پیر، 26 ستمبر، 2016

شعور

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔
میر ا  نام عاطف علی ہے اور میں سڑک کے کنارے اپنے باپ کا چھوڑا ہوا کتابوں کا ٹھیہ لگاتا ہوں۔کہنے کو میری عمر ابھی لکھنے پڑھنے کی ہے ۔ مگرتمباکو نوشی کی زیادتی آج سے تین سال پہلے میرے باپ کو کھا گئی تھی اوربیوہ ماں اور باقی چھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بڑا ہونے کے ناطے مجھ پر آن پڑی تھی۔  مجھ سے چھوٹی دو بہنیں تھیں جو گھر میں اماں کے ساتھ سلائی میں ہاتھ بٹاتی تھیں  اور ان کے بعد جو دو بھائی اور دو بہنیں تھے وہ ابھی اتنے چھوٹے تھے کہ کچھ کر نہیں سکتے تھے سو پورا دن گھر میں ادھم مچاتے تھے۔ ابا کے مرنے سے پہلے میں پہلے ایک ورکشاپ پر کام کر رہا تھا مگر وہاں کا ماحول مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا لہٰذا ابا کے جانے کے بعد میں نے ورکشاپ چھوڑ کر یہ ٹھیہ سنبھال لیا تھا۔ 
کتابوں کا کام بھی ہوائی روزی تھی۔ جہاں میرا ٹھیہ واقع تھا وہاں قطار سے آٹھ دیگر کتب فروش موجود تھے۔ ہم سب اٹھتے بیٹھتے  روزانہ یہی دعا کرتے تھے کہ کسی انگریز لکھاری کی کوئی نئی کتاب آجائے تو ہماری دکان بھی چل سکے ورنہ سارا سال محض نصاب کی کتب یا مشہور انگریزی کتابوں کی استعمال شدہ کاپیوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا اور ان پر مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے بچت بہت کم ہوپاتی تھی۔ باقی دکانداروں کی طرح میں خود بھی اس کام سے مطمئن نہیں تھا مگر واپس ورکشاپ جانے کا تصور اور استاد کا بہانے بہانے سے پیچھے والے اسٹور روم میں لے جانا یاد کرتا تو جھرجھری لے کر ایسے کسی بھی خیال کو ترک کردیتا تھا۔شاید باقی دکاندار بھی ماضی میں کسی ورکشاپ میں کام کر چکے تھے اس لئے ہم سب ہی سالہاسال سے تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے ٹھیے خالی کرنے پر تیار نہیں تھے۔
میں روزانہ صبح گیارہ بجے ٹھیہ سجا لیتا تھا  مگر  گاہکوں کے آنے کا وقت جامعات کی چھٹی کے بعد ایک گھنٹے یا دفاتر سے واپسی میں رکنے والے چند مخصوص سنکیوں کا ہی تھا جو آج کے زمانے میں بھی کتاب سے شغف رکھتے تھے اور نئی کتاب خریدنے کی استظاعت نہ رکھنے کی وجہ سے آتے جاتے ہمارے پاس  رک جاتے تھے۔ باقی دکاندار تو وقت بتانے کے لئے ٹھنڈے وقت میں ایک دوسرے  سے ہنسی مذاق کرکے گزار لیتے تھے مگر میری عمر محض سولہ سال ہونے کی وجہ سے مجھے اس گفتگو سے باہر رکھا جاتا تھا۔ کرنے کو کوئی اور کام ہوتا نہیں تھا سو میں نے اپنے ہی ٹھیے پر برسوں سے نئے قاری کی منتظر کچھ اردو ادب کی کتابیں کھنگالنی شروع کردیں۔ اردو ادب پڑھنے کی دو ہی وجوہات تھیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ کہ یہ کتابیں پچھلے تین سال سے کہ جب سے میں اس ٹھیے پر تھا، وہیں موجود تھیں اور آج تک ان کا کوئی قاری پیدا نہیں ہوا تھا۔ خدا جانے ابا نے کیا سوچ کر انہیں خریدا تھا اور خدا جانے میرے ٹھیہ سنبھالنے سے پہلے بھی وہ کتنے ہی سال یہاں گزار چکی تھیں۔ سو اگر میں انہیں نہ پڑھتا تو بھی وقت کے ساتھ وہ مزید سالخوردہ ہو رہی تھیں اور شاید کچھ عرصے بعد اتنی گل جاتیں کہ پڑھنے کے لائق بھی نہ رہتیں۔  دوسری وجہ یہ تھی کہ سرکاری اسکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد مجھے اردو پڑھنی تو آگئی تھی مگر انگریزی پڑھنا بہرحال ایک مشکل کام تھا۔
میں ان دنوں اماں کے بڑھتے ہوئے تقاضوں سے شدید پریشان تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری بہنیں بانس کی طرح بڑھ رہی ہیں لہٰذا مجھے آمدنی بڑھانی چاہئے تاکہ وہ ان کے جہیز کے لئے کچھ رقم پس انداز کرسکیں ورنہ بغیر باپ کی بچی کا ہاتھ تھامنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوگا کہ پتہ نہیں جہیز دے پائیں گے یا نہیں۔  سو بستی میں لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ابھی سے بہنوں کے لئے مال جمع کر رہے ہیں تاکہ وقت پر ان کے لئے ڈھنگ کے رشتے آ سکیں۔ دوسری فکر اماں کو دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کی لاحق تھی جو پورا دن محلے میں کھمبے پیٹا کرتے اور گولیاں کھیلتے تھے۔اماں چاہتی تھیں کہ وہ اور کچھ نہیں تو سرکاری اسکول ہی جانا شروع کردیں ورنہ جیسے میں بچپن میں ورکشاپ بھیجا گیا تھا ویسے ہی کم از کم بھائیوں کو بھی کسی ورکشاپ میں ڈال دیا جائے۔ میں ان دونوں ہی چیزوں کا مخالف تھا۔ میرا ماننا تھا کہ اسکول بچوں کو تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے اور سرکاری اسکول میں پڑھ کر میں جان گیا تھا کہ جس قسم کی تربیت وہاں ان بچوں کو ملے گی اس سے بہتر ہے وہ محلے میں گولیاں کھیل لیں۔ اور ورکشاپ بھیجنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان سب مسائل کا واحد حل یہ تھا کہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے تاکہ بہنوں کے لئے رقم جوڑی جا سکے اور بھائی کسی سستے ہی سہی مگر پرائیوٹ اسکول میں جا سکیں جہاں کم از کم سرکاری اسکول جیسا برا حال نہ ہو۔ مگر یہ آمدنی میں اضافے کا سوال اتنا گنجلک تھا کہ میں بہت کوشش کے باوجود  اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
ان ہی پریشانیوں کے دنوں میں وہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔ تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی اس کتاب میں بہت سے افسانے مرقوم تھے۔ باقی ساری کہانیاں میرے لئے غیر اہم تھیں مگر اس ایک کہانی پر میرا دماغ اٹک کر رہ گیا جس میں مہاجر کیمپ کے باہر دو خواتین چھابڑی  لگا کر پکوڑے بیچا کرتی تھیں اور پھر ایک نیک انسان ان پر ترس کھا کر انہیں اپنے ساتھ موٹر میں بٹھا کر لے جاتا ہے اور واپسی میں انہیں اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ جن سے ان کا ہفتہ سکون سے نکل جائے۔ کہنے کو یہ بھی تقسیم سے جڑی ہوئی تمام کہانیوں ہی کی طرح ایک کہانی تھی مگر یہ کہانی مجھ پر شعور کے نئے در وا کر گئی۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑی مونچھوں والا روز میرے ہی ٹھیے کے سامنے گاڑی کیوں روکتا ہے اور کیوں کبھی گاڑی سے اترنے کی زحمت کیئے بغیر بس میرے ٹھیے کی جانب دیکھتا ہی رہتا ہے۔ اور کیوں جب میں نے پہلی مرتبہ اس کی گاڑی کی جانب جاکر اس سے پوچھنا چاہا تھا تو برابر والے غفور چاچا نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے کسی بھی گاڑی کی طرف جا کر کتاب بیچنے سے سختی سے منع کردیا تھا۔  اس کہانی کو پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ تقسیم کے ہنگامے آج تک تھمے نہیں تھے۔ کرداروں کے نام تبدیل ہوگئے تھےمگر کہانی آج بھی وہی تھی۔  موٹر والوں کی جگہ ان کی اولاد  یا پھر اس اولاد کی اولاد لے چکی تھی اور چھابڑی والیوں کی جگہ ان کی بیٹیاں اور ان کی بیٹیوں کی بیٹیاں آ گئی تھیں۔اور آج پھر جب ایک گاڑی میرے ٹھیے کے سامنے رکی تو  مجھے معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا تھا۔ میں نے غفور چاچا سے ٹھیے کا خیال رکھنے کو کہا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
بمشکل دو گھنٹے بعد ہی میں واپس اپنے ٹھیے پر موجود تھا۔ غفور چاچا نے مجھے دیکھا تو غصہ کرنے کا ناٹک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے  مسکرا کر ان کی سمت دیکھا اور ٹھیے کے اسٹول پر بیٹھ کر تقسیم کے ہنگاموں پر لکھی ہوئی وہ کتاب اٹھا کر دوبارہ پڑھنا شروع ہوگیا۔

کون کہتا ہے کہ تعلیم انسان کو شعور نہیں دیتی یا شعور انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا؟ جیب میں بھرے نوٹوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے  جب یہ سوچ میرے دماغ میں آئی تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں جان گیا تھا کہ اب گھر میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اور میرے چھوٹے بہن بھائی اب دوبارہ اسکول جا سکیں گے۔ 

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت