(اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی کردار سے مماثلت محض اتفاقیہ یا آپ کی نیت کا فتور ہوسکتی ہے)۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گائوں میں انسان جانوروں اور جانور انسانوں کی ذبان سمجھ لیتے تھے۔ چھوٹا سا گائوں تھا اور سادہ سے لوگ۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہونے والے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے والے۔ امیر اور غریب کے مابین کوئی خاص فرق نہیں ہوتا تھا اور امراء کی بھی کوشش ہوتی تھی کے بےجا ریاکاری سے پرہیز کیا جائے کہ اس سے ان کے غریب بھائیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ سب کی زندگی بہت سکون سے گذر رہی تھی کہ ایک دن گائوں کے چوہدری صاحب نے ایک انگریزی بولنے والا کتا پال لیا۔ گائوں والوں نے پوچھا کہ بھلا اس کی کیا ضرورت؟ تس پہ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ہر گائوں میں اس ہی طرح ایک کتا پالا جاتا ہے جس کا کام ادھر ادھر کی تمام خبریں اکٹھا کرنا اور پھر سب کو بتانا ہوتا ہے۔ گائوں والے بہت خوش ہوئے اور اس کتے کو اپنا لیا۔ اب کتا گائوں میں رہنے لگا اور دن بھر کی خبریں بھی سنانے لگا، مگر المیہ یہ تھا کہ یہ کتا خبریں انگریزی میں سناتا تھا اور گائوں میں صرف دو افراد کو انگریزی آتی تھی۔ گائوں والوں کے اندر پروان چڑھتے اس احساس محرومی کو دیکھ کر بھائی جلیل نے چوہدری صاحب سے اجازت طلب کی اور ایک اردو بولنے والا کتا بھی لے آئے۔ یہ نیا آنے والا کتا بے حد مرنجاں مرنج اور ملنسار واقع ہوا تھا۔ بغیر لگی لپٹی رکھے سچ سچ ہر بات گائوں والوں کو آکر بتا دیتا تھا۔ گائوں والے بھی اس کتے سے بہت خوش تھے کہ اب انہیں ارد گرد کی تمام اہم خبریں گھر بیٹھے مل جایا کرتی تھیں۔ کچھ عرصے میں چوہدری صاحب کا انتقال ہوگیا سو اب انکے انگریزی کتے کی کوئی خاص وقعت نہیں رہ گئی۔ چوہدری صاحب کا نام جڑا ہونے کی وجہ سے آج بھی لوگ دو چار ہڈیاں تو ڈال دیتے تھے مگر بھائی جلیل کے کتے کے آگے اب اس انگریزی کتے کی، کتے والی اوقات رہ گئی تھی۔ ادھر بھائی جلیل کے کتے نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ پر پرزے نکالنا شروع کردیے۔ اس کتے کو معلوم ہوگیا تھا کہ گائوں والے اب آپس کی بات سے زیادہ اس کی دی ہوئی خبر پر اعتبار کرتے ہیں۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ اس کی خبر مثبت پہلو سے سامنے لائی جائے لہٰذا بھائی جلیل نے اب اس خدمت کو کاروبار بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کتا پالنا ایک محنت طلب کام ہے اور اس میں اخراجات بہت زیادہ ہیں اور وہ یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتے۔ سو جن لوگوں کو اپنی خبریں دوسروں تک پہنچانی ہیں وہ اس کتے کے اخراجات میں بھی حصہ ڈالیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر شدید اعتراض ہوا۔ انہوں نے بھائی جلیل کو کہا کہ کسی نے ان سے ہاتھ جوڑ کر درخواست نہیں کی تھی کہ اس کتے کو پالیں اور اگر وہ اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اسے چوہدری کے حوالے کردیں جو بغیر کسی سے پیسے مانگے مفت میں یہ خبریں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی جب بھی یہ کتا کسی کو خبر سنانے پہنچتا تو ہڈی لیئے بغیر تو منہ کھولتا بھی نہیں ہے؟ تو مزید کس بات کا خرچہ؟ بھائی جلیل نے یہ باتیں ٹھنڈے دماغ سے سنیں اور اگلے دن ہی بھائی جلیل کے کتے نے ان کتوں کی اصلیت پورے گائوں پر کھول دی کہ وہ لوگ کس طرح پڑوسی گائوں والوں سے پیسے لے کر اس گائوں میں تفرقہ پھیلا رہے ہیں۔ ان سب غداروں کو اس ہی وقت گائوں سے نکال دیا گیا اور بھائی جلیل اور ان کے کتے کی اس عظیم ملی خدمت پر انہیں گائوں کا ایک بزرگ اور اہم ترین ستون مان لیا گیا۔ بھائی جلیل اور ان کے کتے کی یہ عزت بہت سارے لوگوں کو برداشت نہیں ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے کتے پالنے کی کوشش بھی کی مگر بھائی جلیل کے کتے کے آگے کسی کی ایک نہ چلی۔ کچھ بھوکے مر گئے اور باقی کو گائوں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
بھائی جلیل نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیز سیکھ لی تھی کہ چوہدری کوئی بھی ہو مگر گائوں کا اصل مالک مکھیا ہی ہے۔ انہوں نے شروع دن سے ہی مکھیا سے بنا کر رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ زندگی بہت خوبصورت تھی اور اب تو ان کے کتے نے بچے بھی دے دیئے تھے۔ ان کتے کے بچوں کے آنے سے بھائی جلیل مزید خوشحال ہوگئے تھے۔ اب ان کتے کے بچوں کی مختلف ڈیوٹیاں لگا دی گئی تھیں۔ کوئی صبح کی خبریں سناتا تھا تو کوئی شام کی ۔۔۔ کسی کا نام ہفت روزہ رکھ کر اسے ہفتے بھر کا منجن ایک ساتھ بیچنے پر لگادیا گیا تو کسی کو ماہنامہ کہہ کر مہینے بھر کی ساری تکالیف کو دوبارہ یاد دلانے پر لگا دیا۔
بھرپور زندگی گذارنے کے بعد بھائی جلیل کا ایک دن انتقال ہوگیا۔ کتا مگر دن بدن جوان اور طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ بھائی جلیل کے بیٹے بھائی کفیل کیلئے کام کر رہا تھا۔ بیٹے باپ کی طرح موسم شناس نہ تھے مگر موقع پرست ضرور تھے۔ کتوں کا کاروبار دن بدن ترقی پذیر تھا جبکہ اس دوران گائوں کے چوہدری سے ہونے والی شدید لڑائی میں ایک آدھ بار کتے کے گائوں میں داخلے پر پابندی بھی لگی مگر کتا ہر مشکل سے مزید طاقتور ہوکر نکلتا گیا۔ چوہدری اور مکھیا کے کھیل میں ایک بار پھر مکھیا جیتا اور اس بار کتے کو خبریں جدید طریقے سے پہنچانے کا لائسنس بھی مل گیا۔ اب کتے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔ اب گائوں میں 19 یا بیس کتے آچکے تھے مگر کوئی کتا بھی بھائی کفیل کے کتے کے مقابلے کا نہیں تھا۔ اِدھر گائوں کے کتوں نے بھی یہ بات سمجھ لی تھی کہ اگر گائوں میں عزت سے رہنا ہے تو اس سب سے بڑے کتے سے بنا کر رکھنی ہے۔ ادھر یہ سب سے بڑا کتا بھی جب دل کرتا کسی چھوٹے کتے کو پکڑ کر رگید دیتا اور بھنبھوڑنے کے دوران بڑے لاڈ سے اسے کہتا کہ "دے پپی" اور وہ غریب اپنی گد بنواتے ہوئے مجبوراٗ گردن موڑ کر بھائی کفیل کے کتے کو پپی بھی عنایت کرتا۔ بھائی کفیل
کا کتا اب ان گلی کے چھوٹے چھوٹے کتوں سے تنگ آچکا تھا۔ اسے اب وہ بورنگ لگتے تھے۔ اس بوریت سے تنگ آکر اور کچھ شرارت میں ایک دن بھائی کفیل کے کتے نے پلٹ کر مکھیا کے بیٹے کو کاٹ لیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ بھائی کفیل کو جب پتہ چلا تو اپنے لاڈلے کی اس معصوم شرارت پر خوب ہنسے۔ وہ سمجھے تھے کہ ہر بار کی طرح مکھیا ان کی بات نہیں ٹالے گا اور ان کے لاڈلے سے درگزر کرے گا مگر وہ بھول بیٹھے تھے کے اس بار بات مکھیا کے اپنے بیٹے کی تھی۔ مکھیا نے گائوں کے باقی تمام کتوں کو جمع کیا اور اس شام سے ہی سارے کتے بھائی کفیل کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور بھونکنا شروع ہوگئے۔ شور سن کر بھائی کفیل کا کتا بھی باہر نکلا مگر تمام کتوں کو دیکھ کر جھٹ سے گھر کے اندر واپس گھس آیا۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ تمام کتے کسی بات پر اکٹھے تھے اور وہ سارے آج اس سب سے بڑے کتے سے انتقام لینے کیلئے بےچین تھے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بھائی کفیل کا کتا گھر سے بیٹھ کر بھونک رہا تھا اور باقی تمام کتے گائوں کے گھر گھر جاکر اس کے بارے میں بھونک رہے تھے۔ بھائی کفیل کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گائوں کے تمام کتوں کو ہوا کیا ہے۔ ادھر مکھیا نے بھائی رزاق کو بلایا اور ان سے وعدہ کرلیا کہ وہ اگر اپنے کتے کے ذریعے بھائی کفیل کے کتے کو مروادے تو گائوں بھر سے جتنا گوشت بھائی کفیل کے گھر جاتا ہے وہ ان باقی کتا مالکان میں تقسیم ہوجائے گا۔ بھائی رزاق نے تمام کتا مالکان کو جمع کیا اور ایک سنگل پوائنٹ ایجنڈا منظور ہوا جسے "مشن کدو کٹے گا تو سب میں بٹے گا" کا نام دے دیا گیا۔
گائوں کے تمام کتے مل کر بھونک ہی رہے تھے مگر بھائی کفیل کا کتا اتنا پرانا اور مضبوط تھا کہ وہ برابر سے ان تمام کتوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔ پچھلے بیس بائیس دن سے یہ محاصرہ اور مقابلہ جاری تھا اور اب گائوں والے بھی اس لڑائی سے بور ہو کر اس کے منطقی انجام کے منتظر تھے۔ ایک دن صبح صبح بھائی رزاق کے کتے نے عجیب منظر دیکھا کہ بھائی کفیل کا کتا مولوی صاحب کے گذرتے وقت بھونک رہا ہے۔ گائوں میں سے کسی نے اس بات کا نوٹس تک نہیں لیا کیوںکہ وہ سب ویسے ہی اپنے معمولات میں مگن اور مکھیا کی مہم کے بعد بھائی کفیل کے کتے سے ناراض تھے۔ بھائی رزاق کے کتے نے سب گائوں والوں کو جمع کیا اور مولوی صاحب پر دوبارہ بھونک بھونک کر لوگوں کو بتایا کہ بھائی کفیل کے کتے نے کس طرح ان پر بھونکنے کی گستاخی کی ہے۔ چونکہ مکھیا کا دست شفقت اب بھائی رزاق کے کتے پر تھا تو تمام گائوں والوں کو نہ صرف اس توہین کا یقین آگیا بلکہ انہیں یہ شعور بھی آگیا کہ بھائی رزاق کا کتا یہ حرکت صرف انہیں بتانے کیلئے کر رہا ہے اور اس کے اس طرح بھونکار دہرانے کے پیچھے مقصد صرف عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔
بھائی کفیل کے کتے کو مکھیا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اسے یہ سزا سنائی گئی کہ صرف یہ والا کتا ناپاک جانور ہے لہٰذا اس سے ملنا، دیکھنا، سننا سب حرام ہے اور سزا کے طور پر جب تک مکھیا کو یقین نہ ہوجائے کہ یہ کتا سدھر گیا ہے اسے باقی کتوں کے آگے ڈال دیا جائے کہ وہ جو چاہے مناسب سلوک کریں۔ یہ فیصلہ آنا تھا کہ تمام کتے "کدو کٹے گا تو سب میں بٹے گا" کا نعرہ لگا کر اس بڑے کتے پر پل پڑے۔ تمام کتے اپنی اپنی اوقات کے مطابق اسے بھنبھوڑنے میں مصروف تھے کہ بھائی رزاق کے کتے نے لاڈ سے صدا لگائی ۔۔۔۔ پپی دے نا ۔۔۔۔ بھائی کفیل کا کتا سر جھکا کر بولا ۔۔۔۔
گردن مڑ رہی ہوتی تو تیری ۔۔۔۔
آہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
جواب دیںحذف کریںپہلے پیرا پر مسکراہٹ سی تهی منہ پر...
دوسرے میں کچھ شک گیا کہ کہانی جا کہاں رہی ہے
روزنامہ اور ہفت نامہ پر کنفرم ہو گیا اور
آہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
"جیو بهائ جیوآپ"
بہت اعلیٰ
میری گردن نہیں مڑ رہی...
جس جس کی مڑے، آپکی بنتی ہے ویسے یہاں
بہن کو پسند آیا ... بهائی کی محنت وصول
جواب دیںحذف کریں