پیر، 26 ستمبر، 2016

شعور

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔
میر ا  نام عاطف علی ہے اور میں سڑک کے کنارے اپنے باپ کا چھوڑا ہوا کتابوں کا ٹھیہ لگاتا ہوں۔کہنے کو میری عمر ابھی لکھنے پڑھنے کی ہے ۔ مگرتمباکو نوشی کی زیادتی آج سے تین سال پہلے میرے باپ کو کھا گئی تھی اوربیوہ ماں اور باقی چھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بڑا ہونے کے ناطے مجھ پر آن پڑی تھی۔  مجھ سے چھوٹی دو بہنیں تھیں جو گھر میں اماں کے ساتھ سلائی میں ہاتھ بٹاتی تھیں  اور ان کے بعد جو دو بھائی اور دو بہنیں تھے وہ ابھی اتنے چھوٹے تھے کہ کچھ کر نہیں سکتے تھے سو پورا دن گھر میں ادھم مچاتے تھے۔ ابا کے مرنے سے پہلے میں پہلے ایک ورکشاپ پر کام کر رہا تھا مگر وہاں کا ماحول مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا لہٰذا ابا کے جانے کے بعد میں نے ورکشاپ چھوڑ کر یہ ٹھیہ سنبھال لیا تھا۔ 
کتابوں کا کام بھی ہوائی روزی تھی۔ جہاں میرا ٹھیہ واقع تھا وہاں قطار سے آٹھ دیگر کتب فروش موجود تھے۔ ہم سب اٹھتے بیٹھتے  روزانہ یہی دعا کرتے تھے کہ کسی انگریز لکھاری کی کوئی نئی کتاب آجائے تو ہماری دکان بھی چل سکے ورنہ سارا سال محض نصاب کی کتب یا مشہور انگریزی کتابوں کی استعمال شدہ کاپیوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا اور ان پر مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے بچت بہت کم ہوپاتی تھی۔ باقی دکانداروں کی طرح میں خود بھی اس کام سے مطمئن نہیں تھا مگر واپس ورکشاپ جانے کا تصور اور استاد کا بہانے بہانے سے پیچھے والے اسٹور روم میں لے جانا یاد کرتا تو جھرجھری لے کر ایسے کسی بھی خیال کو ترک کردیتا تھا۔شاید باقی دکاندار بھی ماضی میں کسی ورکشاپ میں کام کر چکے تھے اس لئے ہم سب ہی سالہاسال سے تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے ٹھیے خالی کرنے پر تیار نہیں تھے۔
میں روزانہ صبح گیارہ بجے ٹھیہ سجا لیتا تھا  مگر  گاہکوں کے آنے کا وقت جامعات کی چھٹی کے بعد ایک گھنٹے یا دفاتر سے واپسی میں رکنے والے چند مخصوص سنکیوں کا ہی تھا جو آج کے زمانے میں بھی کتاب سے شغف رکھتے تھے اور نئی کتاب خریدنے کی استظاعت نہ رکھنے کی وجہ سے آتے جاتے ہمارے پاس  رک جاتے تھے۔ باقی دکاندار تو وقت بتانے کے لئے ٹھنڈے وقت میں ایک دوسرے  سے ہنسی مذاق کرکے گزار لیتے تھے مگر میری عمر محض سولہ سال ہونے کی وجہ سے مجھے اس گفتگو سے باہر رکھا جاتا تھا۔ کرنے کو کوئی اور کام ہوتا نہیں تھا سو میں نے اپنے ہی ٹھیے پر برسوں سے نئے قاری کی منتظر کچھ اردو ادب کی کتابیں کھنگالنی شروع کردیں۔ اردو ادب پڑھنے کی دو ہی وجوہات تھیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ کہ یہ کتابیں پچھلے تین سال سے کہ جب سے میں اس ٹھیے پر تھا، وہیں موجود تھیں اور آج تک ان کا کوئی قاری پیدا نہیں ہوا تھا۔ خدا جانے ابا نے کیا سوچ کر انہیں خریدا تھا اور خدا جانے میرے ٹھیہ سنبھالنے سے پہلے بھی وہ کتنے ہی سال یہاں گزار چکی تھیں۔ سو اگر میں انہیں نہ پڑھتا تو بھی وقت کے ساتھ وہ مزید سالخوردہ ہو رہی تھیں اور شاید کچھ عرصے بعد اتنی گل جاتیں کہ پڑھنے کے لائق بھی نہ رہتیں۔  دوسری وجہ یہ تھی کہ سرکاری اسکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد مجھے اردو پڑھنی تو آگئی تھی مگر انگریزی پڑھنا بہرحال ایک مشکل کام تھا۔
میں ان دنوں اماں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں سے شدید پریشان تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری بہنیں بانس کی طرح بڑھ رہی ہیں لہٰذا مجھے آمدنی بڑھانی چاہئے تاکہ وہ ان کے جہیز کے لئے کچھ رقم پس انداز کرسکیں ورنہ بغیر باپ کی بچی کا ہاتھ تھامنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوگا کہ پتہ نہیں جہیز دے پائیں گے یا نہیں۔  سو بستی میں لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ابھی سے بہنوں کے لئے مال جمع کر رہے ہیں تاکہ وقت پر ان کے لئے ڈھنگ کے رشتے آ سکیں۔ دوسری فکر اماں کو دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کی لاحق تھی جو پورا دن محلے میں کھمبے پیٹا کرتے اور گولیاں کھیلتے تھے۔اماں چاہتی تھیں کہ وہ اور کچھ نہیں تو سرکاری اسکول ہی جانا شروع کردیں ورنہ جیسے میں بچپن میں ورکشاپ بھیجا گیا تھا ویسے ہی کم از کم بھائیوں کو بھی کسی ورکشاپ میں ڈال دیا جائے۔ میں ان دونوں ہی چیزوں کا مخالف تھا۔ میرا ماننا تھا کہ اسکول بچوں کو تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے اور سرکاری اسکول میں پڑھ کر میں جان گیا تھا کہ جس قسم کی تربیت وہاں ان بچوں کو ملے گی اس سے بہتر ہے وہ محلے میں گولیاں کھیل لیں۔ اور ورکشاپ بھیجنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان سب مسائل کا واحد حل یہ تھا کہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے تاکہ بہنوں کے لئے رقم جوڑی جا سکے اور بھائی کسی سستے ہی سہی مگر پرائیوٹ اسکول میں جا سکیں جہاں کم از کم سرکاری اسکول جیسا برا حال نہ ہو۔ مگر یہ آمدنی میں اضافے کا سوال اتنا گنجلک تھا کہ میں بہت کوشش کے باوجود  اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
ان ہی پریشانیوں کے دنوں میں وہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔ تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی اس کتاب میں بہت سے افسانے مرقوم تھے۔ باقی ساری کہانیاں میرے لئے غیر اہم تھیں مگر اس ایک کہانی پر میرا دماغ اٹک کر رہ گیا جس میں مہاجر کیمپ کے باہر دو خواتین چھابڑی  لگا کر پکوڑے بیچا کرتی تھیں اور پھر ایک نیک انسان ان پر ترس کھا کر انہیں اپنے ساتھ موٹر میں بٹھا کر لے جاتا ہے اور واپسی میں انہیں اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ جن سے ان کا ہفتہ سکون سے نکل جائے۔ کہنے کو یہ بھی تقسیم سے جڑی ہوئی تمام کہانیوں ہی کی طرح ایک کہانی تھی مگر یہ کہانی مجھ پر شعور کے نئے در وا کر گئی۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑی مونچھوں والا روز میرے ہی ٹھیے کے سامنے گاڑی کیوں روکتا ہے اور کیوں کبھی گاڑی سے اترنے کی زحمت کیئے بغیر بس میرے ٹھیے کی جانب دیکھتا ہی رہتا ہے۔ اور کیوں جب میں نے پہلی مرتبہ اس کی گاڑی کی جانب جاکر اس سے پوچھنا چاہا تھا تو برابر والے غفور چاچا نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے کسی بھی گاڑی کی طرف جا کر کتاب بیچنے سے سختی سے منع کردیا تھا۔  اس کہانی کو پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ تقسیم کے ہنگامے آج تک تھمے نہیں تھے۔ کرداروں کے نام تبدیل ہوگئے تھےمگر کہانی آج بھی وہی تھی۔  موٹر والوں کی جگہ ان کی اولاد  یا پھر اس اولاد کی اولاد لے چکی تھی اور چھابڑی والیوں کی جگہ ان کی بیٹیاں اور ان کی بیٹیوں کی بیٹیاں آ گئی تھیں۔اور آج پھر جب ایک گاڑی میرے ٹھیے کے سامنے رکی تو  مجھے معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا تھا۔ میں نے غفور چاچا سے ٹھیے کا خیال رکھنے کو کہا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
بمشکل دو گھنٹے بعد ہی میں واپس اپنے ٹھیے پر موجود تھا۔ غفور چاچا نے مجھے دیکھا تو غصہ کرنے کا ناٹک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے  مسکرا کر ان کی سمت دیکھا اور ٹھیے کے اسٹول پر بیٹھ کر تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی ہوئی وہ کتاب اٹھا کر دوبارہ پڑھنا شروع ہوگیا۔

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔ 

ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

نباض

ادیب معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی خبر سب سے پہلے اسے ہوتی ہے۔ اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔
اچھے عالم کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بروئے کار لاتا ہے اس لئے میں بھی اکثر راہ چلتے لوگوں کو دیکھ کر ان کی نفسیات پڑھنے  کی کوشش کرتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے مجھے سڑک کے کنارے ایک فاحشہ کھڑی نظر آئی تھی۔ چست کپڑے  پہن کر ہر گزرتی گاڑی کو وہ جس طرح سےدیکھ رہی تھی اس سے مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کس طرح کسی بھی گاڑی کو روک کر اس میں بیٹھ جائے۔  لڑکی قبول صورت تھی اور ویسے بھی جس صورت میں یہ  خواتین ہم مرد حضرات کو درکار ہوتی ہیں اس میں ہر طرح کی صورت قبول ہوتی ہے۔ تو میں نے بھی فقط انسانی ہمدردی کے تحت موٹرسایکل گھمائی مگر برا ہو اس لمبی داڑھی والے جوان کا جو مجھ سے پہلے اس تک پہنچ چکا تھا اور اب وہ فاحشہ گاڑی کی کھلی کھڑکی میں جھک کر اس سے بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف تھی۔  میں اسے دیکھتے ہی سمجھ چکا تھا کہ یہ مطلبی عورت محض وقت کا زیاں تھی اور ویسے بھی میرے پاس بازاری عورتوں کے لئے نہ وقت تھا نہ ان پر لٹانے کے لئے پیسے سو میں نے موٹر سائیکل آگے بڑھا دی۔
میں تھوڑا ہی آگے گیا ہوں گا کہ وہی لمبی داڑھی والا جوان میرے برابر میں سے گاڑی دوڑاتا ہوا گزرا جس کی آگے والی نشست پر وہی لڑکی براجمان تھی۔ نفسیات دان ہونے کے ناطے میں  اس جوان کی شکل دیکھتے ہی جان گیا تھا کہ ہوس اس پر بری طرح سوار تھی۔ جس برق رفتاری سے وہ میرے برابر سے گزرا تھا وہ بتا رہی تھی کہ اب اسے ضبط کا یارا نہیں رہا تھا۔ وہ منزل تک پہنچ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔  میں نے دل ہی دل میں اس کے حلیے اور اس کی حرکات پر ایک قہقہ لگایا اور اپنی توجہ واپس سڑک پر مبذول کردی۔
تھوڑا آہی گے گیا  ہوں گا تو اشارے پرمجھے وہی گاڑی رکی ہوئی نظر آئی۔ موٹر سائیکل کے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں گاڑیوں کے بیچ سے ہوتا ہوا اس گاڑی کے قریب پہنچ گیا اور جب اشارہ کھلا تو میں نے بھی اس گاڑی کے ساتھ ہی موٹر سائیکل دوڑانی شروع کردی۔ پانچ سات منٹ کے سفر کے بعد گاڑی ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئی تو میں بھی تماشہ دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہی داخل ہوگیا۔ میں  نے سوچ لیا تھا کہ ان دونوں کو ایک ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑوں گا تو خوب تماشہ رہے گا۔ داڑھی کے پیچھے چھپے اس مکروہ چہرے کو لوگوں کے سامنے لانا مجھ ایسے ادیبوں کا ہی تو کام تھا۔
گاڑی رہائشی علاقے میں ہوتی ہوئی ایک گلی میں جا کر کھڑی ہوئی تو میں نے بھی پیچھے ہی اس گلی کے نکڑ پر موٹر سائیکل روک دی اور ان دونوں کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ توقع کے برعکس اس جوان نے گاڑی بند نہیں کی اور نہ ہی گاڑی سے اترا۔ لڑکی البتہ اتر کر گھر کے اندر چلی گئی اور وہ جوان گھر کے باہر ہی انتظار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر تک تو میں بھی وہیں نکڑ پر کھڑا اس معاملے کے آگے بڑھنے کا انتظار کرتا رہا مگر پھر نجانے کہاں سے اس محلے کے چند لونڈے نکل آئے جو مجھے مشکوک نظروں سے گھورنے لگے۔ میں تماشہ بنانے آیا تھا سو خود تماشہ بننے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے خاموشی سے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور اس کالونی کے گیٹ پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ 
کالونی کے دروازے پر مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں وہی گاڑی  ایک بار پھر کالونی سے باہر آتی دکھائی دے گئی۔  اس بار وہ لڑکی اپنے ساتھ ایک اور لڑکی کو بھی لے آئی تھی جو سیاہ شیشوں کے باوجود عقبی نشست پر بیٹھی نظر آرہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ  مولوی کی ہوس ایک عورت سے پوری نہیں ہوسکتی تھی اس لئے وہ لڑکی اسے اپنے ساتھ کوٹھے پر لے آئی تھی اور اب یہاں سے ایک اور لڑکی کو لے کر وہ دونوں مولوی کے گھر جا رہے تھے۔ میں نےتو سوچ  ہی لیا تھا کہ اس کہانی کا انجام دیکھ کر ہی جاؤں گا سو میں نے ایک بار پھر تعاقب شروع کردیا۔
اس بار یہ تعاقب بہت زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا۔ چند ہی لمحوں کے بعد گاڑی اس رہائشی کالونی سے متصل ایک بازار میں جاکر کھڑی ہوگئی ۔ پرانی والی لڑکی جب گاڑی سے اتری تو میں سمجھ گیا کہ پیسوں کی وجہ سے  اب دو کا معاملہ نہیں بن پایا ہے سو مولوی نے دوسری والی کو پسند کرکے اس پہلی والی کو اتار دیا ہے۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے میں نے جلدی سے جاکر گاڑی کے قریب میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر دی  اور اس مولوی کی طرف لپکا جو اس فاحشہ سے کچھ بات کر رہا تھا۔
جب میں ان دونوں کے قریب پہنچا تو وہ فاحشہ اس ٹھرکی مولوی سے کہہ رہی تھی کہ بھائی! میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ آپ کو دے سکوں اور اگر ہوتے بھی اور میں آپ کو دے بھی دیتی تو آپ کا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتی تھی۔ رکشہ مل نہیں رہا تھا اور اگر اسے اب بھی یہاں ڈاکٹر کے پاس نہ لاتی تو اس کا بخار اور بڑھ جاتا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دوسری لڑکی جو شکل سے اس پہلی کی بڑی بہن ہی لگ رہی تھی کاندھے سے ایک بچے کو لگائے دوڑتی ہوئی سامنے واقع ڈاکٹر کے کلینک کی سمت جارہی تھی۔

میں خود کو کوستے ہوئے واپس موٹر سائکل کی جانب بڑھ گیا۔ ادیب تو  معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بازاری عورت نرا وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ فالتو میں ایک لیٹر پیٹرول ضائع کروا دیا۔ لعنتی!

پیر، 5 ستمبر، 2016

امی کے نام ایک خط

نوٹ: میں اس تحریر کو چھاپنے کے حق میں نہیں تھا مگر ایک بہت قیمتی انسان کی رائے تھی کہ اس خط کو چھاپا جائے کہ شاید کسی کے کام آجائے!

پیاری امی!
آپ کی خیریت تو معلوم ہوتی ہی رہتی ہے مگر میں جانتی ہوں کہ آپ میرے بارے میں نہیں معلوم کرپاتیں  تو سوچا آج آپ کو خط لکھ کر اپنی خیریت سے آگاہ کردوں۔   میں یہاں بالکل بخیر ہوں۔ مرضی کی زندگی گزارتی ہوں۔ سونے جاگنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اٹھنے کھیلنے پر بھی کوئی نہیں ٹوکتا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ چاہتی تھیں کہ دوسری ماؤں کی طرح آپ بھی کھانا لے کر میرے پیچھے پیچھے بھاگیں اور میں منہ بسورے آگے آگے دوڑتی رہوں مگر میں اس سے پہلے ہی یہاں پہنچ گئی ہوں جہاں مجھ پر کسی قسم کی کوئ  روک ٹو ک نہیں ہے! سنا ہے مائیں اولاد کی خوشی میں خوش رہتی ہیں خواہ وہ خوشی انہیں خود کتنی ہی تکلیف یا تھکن دے جاتی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو آپ بھی میرے لئے بہت خوش ہوں گی نا؟
پیاری امی! میں جانتی ہوں کہ میں نے آنے میں جلدی کردی اور آپ یہ امی لفظ میرے منہ سے سننا چاہتی تھیں مگر سنا نہیں سکی تو سوچا پڑھا ہی دوں۔ خط بھی تو آدھی ملاقات ہی ہوتی ہے نا۔  آج باقی بچوں کے ساتھ بیٹھی کھیلتے کھیلتے مجھے ایک بار پھر آپ کی یاد آگئی تو سوچا کہ کھیلنے کو تو عمر پڑی ہے پہلے آپ سے مخاطب ہوجاؤں۔
پیاری امی! میرا آپ کا ساتھ بہت مختصر تھا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اس مختصر ساتھ میں بھی میں نے آپ کو بہت اذیت دی تھی۔ دن بھر مجھے اٹھائے گھومنے کے بعد جب آپ سونے لیٹتیں تو میرے جاگنے کا وقت ہو جاتا۔ دن کا چین اور رات کا آرام سب اکارت کر رکھا تھا میں نے مگر آپ چڑچڑاہٹ ہونے کے باوجود کبھی مجھ پر غصہ نہیں ہوتی تھیں۔ میرا غصہ سارا بابا پر نکلتا تھا اور اکثر اوقات تو آپ بابا پر بھی نہیں نکالتی تھیں۔ ضبط کر جاتی تھیں۔  مجھے آپ کی یہ ضبط کرنے کی عادت کبھی بھی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ جو آپ کو لگتا تھا کہ میں کھیل میں لاتیں چلا رہی ہوں وہ دراصل میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہوتی تھی۔  مجھے سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ آپ اتنا کچھ کیسے برداشت کرلیتی تھیں۔  خیر وہ وقت بھی ان ہی سب ہلکی پھلکی باتوں میں گزر گیا۔ ہلکی پھلکی میرے لئے کہ میں تو اپنے سوئمنگ پول میں مزے سے تیرا کرتی تھی۔ اگر وہ وقت سخت تھا بھی تو آپ کے لئے تھا۔
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا اور  میری آپ کو دیکھنے کی خواہش دن بدن شدت اختیار کرتی چلی گئی۔  میں آپ کو سن سکتی تھی۔ آپ کی سوچوں کو محسوس کرسکتی تھی۔ مگر میں اب آپ کو چھونا چاہتی تھی۔ آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کے رحم سے نکل کر آپ کی آغوش میں آنا چاہتی تھی۔  اور جب وہ دن آیا جب میں آپ کو بالآخر دیکھ سکتی تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے واپس وہیں جانا ہے جہاں سے میں آپ کے پاس بھیجی گئی ہوں۔
مجھے جب یہ خبر ملی تو  میں آپ کے لئے بہت پریشان تھی۔ آپ نے اتنا عرصہ مشقت کرکے مجھے پالا تھا۔ میں چھوٹی تھی مگر اتنا شعور رکھتی تھی کہ آپ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ اتنی محبت جتنی کبھی آپ نے خود اپنے آپ سے بھی نہیں کی تھی۔ اتنی محبت جتنی کوئی بڑے سے بڑا ادیب بھی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
میں نے اپنے بنانے والے، آپ کے پاس مجھے بھیجنے والے، اور پھر مجھے آپ کے  پاس  سے واپس بلانے والے اللہ میاں سے پوچھا کہ میرے بعد آپ کا کیا ہوگا؟  انہوں نے کہا کہ آپ کو وہ میری جگہ کچھ اور دے دیں گے۔ اس دن مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ میں بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی تھی۔ میری جگہ کسی اور کا آجانا مجھے اس وقت بہت برا محسوس ہورہا تھا۔ میں رو پڑی تھی۔ تب مجھے سمجھایا گیا کہ اب میری جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ میرے بعد خواہ ایک ہو یا پانچ یا دس۔ سب سے پہلی اب صرف میں ہی کہلاؤں گی! میرے بعد والے سب اپنی جگہ اچھے ہوں گے مگر آپ کے دل میں میرے لئے جو جگہ ہے وہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ میرے لئے یہ اطمینان بہت تھا۔ میں نے اپنے بنانے والے کے حکم پر سر جھکا دیا اور یہاں چلی آئی۔
پیاری امی! یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنے سارے وعدے پورے کردیئے۔ میں اچھے سے اچھا کھاتی ہوں۔ اچھے سے اچھا پہنتی ہوں۔ جو جی چاہتا ہے کرتی ہوں۔ میری عمر کے سارے بچے جب ریں ریں کر رہے ہوتے ہیں تو میں گنگناتی پھرتی ہوں۔ میں نے ان سے وعدہ لیا ہے کہ جب کبھی ہماری ملاقات ہوئی تو آپ کی اس تکلیف کے بدلے میں آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو اپنے ساتھ اس جگہ لے آؤں گی جہاں کوئی کبھی نہیں روتا۔ جہاں آپ کی خدمت پر ہر وقت لوگ مامور رہیں گے۔ جہاں آپ کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔  مگر امی! میرے یہ سب کرنے کے باوجود اور یہ تمام چیزیں ہوجانے کے باوجود میں خوش نہیں ہوں۔ یہاں اداس ہونے کا تصور نہیں ہے سو جب کوئی مجھے دیکھتا ہے تو حیران ہوجاتا ہے کہ میں یہاں آکر بھی اداس کیسے ہوسکتی ہوں؟ مگر امی! خود بتائیں کہ جب کبھی میں خدا سے درخواست کرکے آپ کا احوال معلوم کرتی ہوں اور مجھے ایک تھکی ہوئی، اداس، ٹوٹی ہوئی ماں دکھتی ہے تو میں کیسے مسکرا سکتی ہوں۔ آپ کو شاید آج بھی یہ احساس نہیں ہے کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ آپ کے آنسو اور آپ کی تکلیف بھی میرے لئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنی میری تکلیف آپ کے لئے تھی۔
والسلام

ہمیشہ کے لئے آپ کی بیٹی

بلاگ فالوورز

آمدورفت