امی امی بہت
بھوک لگی ہے۔ کب سے کہہ رہی ہو کھانا آئے گا، کھانا آئے گا۔
بیٹا میں کون
سا جھوٹ بول رہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں کھانا
آتا ہی ہوگا۔
تم تو سدا کی
جھوٹی ہو ماں! تمہارا کیا بھروسہ؟ یاد ہے
ناں؟ ہر روز تم ایسے ہی جھوٹی کہانیاں سناتی ہو اور پھر رات کو وہی نمک پانی کا
سالن سامنے رکھ دیتی ہو۔ مجھے ذرا نہیں پسند وہ سالن۔
بیٹا! آج بڑی
رات ہے۔ سنا ہے آج آسمان کا خدا زمین کے کیڑوں کی سنتا ہے۔ وہ ضرور سنے گا۔ ضرور
سنے گا۔
امی اگر اس نے
سننی ہی ہوتی تو اب تک سن چکا ہوتا۔ ہم کون سا پہلی بار مانگ رہے ہیں۔ اور ویسے
بھی بڑی رات تو اس کے لیئے ہو گی۔ ہمارے لیئے تو ہر رات ہی اتنی بڑی ہوتی ہے۔ کئی
دفعہ تو مجھے رات کو نیند بھی نہیں آتی ۔
رات بھر پیٹ میں ایسے گڑ گڑ جیسی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے پیٹ میں
کوئی پتھر لیکر گھس گیا ہو اور پیٹ کی دیواروں کو کھرچ رہا ہو۔ مجھے لگتا ہے میرے
پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ تبھی تو مجھے اتنی بھوک لگتی رہتی ہے۔ تم بھی وہی نمک پانی
والا سالن کھاتی ہو مگر تم تو ایسے سکون سے سوجاتی ہو۔ مجھے لگتا ہے میرے پیٹ میں
جو آدمی ہے وہ سارا سالن کھا جاتا ہے اور تب ہی میری بھوک ختم نہیں ہوتی۔
بس کر جا میرے
لعل! خدا کیلئے بس کرجا!!! تیرے باپ کو میں نے نہیں مارا! مردود خود تو مر گیا اور
تجھے میرے سر منڈھ گیا۔ جو کماتی ہوں اس سے تیرے باپ کے علاج کیلئے چڑھے ہوئے قرضے
کی قسط اور اس جھگی کا کرایہ نکل جاتا ہے۔
کہاں سے لاؤں تیرے لئے سالن؟
امی ! مطلب
سالن نہیں آئے گا؟
امی دیکھو بعد
میں رو لینا! مجھے ابھی بھوک لگی ہے۔ بتاؤ نا ں، کھانا کہاں سے آئے گا؟
کہیں سے آنا ہوتا تو اب تک آچکا ہوتا ۔۔۔۔ چل میرے ساتھ چل! آج تجھے اچھا
کھانا کھلاؤں گی۔
کون ہے؟
صاحب! میں کام
والی!
اس وقت؟
خیریت؟
وہ صاحب آج
بڑی رات ہے نا تو کچھ نذر نیاز وغیرہ ۔۔۔۔
لاحول ولا قوۃ
۔۔۔۔ تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم ان سب خرافات میں نہیں پڑتے؟ یعنی حد ہوگئی!
تمہیں کس وجہ سے لگتا ہے کہ ہمارے گھر میں ان بدعتوں کا گزر ہوگا؟ حد ہی ہوگئی۔۔
استغفراللہ
وہ صاحب ۔۔۔
کیا وہ صاحب؟
دفعہ ہوجاؤ۔ کل سے کام پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مہینے کے آخر میں آکر حساب
کرلینا۔
لیکن صاحب ۔۔۔
صاحب غلطی ہوگئی ۔۔۔ صاحب معاف کردو ۔۔۔ صاحب ۔۔۔
ہمارے گھر میں
کسی بدعتی کیلئے کوئی جگہ نہیں!
امی! کیا اب
اچھا کھانا نہیں ملے گا؟
ملے گا بیٹا ۔۔۔ ضرور ملے گا۔۔۔ تو
میرے ساتھ چل
کون ہے؟
بیگم صاحبہ ! میں
۔۔۔ کام والی!
کیا اچھے وقت
پر آئی ہو! آجاؤ آجاؤ اندر آجاؤ ۔۔۔ دس
کام پھیلے پڑے ہیں۔ اچھا ہوا تم آگئیں!
نہیں بیگم
صاحبہ میں بس کھڑے کھڑے آئی تھی۔ آپ نے آج بتایا تھا کہ شب برات کیلئے نیاز دلائیں
گی؟
ہاں تو؟
وہ میں کیا
کہہ رہی تھی بیگم صاحبہ کہ اگر نیاز کا تھوڑا سا کھانا مل جاتا تو ۔۔۔۔
کیا؟َ
باجی میرا بچہ
۔۔۔
دیکھو بھئی
نیاز کا جو حلوہ اور پوری بنی تھی وہ محلے داروں میں بانٹنے کیلئے حساب سے بنی
تھی۔ اب اگر تمہیں اس میں سے دوں گی تو حساب خراب ہوجائے گا۔ محلے والیوں کو تو
تم جانتی ہو۔ ویسے تو سارا سال وہابی بنے
رہتے ہیں مگر شب برات کو حلوہ نہ جائے تو پیٹھ پیچھے باتیں بناتے ہیں۔ سوری ہاں!
امی؟؟
چپ کر جا!!!
امی! یہ تو
قبرستان ہے نا؟ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟
چپ کر کے چل
میرے ساتھ ۔۔۔ اور جہاں میں بیٹھوں وہیں چپ کرکے بیٹھ جائیو۔
امی پھر سالن
مل جائے گا؟
امی یہ
قبرستان پر اتنی روشنی کیوں ہے؟ اس دن جب تو ابا کی قبر پر لیکر آئی تھی تو تو
اتنا اندھیرا نہیں تھا؟
میں نے تجھے
بتایا تھا نا آج بڑی رات ہے۔
تو بڑی رات کو
یہ سب لوگ قبرستان کیوں آتے ہیں؟
زندگی بھر
تعلق نہ نبھانے کی جھینپ مٹانے۔
کیا مطلب؟
تیری سمجھ
نہیں آئے گی۔ چپ کرکے بیٹھ جا۔
اللہ کے نام
پر صاحب ۔۔۔
خدا آپ کے
جانے والے کی مغفرت کرے صاحب ۔۔۔
صاحب کچھ دیتا
جا صاحب ۔۔۔
یہ بچہ تیرا
ہے؟
تجھے کیا؟
جاکر اپنا چنگچی سنبھال ۔۔۔
دیکھ لے ۔۔۔ میں تو کسی اور کے ساتھ جاکر بھی چنگچی
چلا لوں گا پر تیرا کیا ہوگا؟ کب سے بیٹھی ہے اور بیس روپے بھی نہیں اکٹھے کرپائی
ہے۔ آجا چلیں، میرے پاس دو سو روپے ہیں۔
شرم کر کنجر!
بڑی رات ہے۔
بڑی رات ہے
تبھی تیری دعا قبول ہوگئی ہے۔ چلنا ہے تو جلدی بول ورنہ دو سو میں کوئی بھی ساتھ
چلی جائے گی۔
ارے بڑی رات
کا لحاظ کرلے۔ بڑی بڑی وہشیاء بھی آج کی رات دھندا نہیں کرتی ۔ میں تو پھر ایک
شریف بیوہ ہوں۔
کہنا کیا
چاہتی ہے بے؟
تیری سمجھ
نہیں آتی؟
تو سمجھا دے!
تو سمجھ لے کہ
آج کی رات کوئی تیرے ساتھ نہیں جائے گی۔ دو سو کیا چار سو میں بھی نہیں جائے
گی۔ میں کم از کم پانچ سو لے گی وہ بھی
ایک شرط پر!
پانچ سو بہت
زیادہ ہیں۔ اوپر سے شرطیں بھی؟ کیا شرط ہے؟
پانچ سو کے اوپر تو میرے بیٹے کو بازار سے تافتان اور قورمہ بھی دلائے گا۔ بول
چلتا ہے؟
بہت بے رحم، بالکل اصل زندگی کی طرح
جواب دیںحذف کریںکیا خوب لکھا ہے صاحب
جواب دیںحذف کریںبہت خوب جناب
جواب دیںحذف کریں