رات کل شہر میں ہاتف کی صدا گونجی تھی
دیکھنا اہل شہر
آج پھر شاعر مجنون صفت
لکھنے والا ہے کوئی وحشی نظم
چیختی، نوچتی، کراہتی ہوئی
بلبلاتی ہوئی، مکروہ سی، جھلائی ہوئی
سچ کے سائنائڈ سے لبریز نظم
جب میرے کان میں اس شور کی آواز پڑی
جی میں آیا کہ لکھوں، لکھتا رہوں، لکھتا رہوں
اور میں لکھتا گیا، لکھتا گیا، لکھتا گیا
(رات پھر شور اٹھا تھا دل میں
رات پھر نظم لکھی تھی ہم نے
اور پھر نظم جلا ڈالی تھی)
(اور پھر رات گئے)
آخری بار سنی، شہر کے لوگوں نے صدا
ایک جھلائے ہوئے، ترسے ہوئے، ہارے ہوئے
زیست کے مارے ہوئے، زیست کے شاعر کی صدا
اک نشاط آفریں، امید و مسرت سے بھری
وصل کی جیسے صدا، موت کی ہچکی کی صدا!!!
رات کل شہر میں شاعر کی صدا گونجی تھی!!!!
سید عاطف علی
04- جون - 2015
زبردست۔ واہ واہ بہت اعلی۔ پہلی مرتبہ آپکو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت عمدہ۔
جواب دیںحذف کریں