جمعہ، 8 جنوری، 2016

سپاس نامہ

ایک مدت گئے
دو؟ اڑھائی برس؟
اب جو سوچو تو کتنی ہی صدیاں گئے
ہم ملے!

اور پھر یوں ہوا
جیسے دستور ہے
وہ ملاقات ایسے تعلق کی تمہید تھی
جس کے آغاز میں
کوئی انجام،
 منزل،
وغیرہ،
 نہ تھی!
وہ فقط  ایک ایسے تعلق کی تمہید تھی
جس کا حاصل
زیاں
جس کا  حاصل
تھکن!

وہ تھکن
جس کا چارہ کسی چارہ گر کو نہ تھا!

ہم ملے، سرسری!
چائے پی
چل دیئے!

کون کہہ سکتا تھا تب
سرسری سی ملاقات یہ
ایک ایسے تعلق کی تمہید ہے
جس کی تشریح میں
شاعرِ وقت جو
قادر ِ کل بیاں
 لفظ جس کے غلام
وہ بھی ہے
عاجز و بے ہنر

آج پھر ہم نفس
اس گلستاں میں ہم
دوبدو ہیں تعلق کی تجدید کو
وہ تعلق کہ جو
ماورا ہے تعلق کی تعریف سے

ہاں مگر، ہم نفس!
اس تعلق کی تجدید سے پیشتر،
چاہتا ہوں کہ میں،
آج کچھ بات ہو قرض کے باب میں!


اے مرے ہم نفس!ً
شکریہ!
اس تعلق کے آغاز کا شکریہ!
اس تعلق کی تجدید کا شکریہ!
ساتھ رونے کا تو ، ویسے ہی شکریہ
ساتھ ہنسنے کا بھی ہاں مگر شکریہ
اور ہاں، شکریہ
وہ جو وہ بات ہے! اس کا بھی شکریہ
اور وہ جو وہاں ، یاد ہے؟
شکریہ
اور اس رات کا، شکریہ شکریہ
اور وہ دوپہر؟ شکریہ شکریہ
اور وہ شام ۔۔ اف! شکریہ شکریہ
ہم نفس، شکریہ
ہم نفس شکریہ

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت