پیاری ڈائری!
شاعر اور ادیب ہونا بھی کتنا مشکل کام ہے۔ خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں لکھنے سے لیکر رویئے تک کسی بھی چیز میں ادب کا نہ کوئی گزر ہو اور نہ قدر۔ اپنے ہم عمر لوگوں کو بتائو کہ آپ ادیب ہیں تو سوال آتا ہے کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ اور اگر بزرگوں سے اس بات کا ذکر کرو تو پوچھا جاتا ہے کہ لکھنا وکھنا تو ٹھیک ہے مگر کرتے کیا ہو؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
احباب میں کسی کو پتہ چل جائے کہ آپ شاعر ہیں تو رات کے تین بجے فون کرکے "جانی کوئی پوپٹ سا شعر تو بھیج، تیری بھابھی کو میسج کرنا ہے" کی فرمائش اٹھتی ہے اور کالم نویسی کا بیان ہو تو رازداری سے کان میں پوچھا جاتا ہے کہ کس سیاسی گروہ سے تعلق ہے؟ نیز یہ بھی کہ آج کل لفافے کا کیا بھائو ہے اور پیسے کام ہونے سے پہلے ملتے ہیں یا کام ہونے کے بعد؟؟؟ ہم تو اس لکھنے کے ہاتھوں مر چلے!!!
شام کو بیٹھا ایک کہانی مکمل کررہا تھا کہ بھابھی نے ہمارے بھتیجے کو ساتھ میں لاکر بٹھا دیا کہ فارغ تو بیٹھے ہو زرا اس کے ساتھ کھیل ہی لو۔ مجھے امی سے بات کرنی ہے اور صاحبزادے کو موبائل چاہیئے اپنے گیم کھیلنے کیلئے۔ جتنی دیر میں فون پر بات کر رہی ہوں زرا اس کے ساتھ بیٹھ جائو۔ ہمارے بھتیجے کی عمر کوئی آٹھ سال کے قریب ہے۔ ان کی عمر میں ہم شام کے وقت کھیلنے باہر جاتے تھے جبکے یہ صاحب کھیلنے کیلئے ایپ اسٹور یا پھر گوگل پلے اسٹور کا رخ کرتے ہیں۔ باقی کی رہی سہی کسر اس ٹیلیویژن نے پوری کردی ہے جسے دیکھ دیکھ کر وہ آدھے بقراط ویسے ہی بن چکے ہیں۔
بھتیجے صاحب نے ہمارے برابر میں بیٹھتے ہی سوال داغ دیا کہ چاچو کیا کر رہے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔ ان کی ننھی سی بانچھیں کھل گئیں اور فورا سے کہانی سننے کی فرمائش داغ دی۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیا کہ مجھے کوئی کہانی نہیں آتی۔ آتی ہوتی تو اب تک لکھ نہ چکا ہوتا؟ اتنی دیر سے بیٹھا ہی اس لیئے ہوں کہ کہانی آنے کا نام ہی نہیں لی رہی۔ ہمارے بھتیجے نے ٹٹولتی ہوئی نگاہوں سے ہمیں دیکھا تو ہم نے فورا چہرے پر معصومیت طاری کرلی۔ ایک لحظے کیلئے اس کے چہرے پر مایوسی آئی مگر پھر فورا ہی چہک کر بولا، کیا چاچو! آپ کو ایک سٹوری بھی نہیں آتی؟ چلیں میں آپ کو سٹوری سناتا ہوں۔
کہانی لکھنے سے زیادہ مشکل کام دوسروں کی کہانی سننا ہوتا ہے مگر کسی کا دل توڑنا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ زندگی میں کتنے ہی سفاک کیوں نہ ہوجائیں، کسی کا دل توڑنے کیلئے ہر بار آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس محنت کی مقدار کم اور زیادہ ہوسکتی ہے مگر انسانی فطرت کے مطابق دل توڑنے کیلئے محنت بہرحال درکار ہوتی ہے۔ میں نے اس کی معصوم خوشی کیلئے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔
ہمارے بھتیجے کے مطابق ایک بیچارے بھوکے کوے کو کہیں سے ایک چنے کا دانہ مل گیا۔ وہ اسے لیکر درخت پر بیٹھا ہی تھا کہ دانہ اس سے گر کر درخت میں چلا گیا۔ کوے نے درخت سے درخواست کی کے میرا چنا واپس کردو! درخت نے کہا جائو میاں! میں کیوں واپس کروں؟ کوے نے اسے دھمکایا کہ اگر درخت نے اس کا چنا واپس نہ کیا تو وہ لکڑہارے سے کہہ کر درخت کو کٹوا دے گا۔ درخت کو بھی اب غصہ آگیا، اس نے کہا کہ کیا کوا اور کیا کوے کا چنا، جا بھائی جو کرسکتا ہے کرلے! چنا تو اب نہیں ملنے والا۔ کوا طیش کے عالم میں اڑا اور لکڑہارے سے جاکر بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا تم درخت کو کاٹ دو۔ لکڑہارے نے کہا، درخت نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ تس پہ کوے نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے درخت کو نہ کاٹا تو وہ لکڑہارے کی بیوی سے کہے گا کہ وہ اپنے میکے چلی جائے۔ لکڑہارے نے جواب دیا کہ جو بن سکتا ہے کر لو میں تو درخت نہیں کاٹتا۔ اب لکڑہارے کی بیوی کی باری تھی۔ کوے نے اپنا دکھڑا سنایا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، تم اس سے ناراض ہوکر میکے چلی جائو۔ لکڑہارے کی بیوی تنک کر بولی، لکڑہارے نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ جائو جائو اپنا کام کرو۔ کوا وہاں سے ناکام ہوکر اڑا اور اب چوہے کے پاس پہنچا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، تم اس کی بیوی کے کپڑے کتر دو! چوہے نے انگڑائی لیکر کہا کہ کپڑے کترنے والے زمانے چلے گئے ہیں اور ویسے بھی لکڑہارے کی بیوی اب لان کے سوٹ پہنتی ہے جن میں کپڑے کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے سو میرا موڈ نہیں ہے۔ کوا وہاں سے جھنجھلا کر اب بلی کے پاس پہنچا اور بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، تم چوہے کو کھا جائو! بلی انسانوں کے ساتھ رہ کر انگریزی زدہ ہوچکی تھی سو جھرجھری لیکر بولی، چوہا کھالوں؟ اررر ڈسگسٹنگ!!! مجھ سے نہیں ہوگا میں صرف کیٹ فوڈ کھاتی ہوں۔
کوا اب غصے اور بھوک سے پاگل ہورہا تھا اس نے راہ چلتے ایک کتے کو پکڑا اور ہاتھ جوڑ کر بولا کہ بھائی میری مدد کرو! درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، تم بلی کو کھا جائو؟ کتے نے کوے کو سر سے پائوں تک دیکھا اور بولا کہ کوے ہو کوے رہو! کتے نہ بنو! یہ سب انسانوں کی اڑائی ہوئی افواہیں ہیں۔ لڑائی جھگڑا اپنی جگہ مگر آج تک تم نے کسی کتے کو کسی بلے کو کھاتے دیکھا ہے جو میں یہ کام کروں؟ کوا اپنے پر نوچتا ہوا ایک ڈنڈے کے پاس پہنچا اور اس سے بولا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، تم کتے کی پٹائی کردو؟ اتفاق سے یہ ڈنڈا گاندھی جی کا پیروکار تھا اور اہنسا میں یقین رکھتا تھا۔ اس نے کوے کو بٹھا کر ایک تفصیلی لیکچر دیا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے معذرت کرلی۔
کوا اس کے بعد ڈنڈے کو جلانے آگ کے پاس اور پھر آگ کو بجھانے کیلئے پانی کے پاس پہنچا مگر نتیجہ ہر بار اس کی امید کے برخلاف ہی تھا۔ بہت ساری امیدیں لیکر کوے نے اس بار ہاتھی کا رخ کیا جو جنگل کا چوکیدار بھی تھا اور اس کی جسامت کی وجہ سے سب اسے ڈرتے بھی تھے۔ کوے نے ہاتھی کے سامنے ایک لمبی تمہید باندھی کہ وہ جانتا ہے ہاتھی کو پانی کی کس قدر ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کا اور کوے کا باہمی مفاد اس ہی میں ہے کہ آگ کو نہ بچھانے کی سزا دیتے ہوئے وہ پانی کو پی جائے۔ ہاتھی نے اسے محبت سے سمجھایا کہ اس کا جنگل والوں سے معاہدہ ہے اور اب وہ اس تالاب سے پانی نہیں پی سکتا۔ اگر کسی نے اسے پانی پیتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی بڑی سبکی ہوگی اور وہ بڑی مشکل سے بحال کی گئی اپنی عزت ایک کوے کے چکر میں نہیں کھوئے گا۔
کوا سب طرف سے مایوس ہوکر زمین پر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ اتفاق سے وہاں ایک چیونٹی کا گزر ہوا جس کی بہن اس ہی درخت کی ٹہنی گرنے سے دب کر ہلاک ہوگئی تھی۔ اس نے کوے سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے؟ کوے نے اسے روتے ہوئے جواب دیا کہ درخت میرا چنا نہیں دیتا، لکڑہارا درخت کو نہیں کاٹتا، لکڑہارے کی بیوی اس سے ناراض ہوکر گھر نہیں جاتی، چوہا اس کے کپڑے نہیں کترتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، کتا بلی کو نہیں مارتا، ڈنڈا کتے کی پٹائی نہیں کرتا، آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی، پانی آگ کو نہیں بچھاتا اور اب یہ ہاتھی بھی اس پانی کو پینے سے انکاری ہے۔ اب تم خود بتائو میں کیا کروں؟
چیونٹی کو جلال آگیا۔ اس نے کوے کو ساتھ لیا اور ہاتھی کے پاس پہنچ گئی کے اگر اس نے اب بھی پانی نہ پیا تو وہ اس کی سونڈ میں گھس کر اسے مار ڈالے گی۔ ہاتھی کی اپنی جان پر بنی تو وہ گھبرا کر بولا کہ نہیں نہیں میری سونڈ میں نہ گھسنا، میں ابھی پانی پیتا ہوں۔ پانی نے کہا نہیں نہیں مجھے مت پینا میں ابھی آگ کو بجھاتا ہوں۔ آگ نے کہا مجھے مت بجھائو میں ابھی ڈنڈے کو جلاتی ہوں۔ ڈنڈا بولا مجھے مت جلانا میں ابھی کتے کو سبق سکھاتا ہوں۔ کتے نے کہا مجھے مت مارو میں ابھی بلی پر حملہ کرتا ہوں۔ بلی گھبرا کر بولی مجھے چھوڑ دو میں ابھی چوہے کو کھاتی ہوں۔ چوہے نے فریاد کی کہ مجھے مت کھانا میں ابھی لکڑہارے کی بیوی کے کپڑے کترتا ہوں۔ لکڑہارے کی بیوی چلائی میں لعنت بھیجتی ہوں لکڑہارے پر، میرے کپڑے نہیں کترنا۔ لکڑہارے نے کہا کہ ایسی کی تیسی درخت کی، مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ درخت گھبرا کر بولا کہ بھائی کوے! تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ آئو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ یہ رہا آپ کا چنا اور اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں تو میں سب سے آرام دہ شاخ پر آپ کو ایک گھونسلہ اور اپنے سب سے رسیلے پھل اگلے تین سال تک آپ کو مفت دوں گا۔ کوا خود بھی اس سب سے تھک چکا تھا سو اس نے بھی درخت کی پیشکش خوشی خوشی قبول کرلی اور اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے،
بھتیجے صاحب تو کہانی سنا کر دوبارہ اپنے کھیل کود میں مصروف ہوگئے مگر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کہانی کچھ سنی سنی سی لگ رہی ہے۔ خدا معلوم کہاں سنی تھی، یاد آیا تو تمہیں بھی ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔
والسلام
زبان دراز
ہمارے کثیف ترین ماحول کے بیانئیے کا ایسا لطیف پیرایہ۔
جواب دیںحذف کریںبہت عُمدہ:)
لکھتے رہئیے اور اللہ بہت ہمتیں اور ترقیاں عطا فرمائے۔
دلچسپ اور سبق اموز ہے
جواب دیںحذف کریںکہانی صرف سنی سنی سی نہیں لگ رہی بلکہ اس کہانی پر مبنی ڈرامہ آج بھی ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا
جواب دیںحذف کریں