جمعہ، 4 مارچ، 2016

زبان دراز کی ڈائری - باخر خانی


پیاری ڈائری،

آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوگیا۔ کہنے کو میری عمر ابھی کچھ بھی نہیں مگر یاد داشت ایسے ساتھ چھوڑ گئی ہے کہ سمجھ نہیں آرہا۔

ہوا کچھ یوں کہ آج چھٹی کا دن تھا تو ہم تینوں بھائی گھر میں موجود تھے۔ شام کی چاء پر بڑے بھیا اور بابا کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آج سے تین سال پہلے بڑے بھیا نے اپنا کاروبار شروع کیا تھا اور اب ماشاءاللہ کافی حد تک کاروبار جمانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ساری عمر بابا کے پیسوں پر پلنے اور پھر بابا کے پیسوں سے ہی کاروبار شروع کرنے کے بعد اب ان کی جیب میں جب چار پیسے آئے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ اپنا گھر الگ کر لیں۔ بابا کو لگتا ہے کہ ان کا کاروبار ابھی پوری طرح جما نہیں ہے اس لیئے الگ گھر لینے کا مطلب محض اخراجات میں اضافہ ہوگا جس کے وہ بابا کے نزدیک متحمل نہیں ہوسکتے۔ آج شام بھی اس بات پر بحث ہورہی تھی تو بڑے بھیا نے جذبات میں آ کر بابا کو طعنہ دے دیا کہ وہ شاید اس بات سے خائف ہیں کہ اگر بھیا الگ ہوگئے تو بابا کو ان سے ملنے والی رقم ملنا بند ہوجائے گی۔ بھیا کی اس بات پر ہم سب صدمے کی حالت میں تھے مگر بابا نے ایک پرسکون مسکراہٹ بھیا کی سمت اچھالی اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ بیٹا ! تمہیں یاد ہے جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہیں سونے سے پہلے کہانیاں سنایا کرتا تھا؟ آؤ آج میں تمہیں ایک اور کہانی سناتا ہوں۔ مجھے معاملے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر میں نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا۔ تس پر بابا گویا ہوئے کہ کسی جگہ مئی کے مہینے میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ کیا انسان کیا جانور، سب گرمی سے بے حال تھے۔ کہتے ہیں اس سال گرمی سے بلا مبالغہ ہزاروں انسان جان سے گئے تھے اور مرنے والے جانوروں کی تعداد کا تو سمجھو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ اس ہی گرمی میں اس شہر کا ایک سڑک کا آوارہ کتا بھی گھوم رہا تھا جو گرمی سے بے حال اور تقریبا جاں بلب تھا۔ ڈھونڈنے سے بھی کوئی جگہ نہیں دکھتی تھی کہ جہاں بیٹھ کر سستایا جا سکے۔ وہ کتا بھی شاید اس گرمی سے مر جاتا مگر خدا کو اس کے حال پر رحم آگیا اور اسے ایک ٹھیلے والا دکھ گیا جو اپنے ٹھیلے پر برف رکھ کر بیچ رہا تھا۔ کتا دوڑتا ہوا جا کر اس ٹھیلے کے نیچے پہنچ گیا اور اس ٹھیلے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ ٹھیلے کا سایا، برف کی ٹھنڈک، تھوڑی ہی دیر میں کتے کے اوسان بحال ہوگئے  اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ اب جب حواس بحال ہوئے تو چلتے چلتے کتے کے دماغ میں آئی کہ میں اپنا ٹھنڈا سایا اس ٹھیلے کو کیوں دوں؟  یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں چلنے کی اذیت کاٹوں اور  یہ مفت خورٹھیلا  اس کے سائے سے کھڑے کھڑے فیض لے؟ یہ خیال آتے ہی کتا وہیں ٹھہر گیا۔

کتا جب وہاں ٹھہرا تو ٹھیلا اس کے اوپر سے ہوتا ہوا آگے گزر گیا اور وہ کتا ایک مرتبہ پھر دھوپ کی زد میں آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ کتے کے ساتھ کتوں والی ہوگئی۔

بابا نے اپنی کہانی ختم کی اور میری جانب جھک کر گویا ہوئے کہ اس کہانی کا مطلب سمجھ آیا صاحبزادے؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ بابا رسان سے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جب کتے کو یہ لگنے لگے کہ دراصل وہ ٹھیلے کو اپنا سایا دے رہا تھا اور ٹھیلا اس کے سائے کا محتاج تھا تو جلد یا بدیر، کتے کے ساتھ کتوں والی ہی ہوتی ہے!

شام والا قضیہ تو خیر اپنی جگہ ہے مگر  میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوگیا ہے۔ کہنے کو میری عمر ابھی کچھ بھی نہیں مگر یاد داشت ایسے ساتھ چھوڑ گئی ہے کہ سمجھ نہیں آرہا۔  شام سے سوچ رہا ہوں کہ یہ قصہ کہاں دیکھا یا سنا ہے مگر یاد نہیں آرہا۔ جب بھی یاد آیا تمہیں ضرور بتاؤں گا۔ تب تک کے لئے اجازت۔

زبان دراز باخر خانی


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت