اب تو باز آجائو
یاسیت نہ پھیلائو
زیست خوبصورت ہے
صبح کتنی روشن ہے
چاند کتنا اچھا ہے
رات کتنی پیاری ہے
تم جو مجھ سے کہتی ہو
!!کتنا جھوٹ کہتی ہو
کیسے نہ لکھوں جاناں
وقت کے مصائب سب
جبر کے مراحل سب
امن، جنگ کے قصے
ذات، رنگ کے قصے
کیسے لوگ بٹتے ہیں
کیسے دین بکتے ہیں
کیسے مرد گرتے ہیں
کیسے جسم بکتے ہیں
کیسے روح سسکتی ہے
کیسے جاں نکلتی ہے
کیسے بھوک پلتی ہے
کیسے نہ لکھوں یہ میں؟؟؟
چپ رہوں تو کیونکر میں؟؟؟
تم جو مجھ سے کہتی ہو
آج کے زمانے میں
شعر میں، فسانے میں
کوئی سچ نہیں سنتا
کوئی سچ نہیں لکھتا
سب ہی جھوٹ بکتے ہیں
سب ہی جھوٹ لکھتے ہیں
تم بھی جھوٹ لکھ ڈالو
تم جو مجھ سے کہتی ہو
جھیل جیسی آنکھیں وہ
مرمریں سا آہنگ وہ
شبنمی سا آنچل وہ
زلف جیسے بادل وہ
گال مثلِ خوباں سے
چال ۔۔ بھاڑ میں جائے
مجھ سے یہ نہیں ہوگا
باخدا نہیں ہوگا!!!
روز جس کے آنگن میں
بھوک گشت کرتی ہے
روز جس کی گلیوں میں
موت رقص کرتی ہے
جس کے شہر میں ہر سو
بےحسی جھلکتی ہے
خون کیوں نہ تھوکے وہ؟
بال کیوں نہ نوچے وہ؟
چیخ کیوں نہ مارے وہ؟
ضبط وہ کرے کیونکر؟
جھوٹ وہ لکھے کیونکر؟
-سید عاطف علی
2013-اپریل-26
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں