ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

نباض

ادیب معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی خبر سب سے پہلے اسے ہوتی ہے۔ اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔
اچھے عالم کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بروئے کار لاتا ہے اس لئے میں بھی اکثر راہ چلتے لوگوں کو دیکھ کر ان کی نفسیات پڑھنے  کی کوشش کرتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے مجھے سڑک کے کنارے ایک فاحشہ کھڑی نظر آئی تھی۔ چست کپڑے  پہن کر ہر گزرتی گاڑی کو وہ جس طرح سےدیکھ رہی تھی اس سے مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کس طرح کسی بھی گاڑی کو روک کر اس میں بیٹھ جائے۔  لڑکی قبول صورت تھی اور ویسے بھی جس صورت میں یہ  خواتین ہم مرد حضرات کو درکار ہوتی ہیں اس میں ہر طرح کی صورت قبول ہوتی ہے۔ تو میں نے بھی فقط انسانی ہمدردی کے تحت موٹرسایکل گھمائی مگر برا ہو اس لمبی داڑھی والے جوان کا جو مجھ سے پہلے اس تک پہنچ چکا تھا اور اب وہ فاحشہ گاڑی کی کھلی کھڑکی میں جھک کر اس سے بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف تھی۔  میں اسے دیکھتے ہی سمجھ چکا تھا کہ یہ مطلبی عورت محض وقت کا زیاں تھی اور ویسے بھی میرے پاس بازاری عورتوں کے لئے نہ وقت تھا نہ ان پر لٹانے کے لئے پیسے سو میں نے موٹر سائیکل آگے بڑھا دی۔
میں تھوڑا ہی آگے گیا ہوں گا کہ وہی لمبی داڑھی والا جوان میرے برابر میں سے گاڑی دوڑاتا ہوا گزرا جس کی آگے والی نشست پر وہی لڑکی براجمان تھی۔ نفسیات دان ہونے کے ناطے میں  اس جوان کی شکل دیکھتے ہی جان گیا تھا کہ ہوس اس پر بری طرح سوار تھی۔ جس برق رفتاری سے وہ میرے برابر سے گزرا تھا وہ بتا رہی تھی کہ اب اسے ضبط کا یارا نہیں رہا تھا۔ وہ منزل تک پہنچ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔  میں نے دل ہی دل میں اس کے حلیے اور اس کی حرکات پر ایک قہقہ لگایا اور اپنی توجہ واپس سڑک پر مبذول کردی۔
تھوڑا آہی گے گیا  ہوں گا تو اشارے پرمجھے وہی گاڑی رکی ہوئی نظر آئی۔ موٹر سائیکل کے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں گاڑیوں کے بیچ سے ہوتا ہوا اس گاڑی کے قریب پہنچ گیا اور جب اشارہ کھلا تو میں نے بھی اس گاڑی کے ساتھ ہی موٹر سائیکل دوڑانی شروع کردی۔ پانچ سات منٹ کے سفر کے بعد گاڑی ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئی تو میں بھی تماشہ دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہی داخل ہوگیا۔ میں  نے سوچ لیا تھا کہ ان دونوں کو ایک ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑوں گا تو خوب تماشہ رہے گا۔ داڑھی کے پیچھے چھپے اس مکروہ چہرے کو لوگوں کے سامنے لانا مجھ ایسے ادیبوں کا ہی تو کام تھا۔
گاڑی رہائشی علاقے میں ہوتی ہوئی ایک گلی میں جا کر کھڑی ہوئی تو میں نے بھی پیچھے ہی اس گلی کے نکڑ پر موٹر سائیکل روک دی اور ان دونوں کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ توقع کے برعکس اس جوان نے گاڑی بند نہیں کی اور نہ ہی گاڑی سے اترا۔ لڑکی البتہ اتر کر گھر کے اندر چلی گئی اور وہ جوان گھر کے باہر ہی انتظار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر تک تو میں بھی وہیں نکڑ پر کھڑا اس معاملے کے آگے بڑھنے کا انتظار کرتا رہا مگر پھر نجانے کہاں سے اس محلے کے چند لونڈے نکل آئے جو مجھے مشکوک نظروں سے گھورنے لگے۔ میں تماشہ بنانے آیا تھا سو خود تماشہ بننے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے خاموشی سے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور اس کالونی کے گیٹ پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ 
کالونی کے دروازے پر مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں وہی گاڑی  ایک بار پھر کالونی سے باہر آتی دکھائی دے گئی۔  اس بار وہ لڑکی اپنے ساتھ ایک اور لڑکی کو بھی لے آئی تھی جو سیاہ شیشوں کے باوجود عقبی نشست پر بیٹھی نظر آرہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ  مولوی کی ہوس ایک عورت سے پوری نہیں ہوسکتی تھی اس لئے وہ لڑکی اسے اپنے ساتھ کوٹھے پر لے آئی تھی اور اب یہاں سے ایک اور لڑکی کو لے کر وہ دونوں مولوی کے گھر جا رہے تھے۔ میں نےتو سوچ  ہی لیا تھا کہ اس کہانی کا انجام دیکھ کر ہی جاؤں گا سو میں نے ایک بار پھر تعاقب شروع کردیا۔
اس بار یہ تعاقب بہت زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا۔ چند ہی لمحوں کے بعد گاڑی اس رہائشی کالونی سے متصل ایک بازار میں جاکر کھڑی ہوگئی ۔ پرانی والی لڑکی جب گاڑی سے اتری تو میں سمجھ گیا کہ پیسوں کی وجہ سے  اب دو کا معاملہ نہیں بن پایا ہے سو مولوی نے دوسری والی کو پسند کرکے اس پہلی والی کو اتار دیا ہے۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے میں نے جلدی سے جاکر گاڑی کے قریب میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر دی  اور اس مولوی کی طرف لپکا جو اس فاحشہ سے کچھ بات کر رہا تھا۔
جب میں ان دونوں کے قریب پہنچا تو وہ فاحشہ اس ٹھرکی مولوی سے کہہ رہی تھی کہ بھائی! میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ آپ کو دے سکوں اور اگر ہوتے بھی اور میں آپ کو دے بھی دیتی تو آپ کا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتی تھی۔ رکشہ مل نہیں رہا تھا اور اگر اسے اب بھی یہاں ڈاکٹر کے پاس نہ لاتی تو اس کا بخار اور بڑھ جاتا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دوسری لڑکی جو شکل سے اس پہلی کی بڑی بہن ہی لگ رہی تھی کاندھے سے ایک بچے کو لگائے دوڑتی ہوئی سامنے واقع ڈاکٹر کے کلینک کی سمت جارہی تھی۔

میں خود کو کوستے ہوئے واپس موٹر سائکل کی جانب بڑھ گیا۔ ادیب تو  معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔اور چونکہ وہ  معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا انسانی نفسیات کا سب سے بڑا عالم بھی ادیب ہی ہوتا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بازاری عورت نرا وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ فالتو میں ایک لیٹر پیٹرول ضائع کروا دیا۔ لعنتی!

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت