ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کسی جنگل میں نئے سال کا جشن بپا تھا اور اس ہی سلسلے میں تمام چرند اور پرند مرکزی اجتماع گاہ میں موجود تھے۔ شیر اور بکری کو محاورے کی زبان میں ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے دعوت سے پہلے ہی شیروں اور عقابوں کے میڈیا مینجرز نے ان کے کچھاروں اور گھونسلوں میں ہی میمنے اور خرگوشوں کی پیٹ بھر رسد فراہم کر دی تھی تاکہ شیر اور بکری کے سال میں ایک بار ساتھ پانی پینے کی تصاویر اگلے چناؤ میں استعمال کرکے بکریوں اور خرگوشوں کو اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ جنگل کی حکمرانی کے اصل حقدار رحمدل ، پرخلوص اور رعایا پرور عقاب اور شیر ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور اس سکون کی نیند سو سکتے ہیں کہ پڑوسی جنگل سے آنے والے تمام درندوں سے حفاظت کے لئے ان کے یہ محافظ جاگ رہے ہیں۔
نئے سال کے اس
جشن میں بھی حسب مراتب کا خاص خیال رکھا گیا تھا اور شیر اور عقاب اجتماع گاہ کے
عین مرکز میں نشست جما کر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ دو موراپنے پنکھ پھیلائے چرندوں اور
پرندوں کے ان بادشاہوں کو ہوا جھلنے میں مصروف تھے۔ بادشاہوں کے گرد، مرکزی پنڈال
میں صرف درندوں کے لئے جگہ مخصوص تھی جبکہ
ان دردندوں کے بعد گوشت خور جاندار،
سینگ دار اور جسامت دار جاندار، اور ان سب کے بعد آخر میں سبزی خور بیچاروں کے لیے
جگہ رکھی گئی تھی ۔
آج کا جشن
گزشتہ تمام برسوں کے جشن سے تھوڑا مختلف تھا کہ اس برس عین جشن کے بیچ بھی جنگل کے
بہت سے جانور، چچا الو، اور ان کے پٹھوں کے بہکاوے میں آکر جانورورں کے
حقوق اور درندوں کے ہاتھوں ان کے ہونے والے استحصال جیسی نفرت انگیز باتوں میں
مشغول تھے۔ جشن کے لوازمات تمام موجود
تھے مگر اب تک جشن کا ماحول تیار نہیں
ہوسکا تھا۔ فضا میں ہر طرف چہ مگوئیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اور ان ہی چہ مگوئیوں کے
درمیان فضا میں اچانک ہی ایک مکروہ خاموشی
پھیل گئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مردار خور گدھ اور فضلہ خور سور خراماں خراماں
چلتے چلے آرہے ہیں۔ وہ دونوں جہاں سے گزرتے ، چرند پرند کچھ گھبرا کر اور کچھ گھن
کھا کر ان سے بچنے کے لئے ادھر ادھر
ہوجاتے اور یوں ان کے چلے آنے کے لئے راستہ آپ ہی آپ بنتا چلا جا رہا تھا۔ سبزی خور بیچاروں کو عبور کرکے جب یہ دونوں
جسامت دار اور سینگ دار جانداروں کے درمیان پہنچے تو یہاں سے چہ مگوئیوں کا ایک
نیا دور شروع ہوا اور جب تک یہ دونوں درندوں کے درمیاں پہنچے تو چہ مگوئیوں کا شور
اس درخت کے تنے کی تھاپ سے فزوں تر ہوچکا تھا جسے بندر جڑی بوٹیوں کے نشے میں
مسلسل پیٹے چلے جا رہے تھے۔ادھر جانور ان دونوں سے نمٹنے کے طریقے پر باہمی مباحثے
میں مصروف تھے اور ادھر گدھ اور سور تمام
جانوروں کی گھن اور نفرت سے بے نیاز ہو کر
بندر کی بجائی گئی تھاپ پر رقص کناں تھے۔
لومڑ کی رائے
میں جشن اور چناؤ سے قطع نظرگدھ اور سور کو عین پنڈال میں ہی عبرت کا نشان بنا
دینا چاہئے مگر گدھ سے منسوب وحشت کے کارن کوئی اس پر حملہ کرنے کو تیار نہیں تھا
اور چیتے اور اس کے قبیل کے دیگر درندے
اپنے نئے ملبوسات کو بچانے کے لئے فضلے میں لت پت اس سور پر حملہ کرنے سے گریزاں
تھے۔ نووارد بھی ان درندوں کی گفتگو سن
چکے تھے لہٰذا اپنے رقص کو موقوف کر کے وہ بھی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔
جشن کو یوں تھمتا دیکھ کر عقاب نے اپنا گلا کھکارا اور گدھ کو مخاطب کرکے گویا
ہوا،مجھے شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ تمہارا جیسا رذیل پرندہ خدا نے ہم پرندوں کے
بیچ میں پیدا کیا۔ تمہارا وجود کراہت کا ایک استعارہ ہے۔ اس ہی وجہ سے تمہیں تمام
پرندوں سے دور رکھا جاتا ہے اور اگر تمہیں اپنے ان پروں کی ذرا بھی لاج ہے تو
پرندوں کی برادری کی مزید رسوائی کئے بغیر فی الفور یہاں سے رخصت ہوجاؤ۔ ہم بھول
جائیں گے کہ تم سے ایسی کوئی گستاخی ہوئی بھی تھی۔ آج جشن کا دن ہے ۔ اس خوشی میں
ہم تمام لوگ تمہاری اس غلطی کو معاف کردیں گے۔ کیوں ساتھیو؟ کردو گے نا معاف؟ عقاب
کی اس جذباتی تقریر پر تمام پرندوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ بے شک! بے شک! ہمارے دل
آسمانوں کی طرح وسیع ہیں۔ ہم معاف کر دیں گے۔
عقاب کو اس
طرح محفل لوٹتا دیکھ کر شیر کو بھی جوش آگیا۔ وہ بولا، ہم چرند بھی کسی طرح پرندوں سے کم نہیں ہیں۔
ہماری سوچ بھی صندل کے درختوں کی طرح ہے ۔ خوشبودار اور بلند! اگر جنگلی سور اپنا
بدبودار وجود لے کر فی الفور چلا جائے تو ہم بھی کسی قسم کی کوئی تاذیبی کاروائی
نہیں کریں گے اور بالکل بھول جائیں گے کہ کس طرح ہمارے پاکیزہ جشن کو اس نے اپنے
ناپاک وجود سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں ساتھیو؟ کردو گے نا معاف؟ پرندوں
کی دیکھا دیکھی چرند بھی بادشاہ کی آواز
میں آواز ملا کر بولے، بے شک! بے شک!
ہماری سوچ صندل کی طرح بلند ہے ۔ ہم معاف کر دیں گے۔
گدھ اور سور
نے اپنے اردگرد کے ماحول پر ایک متاسفانہ نگاہ کی اور پھر نظریں جھکا کر جس
راہ سے آئے تھے وہیں واپس پلٹ گئے۔ ان کو پلٹتا دیکھ کر تمام جانداروں نے شیر اور عقاب
کے لئے ایک نعرہ تحسین بلند کیا اور اس وقت تک تالیاں پیٹتے رہے کہ جب تک گدھ اور
سور مجمعے میں سے نکل کر نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے۔ شیر اور عقاب نے ایک
دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھا اور ایک
دوسرے کو جام تجویز کرنے لگے ۔ وہ دونوں
جانتے تھے کہ ان کے میڈیا مینجرز اپنی ذمہ داریاں بہت خوش اسلوبی سے نبھا
رہے تھے اور ان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں تھا۔
شیر اور عقاب
کے پیچھے موجود بزرگ مور اپنے جوان بیٹے کو سمجھا رہا تھا کہ زندگی کبھی مضبوط
چونچ اور طاقتور پروں کے ساتھ توانا پنجے
عنایت کردے تو گدھ بن کر نیم مردہ جانوروں کی مشکلات آسان کرنے جیسی احمقانہ سوچ رکھنے سے بہتر ہے کہ عقاب بن
کر کسی جانور کے ہنسے کھیلتے نورِ نظر کو بھنبھوڑ دینا۔ شاعر تمہیں غیرت کا
استعارہ ٹھہرائیں گے اور خود کو تمام مخلوقات میں افضل ترین سمجھنے والا انسان تک
تمہاری مثال اپنے بچوں کو دے گا۔ سور بن کر جنگل کا گند کھانے سے پہلے یہ سوچ
رکھنا کہ دنیا کی تمام مخلوقات گند صاف کرنے والے کو ہی گندگی کا استعارہ بنا
بیٹھتی ہیں۔ جنگل میں گندگی سے زیادہ اسے صاف کرنے والے سے گھن کھائی جاتی ہے۔
ٹھیک سے پنکھ چلا! ان بادشاہوں کا سایہ ہمارے سر رہا تو بس سانپوں کا ڈر ہے، باقی ہمارا مستقبل محفوظ
ہے۔ سمجھا؟
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں