کسی بھی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ پھر وہ مقام سے بڑھانا ہو یا اس کی اصل جگہ سے گھٹا دینا ،دونوں صورتوں میں ظلم کی اصل تعریف میرے نزدیک یہی ہے۔ مظلوم کی تعریف البتہ ہنوز بحث طلب ہے کہ ایک کا ظالم ہی اکثر دوسرے کا مظلوم نکلتا ہے اور یہاں بحث چھ اور نو والی مثال سے آگے بڑھ جاتی ہے کہ لازمی نہیں ہر بار فرق محض نقطہ نظر کا ہو اور ایک کا چھ ہی دراصل دوسرے کا نو ہو۔ کبھی کبھار وہ واقعی چھ یا نو میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے اور دو میں سے ایک فریق غلط نکتہ نگاہ سے دیکھ کر زبردستی اسے الٹ ثابت کرنے کی کوشش میں جٹا رہتا ہے۔ اس کہانی میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ یہ فیصلہ ہم اپنے پڑھنے والوں کے ذہن رسا پر چھوڑ رکھتے ہیں۔
بے حس انسانوں کے
معاشرے میں احساس نامی بیماری کا پیدائشی روگ پال رکھنے کے علاوہ وہ ایک معمولی
بچہ تھا۔ مگر احساس نامی اس بیماری کی وجہ سے معاشرے نے اسے اس کے بچپن سے ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنے ہم عمر بچوں کے بیچ اس کا گزارہ یوں ناممکن تھا کہ ان کی بچکانہ
حرکات سے اسے وحشت ہوتی تھی اور اپنے سے بڑی عمر کے لوگ یہ کہہ کر اسے پاس بٹھانے سے انکار کر دیتے کہ ابھی اس کی عمر ان کے درمیان بیٹھنے کی نہیں تھی۔ داڑھی مونچھ ابھی اگی نہیں تھی کہ
اسے رنگ کر بزرگی کا چولا پہنا جا سکتا سو مجبوری میں بچوں کے بیچ میں بچہ بن کر رہنے کی کوشش کرنے کے علاوہ غریب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
لیجئے صاحب! ابھی ہم آپ کو نصیحت کرتے تھے کہ مظلوم ہونا بالعموم نقطہ نگاہ کا کھیل ہے اور ابھی ہم نے اس کے کردار کے ساتھ غریب کا
لفظ جوڑ کر آپ کے تحت الشعور میں اس کی مظلومیت کا بیج بو بیٹھے ہیں۔ خیر! چونکہ
ہم اس کردار کے خالق ہیں لہٰذا ہر خالق کی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہونا
چاہئے اپنے کرداروں کے بارے میں جیسے چاہے لوگوں کی رائے
قائم کرائیں اور بحیثیت مخلوق ہر تخلیق پر یہ لازم ہے کہ وہ راضی خوشی یا رو پیت
کر مگر بہر حال اس کردار کو نبھاتی چلی جائے۔ اور اگر آپ اس بات پر غصہ ہیں کہ محض
ایک کردار کی تخلیق کے لئے اتنے لمبے فلسفے کیوں بگھارے جا رہے ہیں تو یہ بھی ہم
نے ایک خالق سے ہی سیکھا ہے کہ جس نے ایک کردار کو ناٹک میں دیکھنے کے لئے ارب ہا
دیگر مخلوقات تراش دیں اور آج تک کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اختیارات کے اس بے جا
استعمال پر انگلی اٹھا سکے۔ ہم ایک تیسرے درجے کے معمولی تخلیق کار ہیں تو ہمارا
گلا پکڑا جاتا ہے؟حد ہے مظلومیت کی! مگر مظلومیت تو پھر نکتہ نگاہ وغیرہ وغیرہ
وغیرہ۔
تو اپنے ہم سن بچوں کے بیچ جب یہ کمسن بوڑھا پہنچا تو ایک
عجیب ماجرہ ہوا۔ اپنے حالات سے مطابقت
اختیار کرنے میں انسان سے بہتر آج تک کوئی مخلوق روئے زمین پر نہیں اتری ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں سینکڑوں فٹ کے ڈائناسورز نہ بچے وہاں یہ پانچ سے چھ فٹ کی
عمومی جسامت والا جانور آج بھی دھرتی کو روندتا پھرتا ہے۔ تو اس کے ہم عمر بچوں نے اس کے ساتھ مطابقت یہ
اختیار کی کہ جیسے ہی یہ ان کے درمیان پہنچتا، وہ سارے اپنے وجود کا پورا زور لگا
کر اپنی قامت کو چھوٹا کرلیتے اور یہ ان کے بیچ، ان ہی کی قامت کا ہوتے ہوئے بھی دیو جیسا معلوم ہونے لگتا۔ اور منفرد چیزوں کا اشتیاق عین انسانی فطرت
ہونے کے ناطے، کمرے میں موجود اختیاری بونوں کا موضوع سخن وہ خود ساختہ دیو بن
جاتا جو اس سب معمول سے خائف تو بہت تھا مگر اوپر بیان کردہ مجبوری کے تحت ان ہی
کے درمیان رہنے پر مجبور بھی تھا۔ اپنی
جبلت سے مجبور ہوکر وہ رفیقوں کی تلاش میں ان بچوں کے بیچ آ بھی نکلتا تو بھی اس کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح کوئی کونا ڈھونڈ کر
وہاں چھپ رہے کہ اس کی دیگر مخلوقات سے تعلق کی ہوس بھی پوری ہوسکے اور اس کی قامت
میں ہونے والے پریشان کن اضافے کے اسباب بھی نہ بہم ہوں۔ مگر انسانوں اور بالخصوص
اختیاری بونوں کے بیچ میں ایک دیو کیونکر چھپ سکتا ہے؟ اس کے آنے کے تھوڑی ہی دیر میں ایک نعرہ بلند
ہوتا اور سب بونے مل کر اس کے گرد جمع
ہوجاتے اور معمول کی کاروائی کا آغاز ہوجاتا کہ جس کے اختتام پر ہر بار کی طرح اس
کی انا کے غبارے میں بے فیض ہوا بھر کر اس کا قد دو ہاتھ مزید اونچا کر دیا جاتا۔
دیو اب اس روزانہ کی مشقت سے تنگ آچکا تھا مگر تعلق کی ہوس
اس قدر شدید تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس اذیت سے دستبردار نہیں ہوسکتا تھا۔ کافی غور و خوض کے بعد اس دیو نے اپنے تئیں ایک
عقلمندانہ فیصلہ کیا اور ان بونوں میں سے چند قابل برداشت بونوں کا انتخاب کیا اور
انہیں اپنی مٹھی میں بھر کر وہاں سے اٹھا لایا کہ اب وہ کسی پرسکون جگہ پر ان کے
ساتھ رہ کر اپنے قد کو واپس انسانی سطح پر
لانا اور ساتھ ان بونوں کی دوبارہ نمود کو
یقینی بنانا چاہتا تھا کہ ایک ایسا دن بھی دیکھ سکے کہ جب وہ گھٹ کر اور یہ بونے
نمو پاکر ایک دوسرے کے برابر ہوسکیں اوروہ زندگی میں پہلی مرتبہ برابری کی بنیاد
پر تعلق قائم کر سکے۔ تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس دیو نے ان بونوں کو اپنی
مٹھی میں بند کیا اور لے کر نئے ٹھکانے کی تلاش میں چل پڑا۔ احساس نامی بیماری کے تحت (کہ جس کا
ذکر آپ داستان کے آغاز میں سن چکے ہیں)، اس
دیو نے اس بات کا خاص خیال
رکھا کہ
وہ بونے اس انتقال کے دوران زمانے کے سرد و گرم سے سے محفوظ رہیں۔ زمانے کی ہوا نے بہت کوشش کی کہ
کسی طرح وہ اس کی مضبوط مٹھی میں نقب لگا سکے مگر اس دیو نے زمانے کی ہر کوشش کو
ناکام بنا دیا اور کامل جذبے، خلوص اور عزم مصمم کے ساتھ نئی منزل کی کھوج میں لگا
رہا۔
سوکھی زمین کو بھی اگر خلوص کا پانی مل جائے تو اس پر موجود
پودے اپنی بساط کے حساب سے پھول، پھل یا کانٹے، غرض جو بھی کچھ انہیں میسر ہو ، اپنے ساقی کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ زمانے
نے بھی اس کے خلوص کے آگے ہار مان لی اور اپنے دامن میں موجود سب سے پرسکون
جگہ کا رمز اس پر وا کر دیا۔ منزل پر پہنچ کر اس دیو نے
اطمینان کی سانس لی اور بصد احتیاط مٹھی کھول کر ان بونوں کو اپنی بنائی ہوئی اس
جنت میں اتار دیا۔ اس کے سامنے اس وقت ایک حسین وادی، ایک پہاڑ، اس پہاڑ سے بہتا
ایک آبشار، اس آبشار کے دامن میں موجود ایک جھیل، اور اس جھیل کے کنارے چند
بونوں کی لاشیں پڑی تھیں کہ جو خدا جانے کب اس کی مٹھی میں سانس نہ پانے کی وجہ سے
دم توڑ گئے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں