہ جان رکھتے ہیں کہ ان   کی اصل ان کی جائے پیدائش سے کہیں پرے ہے۔  اور پھر ان کی تلاش کا سفر ہی ان کی واپسی کا سفر بن جاتا ہے۔

      یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی انسان کی ہے جو واپسی کے سفر میں تیز قدم چلتا ہوا اس وقت سمندر کے اوپر موجود نیٹی جیٹی کے برج پر کھڑا ہوا خودکشی کے لئے چھلانگ لگانے ہی والا تھا۔ اگر وہ بروقت چھلانگ لگا دیتا تو آپ اس کہانی کی جگہ اخبار میں اس کے متعلق خبر پڑھ رہے ہوتے مگر جو انسان تقدیر کے ہاتھوں تنگ ہوکر زندگی ختم کردینے کی نہج پر پہنچ چکا ہو اس پر موت کے معاملے میں بھی تقدیر کیونکر مہربان ہوسکتی ہے؟  ابھی وہ  چھلانگ لگانے کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ اس ہی برج  کی کگر پر لیٹے ہوئے ایک افیمی نے لپک کر اس کی ٹانگیں پکڑ لیں  ۔ اول تو اسے لگا کہ تقدیر بالآخر اس پر مہربان ہوگئی ہے اور دنیا میں اجنبی اور افیمی ہی سہی مگر کوئی انسان ایسا بھی ہے کہ جسے اسکی موت سے فرق پڑتا ہے۔ جو نہیں چاہتا کہ وہ مایوس ہو کر ہمت چھوڑ بیٹھے۔ جو چاہتا ہے کہ وہ  لڑے اور دنیا  سے ہار نہ مانے۔ اس کی خوش فہمیوں کا سلسلہ کسی اکیسویں صدی کے شاعر کی بے وزنی گزل کی طرح دراز ہوتا  ہی جا رہا تھا کہ افیمی کی  آواز اسے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی جو اس سے درخواست کر رہا تھا کہ اگر چھلانگ ہی لگانی ہے تو تھوڑا آگے پیچھے ہوکر لگا لے کیونکہ اگر اس نے اس کے برابر میں کھڑے ہو کر چھلانگ لگائی تو خدشہ ہے کہ چھپاکے سے پانی اوپر تک اچھل کر آئے گا اور بہت مشکل سے حاصل کردہ اس کے نشے کو برباد کر جائے گا۔ 

افیمی کی بات سن کر پہلے تو اس کا دل کیا کہ اپنی خودکشی سے پہلے اس خودغرض افیمی کو ہی اٹھا کر سمندر میں پھینک دے  مگر وہ فطرتا ایک انسان پرور آدمی تھا اور اپنے علاوہ کسی اور کی جان نہیں لے سکتا تھا۔ دوسرا خیال  جو فوری طور پر دماغ میں آیا وہ یہ تھا کہ برج سمندر سے اتنا بلند تھا کہ چھینٹوں کے اوپر تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اس خیال کے آتے ہی افیمی کے حال اور اس کے منفرد خدشات پر بے ساختہ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ افیمی جو آنکھوں کو میچ کر روشنی  سے لڑتے ہوئے اس کی جانب دیکھ رہا تھا ، اسے مسکراتا ہوا دیکھ کر اس  ہی کی ٹانگوں کا سہارا لے کر اس کے برابر میں کھڑا ہوگیا۔  اب صورتحال یہ تھی کہ برج کی کگر پر وہ دونوں کھڑے تھے اور دونوں نے  سہارے کے لئے ایک دوسرے کو تھام رکھا تھا۔ برج ویسے ہی خودکشی کے حوالے سے بدنام تھا تو  دو مردوں کو برج کی کگر پر کھڑا دیکھ کر آتی جاتی گاڑیاں اور موٹرسائکلیں بھی رکنا شروع ہوگئی تھیں۔  وہ ابھی معاملے کو سمجھنے کی کوشش  کر ہی رہا تھا کہ افیمی نے جھومتے ہوئے اسے یاد دلایا کہ  اگر وہ ایسے ہی  برج پر کھڑے رہے تو اقدام خودکشی کے مقدمے میں اندر ہوجائیں گے  ۔  پولیس کچہری سے زیادہ ایک افیمی کے ساتھ گرفتار ہونے اور اس سے جڑی افواہوں  اور ان افواہوں کے نتیجے میں ہونے والی اس  کے گھر والوں کی ممکنہ خفت  کے خیال سے وہ فورا افیمی کا ہاتھ تھام کر کگگر سے نیچے اتر آیا۔  خودکشی کے نتیجے میں جو کچھ  بدنامی ہوتی، اس کا معاملہ اور تھا کہ اسے دیکھنے اور سہنے کے لئے وہ خود موجود نہیں ہوتا مگر  گرفتاری کی صورت میں اس کا خودکشی کا منصوبہ ادھورا رہ جانا تھا اور وہ اپنی پہلے سے اذیت ناک زندگی میں مزید تلخیاں نہیں گھولنا چاہتا تھا۔

دونوں کو کگر سے نیچے اترتا  دیکھ کر راہگیر   ،بکتے جھکتے دوبارہ اپنی منزلوں کی جانب رواں ہونے لگے۔ افیمی  کہ جس کی آنکھیں اب کافی حد تک کھلنے لگی تھیں، نے بغور اس کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ وہ پینتیس برس کا ایک مضبوط قامت والا جوان تھا۔ جسم کسرتی نہ سہی مگر اضافی چربی کے بوجھ سے عاری تھا۔ چہرے پر بدسلیقی سے  ترشی ہوئی ہلکی داڑھی موجود تھی گویا وہ انسان خود ہی یا کسی نو آموز حجام سے داڑھی بنواتا  رہا ہو۔ اور ان سب عام سی پائی جانے والی تفصیلات  میں جو چیز اسے خاص بنا رہی تھی وہ اس کی قمیض کی آستینوں سے جھانکتی ہوئی اس کی مگرمچھ جیسی کھال تھی۔  افیمی نے اگر طب پڑھ رکھی ہوتی اور جان رکھتا کہ یہ سورائسز نامی بیماری کا شاخسانہ ہے جو محض چھونے سے نہیں پھیلتی، تب بھی شاید وہ اس ہی طرح گھبرا  اور گھن کھا کر پیچھے ہٹتا جیسے نیم نشے کی حالت میں اس  وقت وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا تھا۔

افیمی کے اس طرح پیچھے ہٹنے سے اسے یاد آگیا تھا کہ وہ یہا ں کیوں موجود تھا اور یہ بھی کہ اسے اب تک کیوں موجود نہیں ہونا چاہئے تھا۔  مگرکچھ بھی کرنے سے پیشتر،  برسہا برس کی عادت سے مجبور ہوکر بے ساختہ اس کے منہ سے یہ جملہ میکانکی انداز میں  نکل پڑا تھا کہ، گھبرائیے نہیں! یہ بیماری کسی کو چھونے یا اس کے قریب کھڑے ہونے سے نہیں پھیلتی۔  اور اس سے پہلے کہ وہ واپس کگر پر چڑھنے کے لئے قدم بڑھاتا ، افیمی نے    معذرت خواہانہ انداز میں  اس کے قریب آکر اس سے چھلانگ لگانے کا سبب دریافت کر لیا۔   شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے کسی کو اپنی بیماری کے متعدی  نہ ہونے  کی بات  پر یقین کرتے دیکھا تھا   یا شاید   بہت مدت بعد اس میں یہ امید جاگی تھی کہ کوئی اسے سمجھنے کے لئے سنے گا ، وجہ بہرحال جو بھی رہی ہو، اس نے چاہا کہ وہ اس انجان افیمی سے اپنے دل کا احوال کہے سو اس نے   بلا کم و کاست اسے بتا دیا کہ زندگی  اور رشتوں سے ملنے والی تکالیف سے زچ ہوکر وہ اپنی زندگی کی  ریل کو یہیں روک دینا چاہتا ہے۔ جذبات کی رو میں اپنی داستان الم سناتے ہوئے اسے یہ دھیان بھی نہیں تھا کہ سوال کرنے کے بعد افیمی کا دھیان  اس پر سے ہٹ کر اپنے پھٹے ہوئے کرتے کی جیب پر چلا گیا ہے اور  وہ اس میں چیزیں نکال کر افیم کی پڑیا تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ جب وہ اپنی داستان سنا نے کے بعد دم لینے کے لئے رکا تو افیمی نے اسے دوبارہ مصروف کرنے کے  لئے ایک اور سوال داغ دیا کہ اتنی کم عمر میں اگر وہ دنیا سے جا  ہی رہا ہے تو کیا اس نے اپنی زندگی کی ساری حسرتیں پوری کر لیں؟ یا کم از کم وہ حسرتیں  کہ  جن کو پورا کرنا دسترس میں ہے ؟  افیمی کا سوال اس کے لئے غیر متوقع تھا  اور اس نوعیت کا سوال اگر متوقع ہو بھی تو اچھا خاصہ حاضر دماغ انسان بھی  جواب دینے سے پہلے چند  لمحات سوچتا ہے۔ اس نے بھی اپنے دل اور دماغ کے کونوں کو کھنگالا اور سچائی کے ساتھ بول دیا کہ ایسا نہیں تھا۔ زندگی میں چند ایسی حسرتیں بہرحال باقی تھیں کہ جن کی تکمیل کے لئے مزید کوشش کی جاسکتی تھی۔ افیمی کہ جو اتنی دیر میں سامان میں سے اپنی افیم کی پڑیا  کھوج چکا تھا ، یہ کہہ کر آگے بڑھا گیا کہ تو پھر مرنے کی اتنی جلدی کیا ہے؟ ایک مہینے تک اور کوشش کر لو۔ ہو سکتا ہے کم حسرتیں لے کر مرو؟  خودکشی کا کیا ہے؟ وہ تو تمہارے اپنے اختیار  میں ہے۔ آج نہیں تو تیس دن بعد کر لینا؟ تیس دن بعد کر لینے سے کون سا تمہیں زیادہ گناہ مل جائے گا؟

افیمی تو کہانی میں اپنا کردار مکمل کرکے  ویسے ہی آگے بڑھ گیا کہ جیسے ہماری زندگی کی کہانیوں میں بہت سے لوگ آتے ہیں کہ جن کے بارے میں سب کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ ہماری زندگی کے سب سے اہم کردار ثابت ہوں گے اور ان کی آمد سے لے کر ہماری زندگی  کے ناٹک کے اختتام تک ان کا کردار اس واہیات ناٹک میں مرکزی  حیثیت کا حامل رہے گا اور پھر وقت ثابت کرتا ہے کہ ان  کا کردار محض ایک افیمی کا تھا کہ جو اپنے نشے کی تلاش کے دورانیے تک ہماری زندگیوں میں شامل رہتا ہے اور نشہ میسر آتے ہی واپس کگر پر لیٹنے چلا جاتا ہےتاکہ کسی اور کے پیروں سے لپٹ سکے۔  مگر یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں اور  فلسفہ محض مولانا روم یا  انگریزی زبان میں لکھنے والے ادیبوں پر سجتا ہے سو ہم اس سستے فلسفے کو یہیں چھوڑ کر واپس اپنی کہانی کی طرف لوٹ جاتے ہیں کہ جہاں ایک انسان اپنی خودکشی کو تیس دن  کے لئے موقوف کر کے زندگی سے جڑی اپنی حسرتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔

طویل کہانیوں کے بارے میں میرا آج بھی یہی ماننا ہے کہ انہیں وہ غریب لکھتے ہیں کہ جو کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر نہیں جانتے سو مزید غیر ضروری تفصیلات کو  حذف کرتے ہوئے کہانی کے مرکزی خیال پر واپس آتے ہیں کہ اگر انسان کے پاس یہ اختیار موجود ہو کہ بیماری،  خوف اور بھوک سے نیاز ہو کر اگر وہ اپنی زندگی کی گھڑی کا وقت خود معین کر سکے تو کون سے ایسے کام ہوں گے جنہیں وہ کرنا چاہے گا؟ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر وہ کام واقعی اتنے اہم تھے تو اس سوال سے پہلے ہم انسانوں نے انہیں مکمل کیوں نہیں کیا تھا؟  چونکہ ان سوالات کے جواب  آپ کے پاس بھی نہیں ہیں اور میرے دئے گئے جوابات کتنے ہی سچے اور دل کو لگتے ہی کیوں نہ ہوں، مفت میں ملی ہوئی نصیحت کی انسانوں نے کبھی قدر نہیں کی لہٰذا ان واہیات اور کیپٹلزم سے نفرت دلاتے ان سوالات کو یہیں چھوڑ کر ہم واپس کہانی کی طرف جاتے ہیں کہ جہاں ایک انسان کی  زندگی کی پانچ بڑی حسرتوں میں سب سے بڑی حسرت یہ تھی کہ اس کی کھال پر آئے ہوئے ان چھلکوں کی وجہ سے شروع میں اپنی دوستوں کے سامنے  اور بعد میں گھر کے اندر بھی اس سے گھن کھانے والی اس کی اپنی دس سالہ  سگی بیٹی ، ایک مرتبہ، محض ایک مرتبہ، گھن کھائے بغیر اس کے گلے لگ سکے! 

جانتا ہوں کہ لٹریچر کسی بھی زبان کا ہو اس میں لیکھک کا قلم خون میں جتنا گہرا ڈوبے گا، لکھاری کا لقمہ اتنا ہی تر کرتا جائے گا مگر  رشتوں میں بے بس ایک باپ کی  لاش نوچ کر کھانے سے بہتر  ہے کہ میں کہانی کو مختصر کرتے ہوئے آپ کی تسلی کے لئے محض اتنا بتا دوں کہ جب اٹھائسویں دن بالآخر قسمت اس پر مہربان ہوگئی  اور دو دن بعد آنے والی حرام موت سے  اسے بچاتے ہوئے شدت غم سے جب اس کے دماغ کی شریان پھاڑ کر اسے دنیا سے خود ہی اٹھا لیا گیا۔ اور ہاں، جب جنازہ اٹھانے سے پہلے اس کی ننھی شہزادی کو بتایا گیا کہ بابا اب کبھی واپس نہیں آئیں گے تو وہ    دوڑتی ہوئی جا کر خوشی سے باپ کی لاش سے لپٹ گئی۔   جانتا ہوں کہ سورائسز موروثی بیماری ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہے مگر یہ کہانی پھر سہی۔ فی الحال وہ ننھی شہزادی خوش ہے اور بیٹیاں خوش ہی اچھی لگتی ہیں۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت