جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

مریض - 2

نوٹ: یہ مصنف کی ذاتی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔ کسی بھی فرد سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی اور مصنف اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوگا۔

میرا نام عاطف علی ہے اور میں ایک مریض ہوں۔ میرا مرض عام لوگوں جیسا نہیں جس میں مریض خود تڑپتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر ترس کھاتے ہیں۔ میرے مرض میں لوگ میری بیماری کی وجہ سے تکلیف سے تڑپتے ہیں اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔


میں شروع سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے میں بھی آپ جیسا ہی ایک عام سا انسان تھا۔ عام سی زندگی بسر کرتا تھا اور عام آدمیوں ہی کی طرح گمنام تھا۔ پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ اتنی بڑی اس دنیا میں میری اپنی کوئی شناخت نہیں تھی! میری زندگی میں کوئی قابل ستائش یا قابلِ ذکر چیز موجود نہیں تھی۔ لوگ اگر میرے بارے میں بات کرتے بھی تو کیوں؟ اور بات کرتے بھی تو کیا؟


ذات کے اس ادراک کے بعد میری زندگی اجیرن ہوگئی۔ اب اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی غم کھاتا رہتا تھا کہ میرے ہونے نہ ہونے سے دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر میں آج ہی مر گیا تو کتنے لوگوں کو پتہ ہوگا کہ عاطف علی نام کا کوئی شخص بھی تھا؟ جس کی واحد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ یہ سوچیں بہت تیزی سے مجھے قنوطیت کی طرف لے جا رہی تھیں۔ میرے گنے چنے دوست بھی اب مجھ سے کترانے لگے تھے۔ میں اگر کسی محفل میں جا نکلتا تو مجھے دیکھتے ہی لوگ سراسیمہ ہوجاتے۔ گفتگو ختم ہوجاتی۔ سب لوگ میری طرف دیکھنے لگتے کہ کب میں جائوں اور وہ دوبارہ اپنی گفتگو شروع کرسکیں۔ میں پاگلوں کی طرح ان کی شکلیں دیکھتا اور انتظار کرتا کہ وہ کوئی بات کریں مگر میرا انتظار ہمیشہ ہی بےکار جاتا۔ ہوتے ہوتے میں نے احباب کی محافل میں جانا بھی چھوڑ دیا۔


دوستوں سے مایوس ہوکر میں نے عشق کے کارزار میں اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک خیالی محبوبہ چنی اور اپنے خیالات میں ہی اسے شادی کا پیغام بھی بھیج دیا۔ اس نے بھی میرے خیالات میں ہی چپل اتاری اور میرے سر پر برسانا شروع کردی۔ میں گھنٹوں اس سے پٹتا رہا اور اس دن کے بعد سے اس تصوراتی عشق کی یاد میں پچھاڑیں کھانا شروع کردیں۔ اٹھتے بیٹھتے، صبح شام اب میں اس تصوراتی حسینہ کے فراق میں ٹھنڈی آہیں بھرتا اور پنکج اداس کے گانے سنا کرتا تھا۔ زندگی اب میرے لیئے ایک بوجھ بن چکی تھی اور اب میں موت کو اس زندگی سے بہتر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔


میں گھر سے زہر خریدنے کیلئے نکلا تو راستے میں چند دوست دکھ گئے۔ خلاف معمول جب میں بغیر کچھ کہے سنے ان کے برابر سے گزرا تو انہیں بھی تشویش ہوئی اور انہوں نے مجھے روک کر خیریت دریافت کرلی۔ آنسوئوں کے بیچ میں میں نے انہیں اپنی زندگی کے آلام و مصائب اور تازہ ترین محبت میں ناکامی اور اس کے لازمی نتیجے میں خودکشی کا قصہ سنا ڈالا۔ پہلے تو وہ سب خاموشی سے میری بات سنتے رہے مگر جیسے ہی میں خاموش ہوا انہوں نے ہنسی کے فوارے اڑا دیئے۔ ہنس ہنس کر ان کمینوں کا برا حال ہوگیا تھا۔ کوئی کہیں لوٹ رہا تھا اور کوئی اپنا پیٹ پکڑ کر دوہرا ہو رہا تھا۔ میں نے ان سب کمینوں پر لعنت بھیجی اور زہر لینے کیلئے بازار آگیا۔


میں دکھے دل کے ساتھ مارکیٹ سے کتا مار دوائی خرید کر گھر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔  میرے کمینے دوستوں نے میری داستان بازار میں سب کو سنادی تھی اور اب بازار کے تمام دکان دار اپنا کام کاج چھوڑ کر میرے اوپر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان سب کی نظروں میں میرے لیئے حقارت تھی۔ وہ میری زندگی اور میرے ہر وقت کے  رونے پر ہنس رہے تھے۔


 دل تو کیا کہ آگے بڑھ کر ان کا منہ نوچ لوں مگر پھر دماغ میں ایک اور خیال آیا اور میں من اندر ہی ان تمام لوگوں پر ہنسنا شروع ہوگیا۔ ان بیچاروں کو احساس نہیں تھا کہ مجھ پر ہنس کر وہ میری اس ناکام جوانی کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ مجھے ایک خاص آدمی بنا رہے ہیں۔ وہ خاص آدمی، جو ان جیسا ہی عام تھا مگر اب اتنا عام نہیں رہا تھا کہ اس کے بارے میں بات نہ کی جائے!! میں دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنستا ہوا گھر آگیا۔ اب مجھے خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔


میرا نام عاطف علی ہے اور آپ نے بالکل درست پہچانا، میں سوشل میڈیا پر دن رات روتا پیٹتا رہتا ہوں، اپنے خود ساختہ مصائب پر گریہ کرتا ہوں، لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں، پھر ہنستے ہنستے زچ ہوجاتے ہیں اور گالیوں پر اتر آتے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کا برا نہیں مانتا۔ برا کیوں مانوں؟ کسی بھی بہانے سے سہی، اب جو بھی بات ہوتی ہے، ہوتی تو میرے متعلق ہی ہے نا؟

4 تبصرے :

  1. حب جاہ

    لوگ جانیں ' کوئی مقام ملے ' مشہور ہوں -

    تعلیم کا میدان ؟
    کھیل کا میدان ؟
    سنگر ؟
    بزنس مین ؟
    فلاحی ادارہ ؟
    سیاستدان ؟

    خیر میں کم فہم ' کج ذہن ہوں ادب سمجھ نہیں آتا

    حب جاہ مجھ میں شائد آپ سے بھی زیادہ ہو مگر یہ لوگوں کا کترانا میرے ساتھ تو نہیں ہے - اور زندگی میں سوشل سائٹ نہیں پورا جیتا جاگتا اصلی معاشرہ ہوتا ہے - نام وہاں بنے تو کوئی بات بنے -

    جواب دیںحذف کریں
  2. Wah kea koobsorat baat ap ny ik choti c threer nain beyan kr di.parh k boht maza aea pr hr lmhey ADi @utllat ka b kyal mind main ata raha. Inshallah ik Din Adi b rah-e-rast pr a jae ga.sb zindgi k gum bhool kr wo b hansti muskarati zindgi k sath Khush khuram zindgi guzary ga.
    Isi Umeed k sath aLLaH Hafiz

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت