بدھ، 10 ستمبر، 2014

ہیجڑا

اس ہجوم میں پھنسے ہوئے مجھے اب بیس منٹ ہونے کو آرہے تھے مگرٹریفک تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آج دن ہی خراب تھا۔ میرے دفتر کے ساتھی عاطف صاحب جو خیر سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں کے گھپلوں میں ملوث ہیں آج ترقی پاکر مجھ سے اوپر آگئے ہیں۔ ہم دونوں  ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں اور جب ان کی ترقی ہورہی تھی تو ادارے کے ڈائریکٹر نے مجھ سے بھی ان کے بارے میں رائے مانگی تھی کہ گھپلوں کی کچھ اڑتی اڑتی شکایات اس تک بھی پہنچی تھیں۔ میرا دل تو کیا کہ میں سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اگر بات باہر نکلی تو بلاوجہ کی دشمنی ہوجائے گی اور کراچی جیسے شہر میں کسی کا کیا بھروسہ؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی شخص کو معمولی سمجھتے ہوں اور اس کے تعلقات کسی برائے نام کالعدم تنظیم سے ہوں؟ یا پھر وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہو جو کل کو آپ سے مخاصمت پال لے؟ میں نے ڈائریکٹر صاحب کو کہہ دیا کہ میں نے عاطف صاحب میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عاطف صاحب نہ صرف اس انکوائری سے باعزت باہر آگئے بلکہ کمپنی نے مزید بزمدگی سے بچنے کیلئے زر تلافی کے طور پر ان کی ترقی وقت سے پہلے ہی کردی۔ آج ہی پتہ چلا ہے کہ اگلے مہینے کی یکم تاریخ سے اب وہ میرے بوس ہونگے۔
صبح صبح یہ خبر سن کر ویسے ہی دماغ کی بتی بجھ گئی تھی اوپر سے جھوٹے منہ عاطف صاحب کو مبارک باد اور ان کے ناکردہ کارناموں کی تعریف بھی کرنی پڑ گئی۔ جب تک لنچ کا ٹائم آتا تب تک میرا موڈ مکمل طور پر خراب ہوچکا تھا۔ لنچ کے دوران سلمان صاحب اور احمد بھائی کے درمیان کی وہی فرقہ وارانہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی کہ دونوں میں سے کس کا مسلک زیادہ مظلوم ہے اور کس نے اب تک زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایک شام میں ہونے والے مظالم پر گریہ کناں تھا تو دوسرے کو بحرین کے مسلمانوں کا غم کھائے جارہا تھا۔ دل تو کیا کہ پوچھ لوں کہ آیا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے آج فجر کی نماز پڑھی ہے؟ پھر مگر خیال آیا کہ یہ ان دونوں کی ذاتی بحث ہے اور ایسے مباحثوں میں پڑ کر سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملنا۔ اگر غلطی سے بھی سلمان صاحب کے حق میں بول دیا تو احمد صاحب ناراض ہوجاتے اور اگر احمد صاحب کی کسی بات کی تائید کردیتا تو سلمان صاحب سے تعلقات منقطع کرنے پڑجاتے۔ بہتری جان کر میں خاموش ہورہا ورنہ دل تو یہ بھی کر رہا تھا ان دونوں کو قرآن کی وہ آیت یاد دلائوں جس میں مالکِ کائنات تمام غیر مسلموں کو یہ پیشکش کررہا ہے کہ آئو ہم تم (کم سے کم) ان باتوں پر متفق ہوجائیں جو ہم میں تم میں یکساں ہیں۔ ایک طرف دین غیر مسلموں سے مشترک چیزیں ڈھونڈ کر ایک جگہ اکٹھا ہونے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دیندار ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ چیزیں جمع کرتے پھرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ ایک ہی مذہب کے دو مختلف مسالک نہیں بلکہ سراسر دو الگ ادیان ہیں۔ جتنی محنت ہم ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے میں کرتے ہیں اس کی آدھی محنت سے پوری دنیا مسلمان ہوسکتی تھی۔
بحث کے کثیف ماحول میں کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا گیا۔ واپس اپنی میز آگیا اور اس پریزنٹیشن پر کام کرنے لگا جو عاطف صاحب نے باس بننے کی پیشگی قسط کے طور پر میرے متھے مار دی تھی۔ تین گھنٹے کی عرق ریزی کے بعد جاکر وہ پریزنٹیشن تیار ہوہی گئی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ پاورجنریٹر کے زریعے بجلی بحال ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں فائل کو محفوظ کرنا بھول چکا ہوں اور کمپیوٹر مٰیں اب اس فائل کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جس کے پیچھے میں نے اپنی پوری دوپہر کالی کی تھی۔ بال نوچتے ہوئے نئے سرے سے کام کرنا شروع کردیا اور پھر کام ختم کرنے کیلئے دفتر میں بھی دیر تک رکنا پڑا۔
دفتر سے گھر پہنچا تو شدید بھوک لگی تھی۔ کافی عرصے سے گھر والوں کو بھی کھانے پر کہیں باہر نہیں لیکر گیا تھا اور یہ خیال بھی تھا کہ شاید باہر جاکر سب کے ساتھ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے پورے دن کی کلفت دور ہوجائے گی۔ میں بیوی بچوں کو لیکر کھانا کھانے آگیا۔ کھانا بہت شاندار تھا اور واقعی سارے دن کی کلفتیں مٹاگیا۔ واپسی میں البتہ یہ ٹریفک ایک مرتبہ پھر میرا منہ چڑا رہا تھا جس میں میں اب گزشتہ بیس منٹ سے پھنسا ہوا تھا اور اگلے بیس منٹ تک بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
جب گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا تو میں نے اتر کر صورتحال خود دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔  گاڑیوں کی طویل قطار کو عبور کرتا ہوا میں لوگوں کے اس ہجوم میں پہنچ گیا جو گھیرا بنا کر  کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ہجوم کے گھیرے میں ایک وڈیرہ نما انسان شراب کے نشے میں مخمور ایک زنخے کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے اپنی بیش قیمت پجارو میں بٹھانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ اس مریل سے زنخے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے کوسنے دے رہا تھا اور اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا تھا مگر اس وڈیرے پر اس کی چیخ و پکار کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اسے بالوں سے پکڑ کر گاڑی کی جانب گھسیٹتا اور جواب میں وہ زنخا اپنی پوری جان لگا کر زمین سے چمٹنے کی کوشش کرتا اور بالوں کی تکلیف سے بےنیاز گاڑی سے دور جانے کیلئے اپنا پور زور لگا دیتا۔
معاملہ ویسے تو بالکل واضح تھا مگر میں نے ہجوم میں شامل ہونے کی روایت نبھاتے ہوئے برابر میں کھڑے شخص سے معاملہ پوچھا تھا تو اس نے بتایا کہ یہ ملک کے ایک نامور جاگیردار  ہیں جو اس وقت رنگین پانی کے خمار میں رنگین ہوگئے ہین۔   اشارے پر اس زنخے نے ان کے آگے دست سوال دراز کیا تھا اور اس دست سوال کے جواب میں جاگیردار صاحب دست درازی پر اتر آئے ہیں۔ میں  نے معصوم بنتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ان صاحب کو روکتا کیوں نہیں؟ کچھ بولتا کیوں نہیں؟ اس شخص نے غصے سے مجھے دیکھا اور بولا کہ اتنی محبت جاگ رہی ہے تو تم روک لو؟ تم بول دو؟ ہم کم سے کم دل سے تو برا جان رہے ہیں اس برائی کو، اور بھلے کمتر سہی مگر یہ بھی ایمان کا ایک درجہ ہے۔ مزید کچھ کہہ کر میں مزید بے عزت نہیں ہونا چاہتا تھا سو میں بھی خاموشی سے ہجوم کے بیچ کھڑا تماشہ دیکھنے لگا۔
جاگیردار اور زنخا دونوں ہی تھک چکے تھے مگر دونوں ہی ہار ماننے کو تیار نہیں تھے، زاویہ الگ تھا مگر بات اب دونوں کی عزت کی تھی سو کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان دونوں کی زور آزمائی جاری ہی تھی اچانک ہجوم میں ہلچل ہوئی اور ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک اور زنخا اپنے ساتھی کی مدد کیلئے میدان میں کود پڑا۔ دو اور ایک کی لڑائی میں فتح دو کی ہی ہوئی اور نئے آنے والے زنخے نے نہ صرف اپنے ساتھی کو چھڑایا بلکہ اس جاگیردار کی بھی طبیعت صاف کردی۔ وہ جاگیردار اچھی خاصی مرمت کروانے کے بعد برے انجام کی دھمکی دیتا ہوا گاڑی میں سوار ہوکر بھاگ گیا۔
ہجوم چھٹنا شروع ہوا تو میں بھی بھاگ کر گاؑڑی میں سوار ہوگیا اور ہجوم کے مکمل چھٹنے کے بعد آہستہ آہستہ ٹریفک کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔  جب گاڑی اس اشارے  پر پہنچی جہاں یہ سب فساد ہورہا تھا تو اشارہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ میں اشارہ کھلنے کا انتطار کر ہی رہا تھا کہ شیشے پر دستک ہوئی۔ میں نے نظر پھیر کر دیکھا تو باہر سے آنے والا دوسرا زنخا بھیک کا طلب گار تھا۔ میں نے خاموشی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس کا ایک نوٹ اسے نکال کر دے دیا۔ جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا؟ کل کو وہ جاگیردار اپنے گرگے لیکر آگیا تو؟ تمہارا تو یہ روز کا ٹھکانہ ہے، وہ کسی بھی دن موقع دیکھ کر بدلہ لے لے گا! اس زنخے نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! ڈرنے کیلئے ایک اللہ کی ذات کافی ہے! ان جیسے کتوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر ڈرو گے تو اور بھونکے گا اور اگر پلٹ کر پتھر مارو گے تو دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ روز ہی کسی جاگیردار اور غنڈے سے نمٹتے ہیں، اب کیا ان سے ڈر کر روز مرتے رہیں؟ ایک دفعہ کی تکلیف روز روز کے عذاب سے بہتر ہوتی ہے۔
اشارہ کھل گیا اور وہ زنخا بھی واپس فٹ پاتھ پر جاکر دوبارہ اشارہ بند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ میں شاید ساری عمر ہی وہاں دم بخود کھڑا رہ جاتا مگر پیچھے سے آنے والے ہارن کے مسلسل شور سے میں چونک گیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی آگے بڑھی تو پیچھے والی سیٹ سے میرا نو سال کا بیٹا اپنی معلومات کا رعب جھاڑنے کیلئے سوالیہ انداز میں بولا، بابا یہ ہیجڑا تھا نا؟ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سچ بولنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے جواب دیا، بیٹا یہ ہیجڑا نہیں تھا، یہی تو واحد مرد تھا!! ہیجڑے تو ہم ہیں!!!

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت