وہ پیدائشی بہرا نہیں تھا۔ اپنی عمر کے پہلے انیس سال اس نے
محض سننے میں ہی صرف کیے تھے۔ ایسا نہیں کہ اسے بولنا نہیں آتا تھا۔ بات محض اتنی
تھی کہ اس وقت اسے کوئی سننا نہیں چاہتا تھا۔ سننا تو شاید انیس سال کے بعد بھی
کوئی نہیں چاہتا مگر عمر کے انیسویں سال میں ایک ہجوم کے درمیان کھڑے، یکے بعد
دیگرے زوردار دھماکوں کی زد میں آنے کے بعدکچھ ایسا ہوگیا کہ اس کی سماعت جواب دے
گئی۔ سو لوگوں نے سنانا تو انیسویں سال کے بعد بھی بند نہیں کیا مگر اس حادثے کے بعد سے اس نے سننا بند کردیا۔ اور جب سننا
بند ہوا تو بولنا شروع ہوگیا۔ اب وہ جہاں کہیں جاتا اور جو کچھ دیکھتا اس پر بولنا
شروع ہوجاتا۔ بولتے بولتے جب محسوس کرتا کہ وہ اپنی آواز خود بھی نہیں سن پا رہا
تو اسے لگتا کہ اس کی آواز کوئی بھی نہیں سن پا رہا سو وہ لوگوں کو سنانے یا شاید
خود کو سنانے کے لئے با آواز بلند بولنا بلکہ چلانا شروع ہوجاتا۔ وہ جو کچھ دیکھتا
اس پر اس وقت تک چیختا رہتا جب تک یامجمع
بالکل چھٹ جاتا یا اسے چیخنے کے لئے کوئی نئی چیز میسر آجاتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اسے پہچاننے لگے تھے۔ اول تو کوئی خود
سے اس کے نزدیک آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا اور اگر یہ زبردستی کسی کو گھسیٹ لانے
کی کوشش کرتا بھی تو وہ اس بات کا خیال کر کے ہی قریب آتا کہ جب وہ اس کی چیخوں
اور کراہوں کی بےوجہ کوفت سہنے کی سکت رکھ سکتا ہوتا۔ عام آدمی بہرحال اب بھی اسے
دیکھتے ہی کونا پکڑ لیتا تھا۔
وہ لوگوں کے یہ رویے دیکھ
بھی سکتا تھاور محسوس بھی کر سکتا تھا مگر ظاہر یہ کرتا تھا گویا اس کی صحت
پر ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہ ہوتا ہو۔ لوگوں نے اس کے پاس آنا بند کردیا۔ یہ اب
بھی مسکرا کر خود سے ان کے پاس چلا جاتا۔ اس کی سسکیوں اور نالوں سے تنگ آ کر خود
اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔یہ پھر بھی ڈھٹائی سے زندہ رہا۔ لوگوں نے
اسے پاگل قرار دے کر اس پر پتھر برسانے شروع کر دئے، یہ تب بھی چوک میں کھڑا ہوکر
چلانے سے باز نہ آیا۔
خیرجیسا بھی تھا ، وقت ہی تھا سو بہر طور گزر ہی گیا۔ گزرتے
وقت نے سیلابی ریلے کی طرح اس کی روح کو
بھی خوب زرخیز بنا دیا تھا۔ شاید یہی وجہ
تھی کہ جو بھی انسان اس کے قریب ہوتا وہ رویوں کی کدال لے کر اس کی روح میں کھدائی
کرنے لگ جاتا کہ اس کے اندر اپنی ذات کی تلخی اور اپنی زیست کی محرومیوں کو دبا
سکے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اسے اس بات پر بھی اعتراض نہیں تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بقلم خود استادی کے منصب
جلیلہ پر فائز کر دیا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اپنی مجروح انا کے پچکے ہوئے غبارے میں
اس بات کی ہوا بھرتا رہتا تھا کہ دیکھو دنیا کے دئے گئے مصائب کے باوجود میں کیسا
مہان ہوں کہ میں پلٹ کر انہیں جواب نہیں دیتا! کبھی وہ خود کو یہ کہہ کر سمجھاتا کہ شاید ان لوگوں کی ان ہی نادانیوں کی وجہ سے خدا
نے انہیں شاگرد اور مجھے استاد بنایا ہے اور انہیں میرے زیر نگیں کیا ہے کہ میں ان
کی زندگیوں کو بدل سکوں؟ خیر یہ سب تو پرانی باتیں ہوئیں کیونکہ وقت کے ساتھ اب وہ
کافی معتدل ہوگیا تھا۔ انسانوں کے بارے میں اس کی رائے بھی پہلے سے زیادہ اچھی
ہوگئی تھی۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے شاگردوں سے خوش تھا۔ وہ اس سے محبت کرتے تھے
اور یہ بھی بدلے میں ان پر جان چھڑکتا تھا۔ وہ روز، ہر روز! ان کے لئے کوئی نہ
کوئی نئی چیز نکال کر لاتا کہ جس سے ان کے علم میں، ان کے حلم میں، ان کی معاملہ
شناسی، ان کی معاشرت، ان کی معیشت میں بہتری لا سکے۔ اور جب اس کے بدلے میں وہ اسے ستائشی نظروں سے
دیکھتے ہوئے تعریف کے ڈونگرے برساتے کہ جنہیں وہ سن تو نہیں سکتا تھا البتہ اپنی
روح کے اندر اترتا ہوا محسوس ہر بار کر لیتا تھا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا
تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی زندگی کا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔
ماضی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ اپنے وقت پر کیسا ہی
جاں سوز کیوں نہ رہا ہو، گزرنے کے بعد بہرحال خوبصورت ہو ہی جاتا ہے۔ وہ یوں تو اپنی زندگی میں مگن تھا مگرجب بھی ان
دنوں کو یاد کرتا کہ جب وہ سن سکتا تھا تو ایک عجیب سی یاسیت اسے گھیر لیتی تھی۔ وہ پھر پہروں بیٹھا ان دنوں کو یاد کرتا اور
تصور کرتا کہ آج کے اپنے علم و تجربات کی
روشنی میں اگر وہ انسانوں کو سن پاتا تواور بھی اچھے طریقے سے ان کی اصلاح کر
پاتا۔ اورجیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ وہ
عام آدمیوں سے مختلف تھا سو وہ اپنے خوابوں کو محض خواب بنا کر رکھنے کا عادی نہیں
تھا لہٰذا اس نے ایک اچھے طبیب سے مشورہ کیا اور جب اسے پتہ چلا کہ تھوڑے پیسے خرچ
کر کے وہ دوبارہ سننے کے قابل ہو سکتا ہے تو وہ پیسے جمع کرنے میں جٹ گیا۔ اب اس
نے ایسا کوئی بھی کام کرنے سے انکار کر دیا کہ جس سے وہ چار پیسے منافع نہ کما
سکتا ہو۔سڑک پر سے گزرتا تو آنکھیں بند کر لیتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی چیز پر
نظر پڑ جائے اور پھر اسے کام دھندے چھوڑ کر اس چیز پر چلانا پڑ جائے۔ گیان بانٹنے
کے چونکہ پیسے نہیں ملتے تھے لہٰذا مفت کا روزانہ کا گیان بنٹنا فی الفور بند
کردیا گیا۔ غرضیکہ اس نے اپنے تئیں لگ کر پیسے کمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور
ہر وہ چیز جو اسے اس کام سے غافل کر سکتی تھی اسے اس نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
اچھا ہو یا برا، محنت بہرطور رنگ ضرور لاتی ہے سو اس کی
محنت بھی رنگ لے آئی اور جمع شدہ پیسے، کہ جن سے محبت تک لوٹ آتی ہے، اس کی سماعت
بھی واپس لے آئے۔
ایک چھوٹا سا ہیئرنگ ایڈ کا آلہ اس کے کان میں لگا دیا گیا تھا اور اب وہ دوبارہ سننے کے قابل ہوگیا تھا۔
خوشی کے مارے اس نے گھر جانے سے پہلے ہی اپنے تمام شاگردوں کو جمع کرنے کا فیصلہ
کرلیا۔ وہ ان سب کو اس خوشی میں شریک کرنا
چاہتا تھا۔
آج جب اس نے کلاس میں چیخنا شروع کیا تو اسے پہلی مرتبہ
اندازہ ہوا کہ وہ کتنا بلند اور کتنا کڑوا بولنے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے شاگردوں کے
ظرف کی داد دی جو اسے اس کڑواہٹ کے ساتھ بھی نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ اس کی
چیخم پکار کے اختتام پر اسے سراہتے بھی تھے۔ ہمت بڑھاتے تھے۔ چاہتے تھے کہ وہ اس
ہی طرح چیختا رہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انہیں اس میں ہونے والی تبدیلی کا علم ہو سو
وہ روز کی طرح چیختا رہا اور جب چیخ چیخ کر تھک چکا تو حسب معمول نڈھال ہو کر اپنے
اسٹول پر ڈھے گیا۔
جب اس کے شاگردوں کو یقین ہوگیا کہ اب وہ مزید نہیں چیخے گا
تو وہ ایک ایک کر کے اسے سراہنا شروع ہوگئے۔ پہلا اس کی سمت مسکراہٹ اچھال کر
بولا، ابے او منہ کے حیض کے مریض! کب تک ایسے ہی چلاتا رہےگا؟ دوسرا والا بھی
نہایت گرمجوشی سے گویا ہوا، خون تھوکنے کے لئے تجھے ہم لوگ ہی کیوں ملتے ہیں؟
تیسری کی باری آئی تو بولی، آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہر کہانی بیان کرنے کے
لئے نہیں ہوتی؟ چوتھا بولا، بھائی! یہ مسائل تیرے ہیں! معاشرے کا ان سب سے کیا
لینا دینا؟ مفت میں ملنے والی تو ہم نے آسمانی آیات کی قدر نہیں کی پھر تیری بکواس
کس گنتی میں ہے؟ پیسے لے کر چیخا کر ورنہ یہ مفت کی بکواس سننے کے لئے ہمارے پاس
وقت نہیں ہے۔
ننھے میاں نے کاغذات کا پلندہ غصے میں میری میز پر مارا اور
بولے یہ کیا بکواس ہے؟ کہانی کا اختتام کہاں ہے؟ آپ ہر کہانی ادھوری کیوں چھوڑ
دیتے ہیں؟ میں نے ننھے کو مسکرا کر دیکھا
اور کہا، آپ کے لئے! وہ چڑ کر بولے، میرے لئے کیسے؟ میں نے کہا، آپ کے لئے ایسے کہ
اب اس استاد کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو اپنی ہیئرنگ ایڈ نوچ کر پھینک دے یا
پھر آگہی کے عذاب سے تنگ آکر خودکشی کر
لے۔ اب آپ نے معلوم کر کے بتانا ہے کہ میں نے کیا انجام پسند کیا ہوگا۔ ننھے میاں
نے منہ بسورتے ہوئے کہا، اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ سب کو پتہ ہے آپ نے اس
استاد کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔ میں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور دراز میں سے
تمباکو نکال کر پائپ بنانے میں مصروف ہوگیا۔ ننھے میاں پہلے تو اپنی کمر پر ہاتھ
رکھے مجھے گھورتے رہے پھر جب انہیں یقین ہوگیا کہ میں اس موضوع پر مزید بات کرنے
کے موڈ میں نہیں ہوں تو پیر پٹختے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
ننھے کے کمرے سے جانے کے بعد میں نے پائپ سلگا لیا مگر ابھی
پہلا کش ہی لیا ہوگا کہ وہ دروازہ کھول کر دوبارہ کمرے میں آ دھمکے اور غصے سے
گویا ہوئے، اگر آپ نے اسے مارنا ہی تھا تو یہ کہانی لکھی ہی کیوں ؟ میں نے کہا،
احساس دلانے کے لئے! ننھے میاں مزید تنک کر بولے، اگراحساس ہو سکتا تھا تو احساس دلا دیتے ! استاد کو مارنے
کی کیا ضرور تھی؟ میں نے ننھے میاں کی
آنکھوں میں جھانک کر کہا، میں نے توفقط یہ احساس دلانے کے لئے کہانی لکھی ہے کہ جب
وہ سب لوگ وہ سب باتیں یہ سوچ کر کرتے تھے کہ وہ نہیں جان سکتا تو انہیں احساس ہو
جائے کہ استاد جانتا تھا! استاد جانتا ہے!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں