ہفتہ، 14 مارچ، 2015

شاہکار

آج بہر صورت کہانی رسالے کے دفتر پہنچانی تھی۔ گھر میں پیسے بالکل ختم ہوگئے تھے اور اب اس کہانی سے ملنے والے چند ہزار کا ہی آسرا تھا۔

میں صبح  سے قلم لیکر بیٹھا ہوا تھا مگر الفاظ آج مکمل طور پر مجھ سے روٹھ گئے تھے۔ یا شاید انہوں نے بھی میرا افلاس دیکھ کر کسی امیر سخنور کے گھر کا رخ کرلیا تھا۔   میں کہانی کی تلاش میں کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتا رہا مگر کہانی نے نہ آنا تھا نہ آئی۔ اس ہی کیفیت میں صبح سے دوپہر ہوگئی تھی اور اب میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید جھنجھلاتا جا رہا تھا۔ کہانی لکھتے وقت میری ایک بہت بری عادت سگار پینے کی بھی ہے۔سگار کا کثیف دھواں جب اندر اترتا ہے تو اندر موجود کہانی گھبرا کر باہر آجایا کرتی ہے۔ آج شومئی قسمت سگار بھی ختم ہوگیا تھا اور جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ گھٹیا ترین سگار بھی خرید کر کام چلا لیتا۔     قلم بغیر سگار کے پیٹرول کے چلنے سے انکاری تھا اور وضع داری اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ پان والے سے ایک سگار ادھار پر مانگ کر عزت گنوائی جائے۔

میں اس ساری صورتحال پر بیٹھا دانت پیس ہی رہا تھا کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھول کر میری بیوی  کمرے میں داخل ہوگئی۔ اس نے جب دیکھا کہ قلم قرطاس ایک جانب پڑے ہیں اور میں  سر پکڑ کربیٹھا ہوں تو وہ خاموشی سے میرے برابر میں آکر کھڑی ہوئی اور میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔  میں نے بڑی محبت سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔مگر   میری نظر  جب اس کے چہرے پر پڑی تو میں خوفزدہ ہوگیا۔ وہ ایک محبوب کا چہرہ نہیں تھا۔ وہاں میری بیوی نہیں بلکہ میرے بچوں کی ماں کھڑی تھی۔ وہ ماں جو جانتی تھی کہ اگر شام تک پیسے نہ آئے تو آج رات بچوں کو بھوکا سونا پڑے گا۔  

ہم دونوں کی نظریں ملیں تو اس نے اپنی آنکھوں کی جھلملاہٹ چھپانے کیلئے فوراٗ نظریں پھیر لیں۔ کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی رہی  اور پھر اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی  میرے  ہاتھ پر رکھ دیا اور بولی، آپ فکر نہ کریں، انشاءاللہ کہانی بہت جلد مکمل ہوجائے گی۔ یہ کہہ کر اس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے الگ کیا اور یہ کہہ کر چل دی کہ، میں بچوں کو ہوم ورک کرا کر آتی ہوں۔ ایک تو یہ شیطان  بھی جب تک سر پر  نہ بیٹھو پڑھائ ہی نہیں کرتے۔ دروازے پر پہنچ کر وہ ایک لحظہ کیلئے رکی،   پلٹ کر ایک نظر میری طرف دیکھااور پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس ایک نظر میں اتنا کرب ، اتنی تھکن اور اتنی حسرت تھی کہ میں اندر تک لرز گیا۔  میں نے چاہا کہ میں اٹھ کر اس کے پیچھے جاؤں ، اسے روکوں، اسے یقین دلاؤں کہ یہ آخری مرتبہ ہے اور آج کے بعد اسے کبھی ایسے کسمپرسی سے نہیں رہنا پڑے گا۔ مگر میری ٹانگوں نے میرے جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا۔ یا شاید وہ اس جھوٹ اور جھوٹی امید کا بوجھ اٹھا اٹھا کر اتنا تھک چکی تھیں کہ وہ مزید میرا ساتھ نہیں دینا چاہتی تھیں۔

 میں نے جب سے نوکری چھوڑ کر لکھنا شروع کیا تھا، یہ صورتحال ہمارے گھر میں ایک معمول کا منظر تھی۔  ہر دوسرے ہفتے میں ایک نئی کہانی لکھ کر اگلا پورا ہفتہ اس کے معاوضے کی تلاش میں بھاگ رہا ہوتا تھا اور اس دوران گھر میں بچے بھوکے سو رہے ہوتے تھے۔ اکثر اوقات دل کرتا کہ یہ لکھنا لکھانا چھوڑ کر دوبارہ نوکری کے دھندوں میں لگ جاؤں، مگر پھر دوستوں کے وہ جملے یاد آجاتے کہ میں تو پیدا ہی لکھنے کیلئے ہوا تھا۔ میری تحاریر سب سے منفرد تھیں۔ میرے دوست مجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ کیسے وہ میری ہر نئی کہانی کا بڑے بےصبری سے انتظار کیا کرتے ہیں۔ خدا معلوم کتنے ادیب ان مالی مصائب سے گھبرا کر لکھنا چھوڑ چکے تھے اور اگر میں بھی ان کی طرح ہمت ہار جاتا تو اردو ادب کا کیا بنتا؟ ادب تخلیق ہونا بند ہوجائے تو زبان کو بھی معدوم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ میرا لکھنا تو قومی خدمت تھا۔ اور قومی خدمت مالی مفاد کے لالچ میں نہیں کی جاتی تھی۔ ان سب باتوں سے متاثر ہوکر میں ایک بار پھر قلم قرطاس سنبھال لیتا اور پھر کسی نئے شاہکار کی تخلیق میں لگ جاتا تھا۔ جہاں تک گھر والوں کا تعلق تھا تو  ان کے بارے میں میری رائے یہ تھی کہ جس خدا نے چونچ دی تھی، دانہ دینا بھی اس ہی کی ذمہ داری تھا۔

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا سو میرے بھی دن پھرے جب میں نے وہ شاہکار کہانی تراش دی۔ اس کہانی کی وجہ سے مجھے معقول آمدنی ہونے لگی ۔ میں اب مہینے کے اسی، نوے ہزار روپے کمانے لگا تھا۔ پیسے آنے شروع ہوئے تو  گھر کی حالت کچھ بہتر ضرور ہوگئی مگر مجھے یہ احساس ہر وقت رہتا تھا کہ یہ سب چیزیں اس وقت تک تھیں جب تک کہانی چل رہی تھی۔ روز کماتے اور روز کھاتے مجھے تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک میری غیرت جاگ گئی اور میں نے طے کرلیا کہ اب اس کہانی پر اپنا گھر چلانا بہت غلط ہوگا۔ نئی کہانی سوچنے بیٹھا تو قلم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

پچھلے دس دن سے میں کچھ نہیں لکھ پایا تھا اور اگر آج بھی اخبار کا دفتر بند ہونے سے پہلے کہانی جمع کراکر میں نے پیسے نہ لیئے تو آج پھر گھر میں اتنے پیسے بھی نہیں بچے تھے کہ رات کو کچھ پکا کر کھایا جاسکے۔میں ہمت جمع کرکے کرسی سے اٹھا اور کمرے  اور پھر لاؤنج میں سے ہوتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔ بیوی نے آواز دیکر  روکنا چاہا مگر میں نہیں رکا۔  گھر سے باہر نکل کر میں نے چلنا شروع کیا اور سیدھا پان والے کے پاس جاکر اس سے ایک سگار مانگ لیا۔ اس نے سگار میرے حوالے کرکے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ ایک لحظے کیلئے تو میرا دل حلق میں آگیا کہ میں کس منہ سے اس سے کہوں کہ میری جیب میں اس وقت پیسے نہیں ہیں اور وہ مجھے سگار ادھار پر دے دے۔ انا کی چٹان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں ایک لمحے کیلئے ہچکچایا مگر پھر دماغ میں گھر والوں کا خیال آگیا۔ گھر میں پیسوں کی ضرورت تھی اور پیسوں کیلئے کہانی لکھنا ضروری تھا اور کہانی لکھنے کیلئے اس گاڑھے دھویں والے سگار کا ہونا ضروری تھا ۔ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ جیب میں ہاتھ ڈالا، اور پھر چہرے پر حیرانی کے تاثرات لانے کی اپنی سی بھرپور کوشش کرتے ہوئے پان والے کو کہا کہ، اوہو! میں بٹوا گھر بھول آیا! ٹھہریئے، آتے جاتے میں پیسے دے جائوں گا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے سگار جیب میں ڈالا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے نکل آٰیا ۔  مجھے یقین تھا کہ اب کہانی کو مکمل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ میری چال میں خود بخود پیٹ بھروں کی سی تمکنت آگئی تھی اور دنیا ایک مرتبہ پھر مجھے خوبصورت لگنے لگی تھی۔ میں خراماں خراماں گھر پہنچا اوردروازے کی چابی نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جیب سے سگار غائب تھا۔ میں الٹے قدموں دوبارہ پان والے کی دکان طرف چل پڑا کہ شاید سگار راستے میں گر گیا ہومگر اس کم بخت نے نہ ملنا تھا نہ ملا۔

میری اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں پان والے کی دکان پر دوبارہ جاکر اس سے ایک مرتبہ پھر سگار طلب کرتا اور ایک مرتبہ پھر اسے بٹوا گھر رہ جانے کی کہانی سناتا۔ اگر اس نے منع کردیا تو؟ کہیں پڑھ رکھا تھا کہ ادھار میں دو ذلت ہوتی ہیں۔ جس سے مانگو اگر وہ دے دے تو اس کا احسان، اور اگر منع کردے تو ویسے ہی تحقیر۔ میں ایک پان والے کے ہاتھوں ذلت اٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ میں نے بوجھل قدموں سے گھر کی سمت چلنا شروع کردیا۔  گھر کے سارے مناظر میری نظروں کےسامنے سے گزر رہے تھے اور ہر اٹھتے ہوئے قدم کے ساتھ مجھے احساس ہورہا تھا کہ اردو پر احسان کرنے کے چکر میں، میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کتنی بڑی ذیادتی کرتا آیا ہوں۔ اور پھر شاید میں رونا شروع ہوگیا کیونکہ اب سڑک کے مناظر پانی بھرے دھندلے ہونا شروع ہوگئے۔

میں  ارد گرد کی چیزوں سے بے خبر اب اتنی زندگی کی حماقتوں کو کوستا ہوا چل رہا تھا کہ اچانک ہارن کی خوفناک آواز سنائی دی اور میرے بالکل قریب کسی گاڑی کے بریک چرچرائے۔ میں نے ہوش میں آتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میں فٹ پاتھ سے اتر کر اب سڑک پر کھڑا تھا اور مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ایک نئی چمکتی ہوئی کرولا ٹیڑھی ہوئی کھڑی تھی۔ کرولا والا کوئی  ہوشیار انسان تھا جس نے مجھے فٹ پاتھ سے سڑک پر آتا دیکھ کر بروقت  بریک لگا دیئے ورنہ لمحوں کی تاخیر ہوتی تو میرا بچنا محال تھا۔

گاڑی والا بہت غصے میں گاڑی سے باہر نکلا تھا مگر مجھے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ سیٹھ رضا تھے۔ سیٹھ رضا کسی زمانے میں ہمارے محلے میں رہا کرتے تھے  مگر پھر تقدیر نے ان کے دن پھیر دیئے اور اب وہ شہر کے ایک پوش علاقے میں رہا کرتے تھے۔ ان کے اپنے چند کارخانے تھے اور وہ بہت خوشحال زندگی گزار رہے  تھے۔ سیٹھ رضا کہنے کو تو اس علاقے سے چلے گئے تھے مگر اب بھی دو ایک ماہ میں علاقے کا چکر ضرور لگا لیا کرتے تھے۔سیٹھ رضا نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے جا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ تھوڑا ہی آگے ایک چاء کا ہوٹل تھا، ہم دونوں اس چاء کے ہوٹل پر جاکر بیٹھ گئے۔ سیٹھ رضا نے مجھ سے پوچھا کہ ادیب میاں ایسا کیا خیال آگیا تھا کہ فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک پر چلنا شروع ہوگئے؟ میں نے نیم مردہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ وہ بس یہ سمجھ لیں کہ میری جیب کٹ گئی ہے۔ سیٹھ رضا پریشان سے ہوگئے۔ پوچھنے لگے کہ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔ میرے نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھ سے آنسو مسلسل  گرنا شروع ہوگئے۔ میں بس اتنا ہی کہہ پایا، رضا بھائی میری  کمائی کی واحد امید یہ کہانی تھی جسے دیکر مجھے دس ہزار روپے ملنے تھے، ابھی آتے ہوئے میری جیب سے وہ کہانی کہیں گر گئی اور میرے  پاس اس کہانی کی کوئی اور نقل بھی نہیں  کہ میں  وہ دیکر اپنے پیسے وصول کرسکوں۔ آج اگر پیسے نہ ملے تو میرے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ میں نے یہ کہہ کر اپنا منہ دونو ہاتھوں میں چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

سیٹھ رضا کے دل میں خدا جانے کیا آئی کہ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار ہزار کے کئی نوٹ میرے ہاتھ میں تھما کر وہاں سے اٹھ گئے۔ میں حیران و ششدر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ ترکیب کبھی بھی ناکام نہیں رہتی ۔ سیٹھ رضا کو تو  میرے کہانیاں لکھنے کا پتہ ہی تھا مگر ان کی جگہ کوئی بھی دوسری گاڑی والا ہوتا تو وہ بھی جیب کٹنے، بچوں کی بھوک، اسکول کی فیس، بیوی کی دوائوں والی میری شاہکار کہانی اور میری تھوڑی بہت اداکاری سے متاثر ہوکر ہزار دو ہزار تو دے ہی جاتا۔


آپ سے کیا پردہ، مدت ہوئی کہ یہ بات جان چکا ہوں کہ کہانی لکھنے  سے گھر نہیں چلتا۔ کبھی کوئی کہانی مل جائے تو لکھ بھی دیتا ہوں، ورنہ روزانہ اپنی شاہکار کہانی  چھ سات گاڑی والوں کو سنا کر اتنے پیسے کما ہی لیتا ہوں کہ مہینے کے اسی نوے ہزار آرام سے کما ئ ہوجاتی ہے  اور گھر پچھلے چار ماہ سے اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ دس دن سے بلاوجہ ایمانداری کابھوت سر پر سوار تھا تو اس وجہ سے پھر گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی مگر آج کے بعد پھر سے، کٹی جیب نامی میری یہ شاہکار کہانی ایک بار پھر کراچی کی سڑکوں پر روزانہ سنائی جائے گی۔ 

جمعہ، 6 مارچ، 2015

غرور کا سر نیچا

غرور کا سر نیچا
(اس کہانی کے تمام نام، مقام اور کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا)

پیارے بچوں! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں نتاشا نامی ایک عورت رہا کرتی تھی۔  نتاشا کا تعلق ایک رئیس گھرانے سے تھا مگر نتاشا  خدا کی نعمتوں پر شکر کرنے کے بجائے تکبر جیسی بری بیماری کا شکار ہوگئی تھی۔ وہ ہر وقت دوسروں کو نیچا دکھانے کے منصوبے بناتی رہتی   اور لوگوں کو نیچا دکھا کر خوش ہوا کرتی تھی۔  اس کے والدین اسے اکثر سمجھاتے  کہ  تکبر ایک بری عادت ہے اور اس تکبر کی وجہ سے وہ اپنے مخلص دوستوں کو بھی کھو دے گی مگر نتاشا یہ ساری نصیحتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتی۔

ماریہ  کے والد نتاشا کے گھر میں مالی کا  کام کیا کرتے تھے اور وہ لوگ نتاشا کے گھر میں ہی ایک سرونٹ کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ نتاشا بات بات پر ماریہ کا مذاق اڑایا کرتی اور اسے یہ احساس دلاتی تھی کہ اس کا باپ محض ایک مالی ہے جو نتاشا کے گھر میں کام کرتا ہے اس لیئے ماریہ کو  اس کی ہر جائز وہ ناجائز بات ماننی چاہیئے۔ ماریہ کو اس کی باتوں سے تکلیف تو بہت ہوتی مگر اسے اپنی ماں کی وہ بات یاد آجاتی کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ماریہ اس کی ساری تلخ باتیں پی جاتی اور سر جھکا کر اس کے کام نمٹاتی رہتی تھی۔ کبھی وہ نتاشا کا ہوم ورک کر رہی  ہوتی اور کبھی اس کے پائوں دبا رہی ہوتی۔ ماریہ نے ان ساری سختیوں کو اپنے والدین کے حالات کی وجہ سے برداشت کیا ہوا تھا۔

 ایک دن نتاشا کے   اسکول  میں اسلامیات کی استانی نے بچوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر ایک طویل لیکچر دیا اور بچوں کو سمجھایا  کہ ایک اچھا معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔  نتاشا کے اوپر لیکچر کا اثر تو کیا خاک ہونا تھا الٹا اسے خودنمائی کا ایک اور طریقہ ہاتھ لگ گیا۔ اسکول سے گھر آکر اس نے اپنی ماں سے پیسے لیئے اور بازار جاکر سب سے گھٹیا سمجھے جانے والے سستے ترین کپڑوں کے ڈھیروں جوڑے خریدکر  سیدھی ماریہ کے کوارٹر پہنچ گئی۔ اس نے  دروازہ کھٹکھٹا کر ماریہ کو باہر بلایا اور نوکر سے کہہ کر سارے کپڑے اس کے حوالے کردیئے۔ ماریہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ آج اچانک سے نتاشا اتنی مہربان کیسے ہوگئی کہ اس کیلئے کوئی چیز لیکر آئے مگر پھر اس نے سوچا کہ شاید اللہ تعالٰی نے  نتاشا کوہدایت دے دی ہو اور آج وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے یہ سب تحائف لیکر آئی ہو۔  اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے چاہا کہ وہ  نتاشا کا شکریہ ادا کرے مگر اس سے پہلے ہی نتاشا وہاں سے پلٹ کر اپنے گھر میں جاچکی تھی۔ ماریہ  نے کوارٹر میں جاکر اپنی ماں کو نتاشا کے اس بدلائو کے بارے میں بتایا تو اس کی امی بھی بہت خوش ہوگئیں۔ دونو ں ماں بیٹی نے بہت اشتیاق سے وہ تھیلے کھولے مگر اس میں موجود کپڑے دیکھ کر دونوں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تحائف بھی دراصل نتاشا کی ماریہ کو  ذلیل کرنے کی ایک اور کوشش تھی۔ جس قسم کے کپڑے نتاشا نے ماریہ کیلئے خریدے تھے انہیں مجبور بھکارنوں کے علاوہ کوئی پہننا پسند نہیں کرتا تھا۔ماریہ  کا دل کیا کہ وہ یہ سارے  کپڑے اٹھا کر لےجائے اور نتاشا کے منہ پر مار آئے مگر اس کی امی نے سمجھایا کہ تحفہ کتنا ہی حقیر ہی کیوں نہ ہو، بہرحال تحفہ ہوتا ہے لہٰذا وہ ان کپڑوں استعمال خواہ نہ کرے مگر انہیں سنبھال کر رکھ لے۔

دوسرے دن اسکول میں اسلامیات کا پیریڈ لگا تو نتاشا نے کھڑے ہوکر بڑے فخر سے سب کو بتایا کہ کل کے استانی کے لیکچر سے متاثر ہوکر اس نے پورے تیس جوڑے  غرباء میں تقسیم کیئے ہیں۔ استانی نتاشا کی اس بات سے بڑی خوش ہوئیں اور اگلے کئی دن تک اسکول میں نتاشا کی رحم دلی اور سخاوت کے چرچے ہوتے رہے۔ نتاشا اس سب سے بہت خوش تھی۔وہ سوچ سوچ کر ہنستی تھی کہ سب کو جوڑوں کی تعداد تو پتا تھی مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ  یہ جوڑے بہت معمولی کپڑے کے اور محض پانچ ہزار روپے کے آئے تھے۔ اس سارے واقعے سے متاثر ہوکر نتاشا نے اب ہر سال ماریہ کے ساتھ یہ گھنائونا مذاق کرنا شروع کردیا۔ ماریہ اس کی حرکت پر بہت کڑھتی مگر ماں باپ کا خیال کرکے چپ ہوجاتی تھی۔

اگلے چھ سال یہ کھیل جاری رہا مگر پھر خدا نے ماریہ کے والدین کے دن پھیر دیئے۔ پہلے اس کے باپ کے اکٹھے دو پرائز بونڈ نکل آئے اور پھر اس کے بڑے بھائی کی دبئی میں نوکری لگ گئی۔  پیسہ ہاتھ لگا تو اس کے باپ نے مالی کا کام چھوڑ کر شہر میں ایک چھوٹی سی کپڑے کی دکان کھول لی اور ماریہ کو نتاشا کے مظالم سے نجات مل گئی۔ وقت کے ساتھ ماریہ کے باپ کا کام چل نکلا اور ان کے گھر کے حالات بہت بہتر ہوگئے۔ ماریہ نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اب وہ ملک کے ایک مشہور آرٹ انسٹیٹیوٹ سے  ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی ڈگری حاصل کرکے باپ کے کام میں ہاتھ بٹانے لگی تھی۔ اس کے باپ کی کپڑوں کی دکان اب ایک معروف بوتیک میں تبدیل ہوچکی تھی اور ملک کے تمام  بڑے شہروں میں اس کے بوتیک کی برانچز  موجود تھیں۔

دوسری طرف نتاشا نے والدین کے بے جا لاڈ پیار سے شہہ پا کر پڑھائی چھوڑ دی اور باپ کے پیسے پر عیاشی کرنے لگی۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور جس طرح ماریہ کے باپ کے دن پھرے اس ہی طرح نتاشا کے والد بھی مسلسل کاروباری خساروں میں جاتے ہوئے ایک دن اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔  نتاشا اب اپنے باپ کے ایک دوست کے آفس میں ریسیپشنسٹ کا کام کرنے لگی ۔ لگی بندھی تنخواہ مہینے کے شروع میں آتی اور مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجاتی تھی۔  نتاشا اپنی اس زندگی سے تنگ تھی مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
ادھر ماریہ اپنے کام سے پوری طرح مطمئن نہیں تھی۔ وہ کچھ نیا اور ایسا کرنا چاہتی تھی جس سے اس کا نام فیشن کی دنیا میں امر ہوجاتا۔ وہ دن رات اس ہی سوچ میں غلطاں رہتی اور نت نئے شاہکار تراشتی رہتی ۔ مگر ان سب شاہ پاروں کے باوجود وہ اپنے کام سے مطمئن نہیں تھی۔ ایک دن ماریہ کچھ سامان کی تلاش میں اسٹور روم میں گئی تو اس کی نظر ان بوریوں پر پڑی جن کو وہ عرصہ ہوا بھول چکی تھی۔ ماریہ کے دماغ میں ایک خیال آیا اور وہ بے ساختہ مسکرا اٹھی۔ اگلے مہینے شہر کی تمام شاہرات پر بڑے بڑے بل بورڈز آویزاں تھے جن پر دیدہ زیب خواتین اس بوری میں سے نکلے ہوئے کپڑوں کی نمائش کر رہی تھیں۔  اور پھر ماریہ نے وہ کردکھایا جو اس سے پہلے کوئی نہیں کرپایا تھا۔ وہ  کپڑے جنہیں  مالی کی بیٹی تک پہننا پسند نہیں کرتی تھی اب دس دس ہزار کے ایک جوڑے کے حساب سے بکنے لگے۔

ماریہ کا شمار اب ملک کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اوروہ ایک کامیاب ترین زندگی گزار رہی ہے۔ ہر سال مارچ کے مہینے میں جب ہر طرف لان کے میلے سجتے ہیں تو ہر  بل بورڈ پر لگے لان کے مختلف برانڈز  ماریہ کے مرہون منت ہوتے ہیں جس نے لان جیسے بھکاری کپڑے کو اب امراء کی پوشاک بنا دیا تھا۔ مگر ماریہ آج بھی اپنی محسن کو نہیں بھولی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ  اس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ نتاشا کا ہے۔نہ وہ اسے لان کے اتنے ڈھیروں سوٹ دیتی اور نہ آج وہ اتنی کامیاب زندگی گزار رہی ہوتی۔

پیارے بچوں! اس ہی لیئے کہتے ہیں کہ تکبر بہت بری چیز ہے۔ اگر نتاشا نے وہ لان کے جوڑے ماریہ کو نہ دیئے ہوتے تو آج ان سو، دو سو لان کے جوڑوں کو بیچ کر دس پندرہ  لاکھ روپوں کی مالک بن جاتی اور اپنے مالی مصائب سے چھٹکارا پاتی۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ آئندہ تکبر سے پرہیز کریں گے اور کسی کو پوچھے کا کپڑا تک تحفہ نہیں دیں گے کہ کیا پتہ آج سے دس سال بعد بل بورڈز پر حسین دوشیزائیں ان جھاڑنوں کو پہن کر مسکراتی پائی جائیں اور یہ بھی دس ہزار میں بھی ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں۔

بلاگ فالوورز

آمدورفت