ہفتہ، 16 جنوری، 2016

زبان دراز کی ڈائری - تھر

پیاری ڈائریً!

آج میں بہت خوش ہوں۔ سنا ہے کل کسی وزیر نے بیان دیا ہے کہ ملک میں روزانہ چھ سو بچے ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا تھر کے صرف دو بچوں کی موت پر واویلا کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ ان وزیر کے بیان کے بعد پورے صحرا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم سب کو امید ہے کہ اب بہت جلد حکومت ہمارے مسائل کا نوٹس لے گی اور ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔

تم تو جانتی ہو کہ جس خطہ زمین سے میرا تعلق ہے اس کا نام تھر ہے۔ یہاں دور دور تک صرف ریت، غربت اور موت دکھتی ہے۔ جس طرح دوسرے شہروں کیلئے قحط کا ہونا ایک اچنبھے کی بات ہے اس ہی طرح ہمارے لیئے پانی کا آجانا ایک حیرت کی بات ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کو پندرہ سال ہونے کو آرہے ہیں مگر تھر کے باسی آج بھی پانی کی فراہمی کیلئے بادلوں کے محتاج ہیں۔ حکومت کو ہمارے مصائب اور ہر سال کے قحط کا اندازہ ہے اس لیئے اس نے ہمارے لیئے چار سو کلومیٹر طویل سڑکیں بنا دی ہیں تاکہ جب قحط سالی ہو تو امدادی سامان بانٹتے وقت تصویر کھنچوانے کیلئے آنے میں آسانی رہے۔ مگر خیرپور سے تھر تک پانی کی لائن بچھانے میں چونکہ بہت زیادہ خرچہ آتا ہے اور ہم ایک غریب ملک کے شہری ہیں لہٰذا ابھی ہم پانی جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انشاءاللہ جب موٹروے بن جائے گی، سندھ فیسٹیول ہماری پہچان بن جائیں گے، ٹیلیویژن کے اشتہارات کے زریعے حکومت کے کارہائے نمایاں کی تشہیر ہوچکے گی، تب اگر پیسے بچے تو حکومت انشاءاللہ اس بارے میں بھی سوچے گی۔ صحرا کی زندگی میں سب سے اہم چیز امید ہوتی ہے۔ بارش کی امید، گندم میں سے مٹی نہ نکلنے کی امید، سال میں دو مرتبہ ڈاکٹر کے آنے کی امید۔ سو ان سب امیدوں کے ساتھ ساتھ ایک امید اگر یہ بھی لگا لی جائے کہ کبھی نہ کبھی ہمارے صحرا میں بھی پانی پہنچ جائے گا، تو اس میں کوئی ایسی برائی بھی نہیں۔

خیر ان سب باتوں سے تمہیں کیا غرض؟ تم تو ایک ڈائری ہو اور حکومت کی طرح احساسات سے عاری بھی۔ تم سے یہ سب باتیں کرنے کا کیا مقصد؟ مگر میں کیا کروں؟ تم سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟ صحرا میں پانی مدت ہوئے ختم ہوچکا ہے۔ بارشیں اس سال بھی نہیں ہوئی ہیں۔ جو پانی کے جوہڑ بچے ہوئے ہیں ان پر اس وقت انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پی رہے ہیں۔ کیا کریں؟ جاندار دونوں ہیں۔ اور اس پیاس کی بلا سے دونوں ہی محٖفوظ نہیں۔ اور پانی کی اس کمیابی کی وجہ سے اب صحرا میں لوگ بلاوجہ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ زیادہ بات کرنے سے حلق خشک ہوجاتا ہے اور جب حلق خشک ہوتا ہے تو پیاس نامی ناگن اپنا بڑا سا پھن پھیلائے ہمیں ڈسنے آجاتی ہے۔

پیاری ڈائزی! مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ مگر میرے اندر ایک گھٹن ہے اور شدید گھٹن ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو عاشورہ تھا۔ وہ دن جب ہم تمام مسالک و مذاہب سے بلند ہوکر امام حسین کی پیاس کو یاد کرتے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ جب پیاس کا ذکر ہوگا تو لوگوں کو اپنے پڑوس میں موجود لوگوں کی پیاس کا بھی خیال آئے گا۔ حکومت کچھ کرے نہ کرے، کوئی نہ کوئی مخیر انسان ضرور امام حسین کی یاد میں ایک پانی کی سبیل اس صحرا میں بھی لگانے آئے گا۔ سنا ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں شیعہ اور سنی بھائی مل کر سبیلیں لگاتے ہیں۔ جہاں شربت اور چائے اور انواع و اقسام کے مشروبات سے لوگوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ شربت نہیں تو کم سے کم پانی کی ایک سبیل تو کوئی پیاسوں کی اس بستی کیلئے بھی لیکر آئے گا۔ اب مگر سوچتا ہوں کہ غلطی ہماری ہی ہے۔ اگر ہمارے علاقے کے لوگ بھی پڑھ لکھ جاتے اور کسی اچھے میڈیا ہائوس میں لگ جاتے تو یہاں بھی میڈیا کے کیمرے آجاتے۔ کیمروں کا انتظار کرنے والے مخیر حضرات کیا پتہ اس ہی بہانے یہاں آن نکلتے؟

خیر یہ سب تو اداس کردینے والی باتیں ہیں اور میں اب مزید اداس نہیں رہنا چاہتا۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ سنا ہے کل کسی وزیر نے بیان دیا ہے کہ ملک میں روزانہ چھ سو بچے ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا تھر کے صرف دو بچوں کی موت پر واویلا کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ ان وزیر کے بیان کے بعد پورے صحرا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم سب کو امید ہے کہ اب بہت جلد حکومت ہمارے مسائل کا نوٹس لے گی اور ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہم سب نے اپنے گھروں سے ایک ایک بچہ چن کر پانچ سو اٹھانوے بچے جمع کرلیئے ہیں جنہیں ہم آج رات ذبح کردیں گے۔ ہم سب کو یقین ہے کہ چھ سو کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد ہمارا مسئلہ اس قابل ہوجائے گا کہ اس پر واویلا کیا جاسکے اور حکومت اس پر نوٹس لے۔ ایک دفعہ حکومت نے نوٹس لے لیا تو پھر امید ہے کہ ہمارے سارے مسائل بھی انشاءاللہ حل ہوجائیں گے۔
بچپن میں کہانیوں میں سنتے تھے کہ زمینی خدا خون کی بلی لیئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان بارہ لاکھ پیاسوں کی اذیت مٹانے کیلئے یہ پانچ سو اٹھانوے بچوں کی بلی چڑھانا کوئی برا سودا نہیں۔ اب مجھے اجازت دو، رات کیلئے تیاری بھی کرنی ہے۔

والسلام

پیاسا حسین

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت