پیر، 8 ستمبر، 2014

زبان دراز کی ڈائری - 16

پیاری ڈائری!

انسان فطرتا ناشکرا اور احسان فراموش ہے. ہمیں کسی بهی نعمت اور آسائش کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ چهن نہ جائے.

مجهے تو خیر اس بات کا احساس کل ہی ہوا مگر خیر سے بیگم صاحبہ اول روز سے یہ بات جانتی ہیں اور اس ہی لیئے صبح شام اپنی قربانیوں اور احسانات کو گنواتی رہتی ہیں کہ کہیں غلطی سے بهی میں ان احسانات کو بهول نہ جائوں. خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا کہ بیوی خواہ کتنی ہی فرشتہ صفت مل جائے، اس کی برائی کرنا مرد کا پیدائشی اور بنیادی حق ہوتا ہے. ایسا نہیں کہ مردوں کو برائیاں کرنے کا شوق ہے، بات بس یہ ہے کہ ہم اپنی بیوی کی تعریف کرکے دوسرے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور اپنے لیئے زن مرید کا خطاب پانے سے ڈرتے ہیں.

نعمتوں کی یہ قدر ہمیں کل بهی نہ ہوتی اگر کل اخبار کے دفتر سے تهک کر آنے کے بعد ہم وہ بهیانک خواب نہ دیکهتے جس میں ہم نے دنیا کا ایک عجیب ہی نقشہ دیکها. ہم نے دیکها کہ ملک سے اسمبلی، سیاست، آمریت نامی ساری چیزیں ختم ہوگئی ہیں.

ہوا کچه یوں کہ ملک میں انتخابات ہوئے اور بیلٹ پیپر پر غلطی سے "ان میں سے کوئی نہیں" منتخب کرنے کی سہولت دے دی گئی. ساته میں یہ شرط بهی رکه دی گئی کہ اگر کسی حلقے کے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹر اس "ان میں سے کوئی نہیں" پر مہر لگاتے ہیں تو اس حلقے کے تمام امیدوار اس حلقے سے انتخاب لڑنے کیلئے تاحیات نااہل قرار دیئے جائیں گے. انتخابات ہوئے اور ایک ریکارڈ ٹرن آئوٹ کے ساته عوام نے تمام سیاستدانوں کو مسترد کردیا. سیاستدان اس پر تلملائے تو بہت مگر چہرے بدل کر نئے امیدوار کهڑے کر دیئے گئے. نتیجہ اس بار بهی وہی نکلا. اور پهر تیسرے انتخابات تک عوام بیزار ہوچکے تهے سو ایک ریفرنڈم کے زریعے حکومت ٹیکنوکریٹس کے حوالے کردی گئی.

سیاسی جماعتوں کی اب ضرورت نہیں رہی تهی سو ان پر مکمل پابندی لگادی گئی. سیاسی تنظیمیں نہیں رہیں تو سیاسی مباحثے نہیں رہے. وہ تمام دوست احباب جو اپنے سیاسی قائدین کے نام پر اپنی بچپن کی دوستیاں بهلا کر دشمن ہوچکے تهے، اب سیاسی اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ ایک ہوگئے. شیر اور کتا تو سیاسی دور میں ہی ایک ہوچکے تهے، اب شیر اور بکری بهی ایک ہی گهاٹ پر پانی پینے لگے.

دوسری طرف کسی نے پڑوسی دشمن ملک کے بارے میں افواہ اڑا دی کہ اس سے زیادہ خطرہ خود ہمارے ملک کے اندر موجود عناصر سے ہے سو فوج سے دست بستہ گزارش کی گئی اور فوج نے بهی سیاست چهوڑ کر وطن کے دفاع، سیلاب سے نمٹنا، سڑکیں بنانا، ہائوسنگ اتهارٹی اور کهاد کی فیکٹریاں چلانے سمیت اپنے وہ تمام فرائض انجام دینا شروع کردیئے جن کیلئے انہیں رکها گیا تها.

ملک میں یہ سب تبدیلیاں آچکی تهیں اور ان تمام تبدیلیوں کے ساته ساته اخبارات کی دنیا بهی یکسر تبدیل ہوگئی تهی. تمام اخباری تنظیمیں دن رات اب مظاہرے کر رہی تهیں کہ موجودہ سیٹ اپ ان اخبارات کیلئے زہر قاتل اور ان کے خلاف ایک سوچی سمجهی منظم سازش تها. جب سیاسی مباحثے نہ ہوں، فوج کے کردار پر بحث کرنے کو نہ ملے، ملک کی عوام مذہبی منافرت چهوڑ کر یہ سمجه لیں کہ محشر میں یہ نہیں پوچها جائے گا کہ کتنے کافروں کو شہید کیا، تو اخبارات میں چهاپنے کو بچے گا کیا؟ اور جو چهپے گا اسے پڑهے گا کون؟ غضب خدا کا، تصور تو کرو، ہمارے روزنامے کی شہہ سرخی جب یہ ہو کہ "گجرانوالہ میں ایک بهینس زچگی کے دوران ہلاک!" تو اخبار اور میرے مستقبل کا تو اللہ ہی حافظ!

اخبار کی شہ سرخی دیکه کر میرے سینے میں شدید درد اٹها اور درد کی شدت سے میں گهبرا کر اٹه بیٹها. آنکه کهلی تو دیکها کہ صاحبزادی سینے پر چڑه کر چهلانگیں مار رہی ہیں اور درد کی اصل وجہ یہ ہے. میں نے درد کی تکلیف بهلا کر اسے چوم لیا. تکلیف برطرف، میرے لیئے یہی خوشی بہت تهی کہ یہ سب محض ایک خواب تها اور کل پهر میں "اوئے میں تجهے چهوڑوں گا نہیں -فلاں سیاستدان" قسم کی شہ سرخی لگا سکوں گا.

بےشک انسان کو کسی نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ نعمت اس سے چهن نہ جائے. صبح سے یہی بات دہرا کر میں شکرانے کے نفل پڑه رہا ہوں.

اب اجازت دو کہ میں نے ٹیلیویژن دیکه کر کل کے اخبار کیلئے کوئی چٹپٹی سی شہ سرخی نکالنی ہے.

والسلام

زبان دراز اخبار نویس

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت