جمعہ، 6 جون، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 5

ہر بار سوچتا ہوں کہ اس بار سے ڈائری باقاعدہ اور روزانہ لکھوں گا مگر ہر بار یہ بات بھول جاتا ہوں۔ گویا ڈائری نہ ہوئی امیر حسینہ ہوگئی کہ جسے بھولنے کی بات ہر بار بھول جاتی ہے۔ امیر حسینائوں کی سب سے بڑی برائی یہی ہے کہ کمبخت اگر چھوڑ جائیں تو محبوبہ کے جانے سے زیادہ جہیز کے نکل جانے کا روگ انسان کو کھا جاتا ہے۔ خیر بھائی یہ عشق، محبت اور محبوبہ تو پیٹ بھروں، مارننگ شو کی میزبانوں اور شعراء کے کرنے کی باتیں ہیں اور ہم ان تینوں نعمتوں سے محروم ہیں۔  (آخری کو چھوڑ کر کیونکہ شاعری آج تک صرف جون ایلیاء کیلیئے نعمت رہی ہے۔ مرحوم جب گئے تو اکائونٹ میں کچھ لاکھ چھوڑ گئے)۔ ایک مہنگے اخبار کا سستا رپورٹر ویسے بھی محبوبہ سے زیادہ اگلی تنخواہ کے بارے میں سوچتا ہے ۔۔۔

آج جمعہ کا مبارک دن تھا۔ نماز سے فارغ ہوا تو ایک دوست سے ملنے ایک میڈیا ہائوس پہنچ گیا۔ ابھی کینٹین میں بیٹھ کر کھانے کا آرڈر دیا ہی تھا کہ باہر ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ یا خدا خیر کہہ کر باہر نکلے تو ایک عجیب منظر تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ ایک طرف ایک شخص دیوار پر ٹکریں مار رہا تھا تو دوسری طرف مبشر بھائی کو ان کی دو سہیلیوں نے جکڑا ہوا تھا کہ خود کو آگ نہ لگا لیں۔ میں ہکا بکا کھڑا دیکھ ہی رہا تھا کہ برابر سے ایک ہولناک چیخ کی آواز آئی۔ گھبرا کر مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا دوست ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر تڑپ رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے دیوار پر لگے ٹیلیویژن کی طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں نیوز کاسٹر بتا رہی تھی کہ پیمرا نے جیو پر 15 دن کی معطلی اور ایک کروڑ روپے ہرجانے کی سزا سنائی تھی۔ میں اب بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ جیو کی سزا پر یہاں کیوں صف ماتم بپا ہے کہ سلمان صاحب کی ڈوبتی ہوئی آواز آئی "کمبختو!! صرف پندرہ دن؟؟؟؟"

حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے میں وہاں سے نکل کر بھاگا اور اپنے ایک سیاسی دوست کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں بھی تقریباٗ یہی حالات تھے۔ دفتر میں دوست سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ماجرہ ہے؟َ آپ تو خیر سے انصاف کے داعی ہیں، آپ کو نہیں لگتا کہ انصاف ہوگیا اور اب اس معاملے کو ختم ہوجانا چاہیئے؟ کہنے لگے کہ وہ ساس بہو کے رنگین ٹی وی کی مشہور کہانی سنی ہے آپ نے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ پرانے زمانے میں جب رنگین تو کیا ٹی وی بھی نایاب ہوا کرتے تھے، ایک بہو اپنے جہیز میں رنگین ٹی وی لے آئی۔ اب محلے کی ساری خواتین رات کو اس کے گھر اکٹھی ہوکر ٹی وی دیکھا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن ساس بہو کی کھٹ پٹ ہوگئی۔ اب بہو تو خیر بہو تھی اور اکیلی تھی مگر ساس کی ساری سہیلیوں نے ایک مشترکہ محاز بنا لیا اور ساس کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ یہ سرد جنگ جاری ہی تھی کہ ساس کی ایک دوست شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بنتے ہوئے ایک دن گھر میں در آئیں اور ساس کی حمایت میں بہو کو بے نقط سنا ڈالیں۔ بہو رشتے میں چھوٹی تھی اور خاتون بہرحال ساس کی دوست کی حیثیت سے چلا رہی تھیں سو بہیو نے خاموشی سے سب خرافات برداشت کرلیں۔ جیسے ہر گھر میں ہوتا ہے، کچھ دنوں بعد ساس بہو کی صلح ہوگئی اور رات گئے ٹیلیویژن پروگرام کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بہو نے شرط لگادی تھی کہ وہ کرم جلی ساس کی دوست اب اس گھر میں قدم نہیں رکھے گی۔ ساس کو بھی پتہ تھا کہ جب تک رنگین ٹی وی گھر پر ہے، دوست اور ہزار مل جائیں گی۔ اب سلسلہ یہ تھا کہ محلے کی باقی سب عورتیں ٹی وی دیکھتی تھیں اور ساس کی غریب دوست گھر میں اکیلی پڑی ساس کو کوستی تھی۔

میں نے ان سے کہا کہ کہانی تو منطقی بھی ہے اور مزیدار بھی مگر مجھے اس وقت اس کہانی کے سنانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ کہنے لگے کہ وہ کرم جلی ساس کی سہیلی آج کل بنی گالہ میں رہتی ہے۔

!!شب بخیر

ذبان دراز صحافی
2014-06-06

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت