پیر، 5 ستمبر، 2016

امی کے نام ایک خط

نوٹ: میں اس تحریر کو چھاپنے کے حق میں نہیں تھا مگر ایک بہت قیمتی انسان کی رائے تھی کہ اس خط کو چھاپا جائے کہ شاید کسی کے کام آجائے!

پیاری امی!
آپ کی خیریت تو معلوم ہوتی ہی رہتی ہے مگر میں جانتی ہوں کہ آپ میرے بارے میں نہیں معلوم کرپاتیں  تو سوچا آج آپ کو خط لکھ کر اپنی خیریت سے آگاہ کردوں۔   میں یہاں بالکل بخیر ہوں۔ مرضی کی زندگی گزارتی ہوں۔ سونے جاگنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اٹھنے کھیلنے پر بھی کوئی نہیں ٹوکتا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ چاہتی تھیں کہ دوسری ماؤں کی طرح آپ بھی کھانا لے کر میرے پیچھے پیچھے بھاگیں اور میں منہ بسورے آگے آگے دوڑتی رہوں مگر میں اس سے پہلے ہی یہاں پہنچ گئی ہوں جہاں مجھ پر کسی قسم کی کوئ  روک ٹو ک نہیں ہے! سنا ہے مائیں اولاد کی خوشی میں خوش رہتی ہیں خواہ وہ خوشی انہیں خود کتنی ہی تکلیف یا تھکن دے جاتی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو آپ بھی میرے لئے بہت خوش ہوں گی نا؟
پیاری امی! میں جانتی ہوں کہ میں نے آنے میں جلدی کردی اور آپ یہ امی لفظ میرے منہ سے سننا چاہتی تھیں مگر سنا نہیں سکی تو سوچا پڑھا ہی دوں۔ خط بھی تو آدھی ملاقات ہی ہوتی ہے نا۔  آج باقی بچوں کے ساتھ بیٹھی کھیلتے کھیلتے مجھے ایک بار پھر آپ کی یاد آگئی تو سوچا کہ کھیلنے کو تو عمر پڑی ہے پہلے آپ سے مخاطب ہوجاؤں۔
پیاری امی! میرا آپ کا ساتھ بہت مختصر تھا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اس مختصر ساتھ میں بھی میں نے آپ کو بہت اذیت دی تھی۔ دن بھر مجھے اٹھائے گھومنے کے بعد جب آپ سونے لیٹتیں تو میرے جاگنے کا وقت ہو جاتا۔ دن کا چین اور رات کا آرام سب اکارت کر رکھا تھا میں نے مگر آپ چڑچڑاہٹ ہونے کے باوجود کبھی مجھ پر غصہ نہیں ہوتی تھیں۔ میرا غصہ سارا بابا پر نکلتا تھا اور اکثر اوقات تو آپ بابا پر بھی نہیں نکالتی تھیں۔ ضبط کر جاتی تھیں۔  مجھے آپ کی یہ ضبط کرنے کی عادت کبھی بھی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ جو آپ کو لگتا تھا کہ میں کھیل میں لاتیں چلا رہی ہوں وہ دراصل میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہوتی تھی۔  مجھے سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ آپ اتنا کچھ کیسے برداشت کرلیتی تھیں۔  خیر وہ وقت بھی ان ہی سب ہلکی پھلکی باتوں میں گزر گیا۔ ہلکی پھلکی میرے لئے کہ میں تو اپنے سوئمنگ پول میں مزے سے تیرا کرتی تھی۔ اگر وہ وقت سخت تھا بھی تو آپ کے لئے تھا۔
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا اور  میری آپ کو دیکھنے کی خواہش دن بدن شدت اختیار کرتی چلی گئی۔  میں آپ کو سن سکتی تھی۔ آپ کی سوچوں کو محسوس کرسکتی تھی۔ مگر میں اب آپ کو چھونا چاہتی تھی۔ آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کے رحم سے نکل کر آپ کی آغوش میں آنا چاہتی تھی۔  اور جب وہ دن آیا جب میں آپ کو بالآخر دیکھ سکتی تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے واپس وہیں جانا ہے جہاں سے میں آپ کے پاس بھیجی گئی ہوں۔
مجھے جب یہ خبر ملی تو  میں آپ کے لئے بہت پریشان تھی۔ آپ نے اتنا عرصہ مشقت کرکے مجھے پالا تھا۔ میں چھوٹی تھی مگر اتنا شعور رکھتی تھی کہ آپ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ اتنی محبت جتنی کبھی آپ نے خود اپنے آپ سے بھی نہیں کی تھی۔ اتنی محبت جتنی کوئی بڑے سے بڑا ادیب بھی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
میں نے اپنے بنانے والے، آپ کے پاس مجھے بھیجنے والے، اور پھر مجھے آپ کے  پاس  سے واپس بلانے والے اللہ میاں سے پوچھا کہ میرے بعد آپ کا کیا ہوگا؟  انہوں نے کہا کہ آپ کو وہ میری جگہ کچھ اور دے دیں گے۔ اس دن مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ میں بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی تھی۔ میری جگہ کسی اور کا آجانا مجھے اس وقت بہت برا محسوس ہورہا تھا۔ میں رو پڑی تھی۔ تب مجھے سمجھایا گیا کہ اب میری جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ میرے بعد خواہ ایک ہو یا پانچ یا دس۔ سب سے پہلی اب صرف میں ہی کہلاؤں گی! میرے بعد والے سب اپنی جگہ اچھے ہوں گے مگر آپ کے دل میں میرے لئے جو جگہ ہے وہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ میرے لئے یہ اطمینان بہت تھا۔ میں نے اپنے بنانے والے کے حکم پر سر جھکا دیا اور یہاں چلی آئی۔
پیاری امی! یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنے سارے وعدے پورے کردیئے۔ میں اچھے سے اچھا کھاتی ہوں۔ اچھے سے اچھا پہنتی ہوں۔ جو جی چاہتا ہے کرتی ہوں۔ میری عمر کے سارے بچے جب ریں ریں کر رہے ہوتے ہیں تو میں گنگناتی پھرتی ہوں۔ میں نے ان سے وعدہ لیا ہے کہ جب کبھی ہماری ملاقات ہوئی تو آپ کی اس تکلیف کے بدلے میں آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو اپنے ساتھ اس جگہ لے آؤں گی جہاں کوئی کبھی نہیں روتا۔ جہاں آپ کی خدمت پر ہر وقت لوگ مامور رہیں گے۔ جہاں آپ کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔  مگر امی! میرے یہ سب کرنے کے باوجود اور یہ تمام چیزیں ہوجانے کے باوجود میں خوش نہیں ہوں۔ یہاں اداس ہونے کا تصور نہیں ہے سو جب کوئی مجھے دیکھتا ہے تو حیران ہوجاتا ہے کہ میں یہاں آکر بھی اداس کیسے ہوسکتی ہوں؟ مگر امی! خود بتائیں کہ جب کبھی میں خدا سے درخواست کرکے آپ کا احوال معلوم کرتی ہوں اور مجھے ایک تھکی ہوئی، اداس، ٹوٹی ہوئی ماں دکھتی ہے تو میں کیسے مسکرا سکتی ہوں۔ آپ کو شاید آج بھی یہ احساس نہیں ہے کہ محبت یکطرفہ نہیں تھی۔ آپ کے آنسو اور آپ کی تکلیف بھی میرے لئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنی میری تکلیف آپ کے لئے تھی۔
والسلام

ہمیشہ کے لئے آپ کی بیٹی

1 تبصرہ :

بلاگ فالوورز

آمدورفت