اتوار، 23 اکتوبر، 2016

(اس عنوان پر) آخری نظم

مجھے معلوم ہے تم منتظر ہو
کہ ہر سال گذشتہ کی طرح سے
رسم اک بار پھر دہرائی جائے
تخیل کی حسیں وادی میں جا کر
خیالی وصل کے لمحوں کی راحت
وفا کے باب کے سارے فسانے
مثالی اک تعلق سوچ کر میں
حسیں الفاظ کے قالب میں ڈھالوں
تمہارے نام پہ غزلیں تراشوں
حسیں عنوان کے روشن سے قصے
تمہارے نام سے منسوب کر کے
جہاں کو پھر سے یہ احساس دوں کہ
یہ رشتہ کس قدر کا معتبر ہے ۔۔۔۔


میری جاں اب مگر میں تھک چکا ہوں


یہ چوبیس سال کی دوری ہے جاناں)
(قرار واقعی میں تھک چکا ہوں


میں لکھوں کس طرح تم ہی بتائو
گذشتہ شب سے ہی یہ سانحہ ہے
تخیل کی بلندی سرنگوں ہے
قلم اب تاب کھوتا جا رہا ہے
فقط الفاظ باقی رہ گئے ہیں
ہر ایک احساس مٹتا جا رہا ہے


میں تیرے ساتھ اس دن مر گیا تھا
اور اب اندر کا شاعر مر گیا ہے


سید عاطف علی

23-Oct-2013

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

ادیب - 4

اگر وہ واقعی اتنا ہی کھڑوس ہوا تو کیا ہوگا؟ گھر کے دروازے پر کھڑے ہوئے یہ سوال ایک بار پھر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا مگرمیں نے ہمت جمع کرتے ہوئے اطلاعی گھنٹی بجا  ہی دی۔ مجھے انتظار نہیں کرنا پڑا تھا  اور چند ہی لمحوں میں میں ایک لائبریری نما کمرے میں موجود تھا۔ کمرا بھی اس  کی تحاریر ہی کی طرح عجیب تھا۔ تمباکو کی سوندھ کمرے میں گویا رج چکی تھی۔ کتابیں اپنی الماریوں سے زیادہ میز پر موجود تھیں گویا پڑھنے کے بعد انہیں واپس رکھنے کی زحمت نہیں کی گئی ہو۔ دیواروں پر جابجا تصاویر موجود تھیں مگر ان میں سےکوئی ایک بھی مکمل نہیں تھی۔ گویا تصویر تخلیق پاتے ہوئے درمیان میں ہی مصور کی توجہ کھو چکی ہو اور دنیا میں اگر کوئی انسان اس نامکمل  تخلیق کو اپنا سکتا یا اسے اپنے کمرے کی دیوار پر سجا سکتا تھا تو وہ یہی تھا۔  کمرے میں گرد کے آثار موجود نہیں تھے گویا وہاں باقاعدگی سے صفائی ہوتی ہو مگر گرد کی غیر موجودگی کے باوجود  یہ بے ترتیبی اس بات کی عکاس تھی کہ صاحبِ خانہ کو گندگی اور ترتیب دونوں ہی سے چڑ تھی۔ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے میں اطراف کا جائزہ لے رہا تھا اور سنے گئے تمام تجزیے بالکل درست ثابت ہورہے تھے۔

وہ اپنے وقت کا ایک مشہور ادیب تھا۔ ایسا ہمارے جریدے کے مدیر کا ماننا تھا۔ شاید جو لوگ اسے جانتے ہوں ان میں وہ مشہور رہا بھی ہو مگر میں نے آج سے ایک ہفتے پہلے تک اس کا نام تک نہیں سنا تھا۔ اور شاید آگے بھی نہ سنتا اگر مدیر صاحب نے مجھے اس کا انٹرویو کرنے کا حکم نامہ نہ سنایا ہوتا۔  دراصل مدیر صاحب خود کسی زمانے میں اس کے قاری رہ چکے تھے اور چونکہ اب برسوں سے اس نے لکھنا ترک کر دیا تھا  سو وہ چاہتے تھے کہ میں جاکر انٹرویو کے بہانے اس کے قلم چھوڑ دینے کی وجہ دریافت کروں۔ بقول انکے وہ کئی برسوں سے اس انٹرویو کی کوشش کر رہے تھے اور اب جب انہیں کامیابی مل گئی تھی تو وہ چاہتے تھے کہ ان کا بہترین صحافی جاکر اس کارخیر کو انجام دے اس لئے یہ بلا میرے سر منڈھ دی گئی تھی۔

میری عادت تھی کہ میں کسی بھی انٹرویو میں جانے سے پہلے اس شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرلیتا ہوں۔ وقت کے ساتھ  ادارے میں میرا مقام اتنا بلند ہوچکا تھا کہ میں صرف مشہور شخصیات کے انٹرویو ہی لے رہا ہوتا تھا سو بالعموم یہ معلومات بآسانی بہم ہو جاتی تھیں۔ اس ادیب کا معاملہ مگر مختلف تھا۔ ایک تو ادیب اور اوپر سے اردو زبان کا۔ معاشرے میں بیکار لوگوں سے تعلقات رکھنے کا رواج اب تقریبا ناپید ہوچکا تھا سو ایسے لوگوں کے دوست بھی ڈھونڈنےسے ملتے ہین اور بسا اوقات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔  بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جہاں سے معلومات کروانے پر کچھ لوگ ضرور سامنے آئے جو اس ادیب کو جاننے کے دعویدار تھے مگر ان کا سامنے آنا معاملے کو اور گنجلک کرگیا۔ ہر دوسرا شخص اس کے بارے میں ایک یکسر نئی رائے لیکر سامنے آتا اور سب کا دعویٰ یہی ہوتا کہ باقی سب دھوکہ ہے اور مصنف کو جتنی اچھی طرح وہ جانتے ہیں ویسے کوئی نہیں جانتا۔ ایک بات پر البتہ سب متفق تھے کہ وہ ایک سفاک انسان ہے۔ کڑوا بولتا ہے اور اس سے بھی زیادہ کڑوا لکھتا ہے۔ لکھتا کیا ہے باقاعدہالفاظ کی قے کرتا  ہے۔

سوشل میڈیا سے ملنے والی ان معلومات نے میرے اندر ایک تجسس بھر دیا تھا اور اب میں باقاعدہ اس ملاقات کے دن گننے لگا تھا۔  آراء کا سلسلہ ملاقات والے دن تک جاری رہا اور آج میں سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں ایک شدید ٹھرکی، بے انتہا لالچی، حد کے کمینے، اور بلا کے سفاک وغیرہ قسم کی انسان نما مخلوق کا انٹرویو لینے اس کے گھر پر موجود تھا جہاں اس کی ملازمہ مجھے اس لائبریری نما کمرے میں بٹھا کر چلی گئی تھی اور اب میں کمرے میں ٹہلتا ہوا اس کا منتظر تھا۔

جب انتظار کرتے ہوئے کافی دیر ہوگئی تو میں ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔  ادھر ادھر نظریں دوڑاتے میری نظر اس تصویر پر جا کر ٹک گئی جس میں تمام انسان اوپر کی جانب حسرت سے دیکھ رہے تھے اور ان سب سے اوپر ایک انسان اکیلا بیٹھا اتنی ہی حسرت سے کاندھے سے کاندھا ملائے ان انسانوں کو دیکھ رہا تھا۔  اس انسانوں کے پہاڑ کے اوپر ایک بادل تھا اور بادل میں مصور نے ایک دریچہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر کچھ سوچ کر اس دریچے کو ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ابھی میں تصویر کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھاکہ پیچھے سے ایک بیزار کن آواز ابھری، ان تصاویر میں کچھ بھی نہیں دھرا ۔ جتنا غور تم لوگ تصاویر پر کرتے ہو اگر اس کی آدھی توجہ مصور کو دے دو تو شاید اس قسم کی تصاویر بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے! میں  نے مڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر انسان نشست میں دراز اپنا پائپ سلگا رہا تھا۔  میں نے لپک کر اسے سلام کیا اور اس کی سامنے والی نشست سنبھال لی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں اپنی زندگی کا سب سے دلچسپ انٹرویو کرنے جا رہا تھا۔ اس نے پائپ پر سے نظریں اٹھا کر مجھے ناپسندیدگی سے دیکھا گویا اسے میرا اپنے سامنے بیٹھنا پسند نہ آیا ہومگر منہ سے کچھ بولے بغیر دوبارہ اپنے پائپ کے ساتھ مشغول ہوگیا۔

ایک لحظے کو تو میں شدید کھسیانہ ہوکر رہ گیا تھا مگر میں نے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس سے بغیر اجازت بیٹھنے کی معذرت چاہی اور انٹرویو شروع کرنے کی اجازت طلب کر لی۔ میری معذرت سن کر اس کے چہرے پر تاثرات کچھ نرم ہوگئے اور اس نے رضامندی میں سر ہلا دیا گویا مجھے سوال کرنے کی اجازت دے رہا ہو۔ پچھلے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے میں نے آسان اور عام سوالات سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا اور اس سے اس کے بچپن ، ابتدائی تعلیم اور گھر والوں سے متعلق سوال کرلیا۔ اس نے پائپ سے ایک گہرا کش بھرا اور  دھویں کو ہوا میں اچھالتے ہوئے میری جانب مسکرا کر دیکھا اور بولا، صاحب! کیوں دونوں کا وقت برباد کرتے ہو؟ میرے بچپن سے جب مجھے خود کوئی دلچسپی نہیں تو کسی اور کو کیا ہوگی؟ اور ابتدائی تعلیم کا کیا؟ سوال یہ نہیں ہے کہ میری ماضی کی تعلیم کیا رہی ہے۔ سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ میں اس لمحہ موجود میں کس چیز کو برحق گردانتا ہوں؟  آپ انسان زبردستی کیوں دوسروں کو ان کے ماضی کے ساتھ نتھی کرنا چاہتے ہیں؟ جب ایک چیز خدا نے گزار دی تو آپ کیوں اسے دہرانے پر مصر رہتے ہیں؟  اگر وہ میرے حق میں اتنی ہی اچھی ہوتی تو یقین رکھیے میں خود اسے کبھی گزرنے نہیں دیتا۔ خیر اب مزید وقت ضائع نہ کیجئے۔ وہ سوال کیجئے جو آپ کرنے آئے ہیں۔


مسلسل توہین کی وجہ سے اب میرے کان سرخ ہوچکے تھے اور اب میں باقاعدہ ان کو کھولتا ہوا محسوس کرسکتا تھا۔ میں نے اسے اس کی طرح برتنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس سے پوچھ لیا کہ اس نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔  کمرے میں تھوڑی دیر کے لئے خاموشی رہی اور اس دوران وہ پائپ کے کش لگاتے ہوئے مجھے نظروں میں تولنے کی کوشش کرتا رہا۔ اب مجھے اپنا آپ نہایت بچکانہ اور احمق محسوس ہورہا تھا اور میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اس کی آنکھیں نوچ ڈالوں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی بچہ اپنے باپ کے سامنے موجود ہو اور کوئی احمقانہ سوال کر بیٹھا ہو اور اب اس کا باپ سوچ رہا ہو کہ اس کی اس حماقت کا جواب کس طرح دیا جائے۔  غیر اضطراری طور پر میں نے اپنا موبائل فون جیب سے نکال لیا اور پڑھے ہوئے پیغامات کو دوبارہ دیکھنے لگا۔ میں تھوڑی دیر کے لئے بھلا دینا چاہتا تھا کہ میں کہاں اور کیوں موجود ہوں۔ وہ شاید میری کیفیت بھانپ گیا تھا اس لئے گلا کھکار کر گویا ہوا، کیونکہ تم انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز بغیر مانگے مل جائے تو تم لوگ کبھی اس کی قدر نہیں کرتے۔ تم وہ لوگ ہو جو مخلوق کی قدر کرنا نہیں سیکھ سکے تو خالق کی قدر کرنا کیا جانو گے؟  تم شاید سوچ رہے ہوگے کہ ادیب تو اپنے لئے لکھتا ہے تو معاشرے کا اس کی تحاریر کو قبول کرنا نہ کرنا یا سمجھنا نہ سمجھنا اس کے لئے کیوں اہم ہوگیا تو جان رکھو کہ بھوک میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میں بھوکا نہیں ہوں۔ عورت کی حق تلفی پر میں کیوں روؤں؟ میں تو مرد ہوں۔ ادباء اور شعراء کی ناقدری پر میں کیوں لکھوں؟ میں ساری عمر کبھی بھی ان میں سے ایک تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور جب تم یہ سب مانتے ہو تو یہ بھی مان لو کہ میں اپنے لئے نہیں لکھتا۔ اور جب میں تمہارے لئے لکھتا ہوں تو اگر میں لکھتا رہتا اور ساری عمر بھی لکھتا رہتا تو بھی تم لوگ کبھی اس پر کان نہیں دھرتے۔ منٹو اور ایلیا کا پیغام پھیلنے کے لئے منٹو اور ایلیا کا مرنا ضروری ہے کہ زندوں کو عزت دینا اس مٹی   اور یہاں کے لوگوں کے خمیر میں ہی نہیں ہے! جاؤ اور جاکر خبر لگا دو کہ عاطف علی بھی مرگیا۔ شاید میرا پیغام بھی سن لیا جائے۔ چاء آرہی ہے۔ پی کر جانا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک طنزیہ مسکراہٹ میری سمت اچھالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔  لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے اس کے بارے میں۔ عجیب وحشی قسم کی مخلوق ہے!

بلاگ فالوورز

آمدورفت