جمعہ، 15 جنوری، 2016

قاتل

کوئی اپنے ہی تخلیق کردہ کرداروں کو اپنے ہی ہاتھ سے کیسے ختم کر سکتا ہے؟ میں نے جھلا کر قلم ایک طرف پھینکا اور لائٹر سے کہانی کے مسودے کو آگ لگا دی۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں کوئی کہانی لکھنے بیٹھا ہوں اور اس کے کردار نے آخر میں خود کشی کر لی ہو۔ قارئین کی آرا کی بنیاد پر میری شاہکار قرار دی گئی تمام کہانیوں کا اختتام کہانی کے مرکزی کردار کی موت پر ہی ہوتا تھا۔ اور یہ موت کبھی بھی طبعی نہیں ہوتی تھی۔ میرے کردار ہر مرتبہ خودکشی کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ کر اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیتے تھے۔ ایک نے اپنی رگ کاٹ لی تھی تو دوسرا سمندر میں چھلانگ لگاچکا تھا۔ تیسرے نے زہر نگلا تھا اور چوتھا ریل کی پٹری پر لیٹنے جا رہا تھا۔

لوگ اس طرز تحریر کو میری یگانگت سے تعبیر کرتے تھے مگر درحقیقت مجھے موت سے بہتر کوئی انجام نہیں لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ موت کے علاوہ کوئی بھی انجام مستقل نہیں ہوسکتا۔ بچپن میں پڑھی گئی کہانیوں کا وہ انجام، کہ اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے، مجھے ہمیشہ مصنوعی لگتا تھا۔ میں تب بھی یہ سوچتا تھا کہ مصنف سے مل کر پوچھوں کہ کتنے عرصے تک؟  یہ ہنسی اور خوشی کتنی مدت کی تھی؟ اس ہنسی کے بعد کیا ہوا؟ وہ خوشی جب ختم ہوئی تو اس کے بعد آنے والے دکھ نے کس طرح ان کرداروں کو تاراج کیا؟

 میں جانتا ہوں کہ یہ سوچیں آپ ایک بچے سے منسوب نہیں کر سکتے مگر آپ بھول رہے ہیں کہ میں بچپن میں بھی بچہ نہیں رہا تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میری ماں کتنی سفاک عورت تھی۔ ایک تو میرے بچپن میں ہی مر گئی، اور دوسرا جاتے ہوئے میرا بچپن بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ سو میں بچپن میں بھی بچہ نہیں تھا۔ سوائے سنِ عمر کے مجھ میں کچھ بھی بچوں جیسا نہ تھا۔ حد تو حد یہ کہ میں شکل سے بھی اپنی عمر سے چار پانچ سال بڑا ہی دکھتا تھا۔ خیر یہ گفتگو تو اضافی ہے۔ مگر دنیا میں کچھ بھی اضافی کب ہوتا ہے؟ ہر چیز اپنی جگہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ ہماری کوتاہ نظری اسے اضافی دکھاتی ہےوگرنہ ہر وہ چیز جو ہو رہی ہے وہ اس سے بہتر کسی اور وقت اور اس سے بہتر کسی اور جگہ پر ہو ہی نہیں سکتی تھی! تو جیسا میں عرض کر رہا تھا کہ میں کہانی کے انجام سے اگلی منزل کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتا تھا۔ شاید اس ہی وجہ سے میں نے جب خود لکھنا شروع کیا تو اپنی کہانیوں میں ایسے انجام لکھنے شروع کر دیئے جن کے بعد کم از کم اس دنیا میں اس کردار کا مزید عمل دخل ختم ہوجائے اور دنیاوی اعتبار سے وہ کہانی واقعی مکمل ہوجائے۔ مگر ان کہانیوں کے اتنے مکمل ہونے کے باوجود بھی مجھ میں کہیں ایک خلش،  ایک تشنگی موجود تھی۔ اس سوال کی تشنگی کہ میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ یہ حرکت تو صرف خدا کو زیب دیتی ہے کہ کمال محبت اور مہارت سے ایک مخلوق تراشے، فرشتوں کے سامنے اس پر فخر کرے، دنیا میں تمام ضروریات زندگی بہم کرنے کے بعد اسے پیدا کرے اور پھر ایک دن نہایت رسان کے ساتھ اسے مار ڈالے۔اور ستم ظریفی یہ کہ اس کردار سے جڑے باقی تمام کرداروں کو زندگی بھر کے لیئے زندہ رہنے کی سزا  دے دے۔

شاید میں بھی خدا کا عکس ہی ہوں تبھی تمام خدائی  صفات انتہائی کمتر درجے میں ہی سہی مگر اپنے اندر موجود پاتا ہوں۔ وہ  کائنات کا رازق ہے تو اپنے گھر والوں کے لیئے رزق کمانا میری ذمہ داری بھی بتاتا ہے۔ وہ احسن الخالقین ہے تو  اپنی اولاد کی تخلیق میں ایک حصہ میرا بھی ہوتا ہے۔ وہ متکبر ہے تو میرے اندر بھی تکبر کرنے کی صفت موجود ہے۔ شرک اسے بھی نہیں پسند اور میں بھی اپنی محبت میں کسی کو شریک نہیں کر سکتا۔ غرض تمام خدائی صفات کا کڑورواں حصہ اس نے میرے اندر بھی رکھا ہے۔ شاید اس ہی لیئے؟

سوچ کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور بے شمار وحشی خیالات سرپٹ دوڑتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا مگر ریل کی سیٹی نے مجھے چونکا دیا۔ میرے گھر کے پاس سے ریل کی ایک پٹری گزرتی ہے اور صبح کے سات بجے جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں یہاں سے ایک ٹرین روز گزرتی ہے۔ مجھے بچپن سے ریل کی یہ سیٹی بہت پسند ہے۔ سرما کی صبحوں میں کہ  جب سناٹے کی وجہ سے آواز زیادہ سنائی دیتی ہے، مجھے لگتا تھا کہ یہ ریل سیٹی بجا کر مجھے آواز دیتی ہے۔ اپنے پاس بلاتی ہے۔


روزانہ صبح اسکول کے لیئے تیار ہوتے وقت میں ریل کی اس سیٹی کا منتظر ہوتا تھا اور جب ساڑھے سات بجے میں اسکول کے لیئے نکلتا تھا تو دوسری ریل کی سیٹی مجھے خدا حافظ کہنے آ رہی ہوتی تھی۔ آج برسوں بعد میں یہ کہانی لکھتے وقت ریل کی اس سیٹی سے چونک اٹھا ہوں۔ شاید اس  مہربان سیٹی نے مجھےالجھن میں پا کر ایک شفیق بزرگ ِ عالم کی طرح مجھ پر ادراک کے نئے در وا کردیئے ہیں۔ میں جان گیا ہوں کہ میں خدا نہیں ہوں اور نہ ہوسکتا ہوں۔ آج کی اس شاہکار کہانی کا مرکزی کردار میں خود ہوں۔ اور ادیب اور خدا میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ادیب اپنے ہاتھوں سے خود اپنی جان بھی لے سکتا ہے۔ ریل کی سیٹی مجھے بچپن سے جانتی ہے اس لیئے مجھے بچپن سے آواز دیتی آئی ہے۔ ساڑھے سات بجے کی ٹرین  میں اب آدھا گھنٹا ہی رہ گیا ہے۔ ریل کی پٹری مجھے آواز دے رہی ہے! 

4 تبصرے :

  1. موت کے علاوہ کوئی انجام مستقل نہیں ہو سکتا

    کمال ۔۔۔۔/

    جواب دیںحذف کریں
  2. تمام دکھوں اور خوشیوں کا اختتام موت ہی ہے ہنسی خوشی سے رہنے والی بات اک سراب ہی سہی لیکن ہمیں زندگی کا تعاقب کرنے پہ مجبور رکھتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت عمدہ
    مجھے موت سے بہتر کوئی انجام نہیں لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ موت کے علاوہ کوئی بھی انجام مستقل نہیں ہوسکتا۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت عمدہ
    مجھے موت سے بہتر کوئی انجام نہیں لگتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ موت کے علاوہ کوئی بھی انجام مستقل نہیں ہوسکتا۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت