جمعہ، 10 مارچ، 2017

گدگدی

نوٹ: اس کہانی کے تمام واقعات و کردار فرضی ہیں۔ کسی بھی قسم کی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں میری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں!

اشارے پر گاڑی رکی تو میں نے   وقت گزاری کے لئے اطراف کا جائزہ لینا شروع کردیا۔  سب کچھ معمول کے مطابق ہی تو تھا۔ گاڑیوں کے
 درمیان وہی کم سن بچوں کے غول گھوم رہے تھے  جو صاف کرنے کے نام پر گاڑیوں کےشیشے گندے کرتے اور پھر اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے آپ سے پیسےبھی اینٹھتے تھے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا  کہ اگر یہی چلن رہےتو یہ بچے بڑے ہوکر ملک کے کسی با اختیار ادارے میں پائے جائیں گے۔  گداگروں کے پاس پچھلے رمضان کی کمائی اب تک چل رہی تھی لہٰذا وہ ٖفٹ پاتھ پر بیٹھے سستا رہے تھے ۔ کسی بھی راہگیر سے نظر ملنے پر وہ وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ اٹھا کر سوال کر دیتے اور اگر مثبت جواب کی امید دکھتی تو اپنے ساتھ موجود چھوٹے کو دوڑا دیتے کہ جائے اور وصولی کر آئے ۔ اگر امید افزا جواب نہ ملتا تو وہ گداگر آپ کو ایک گہری نظر سے نوازتے کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ پیشے کی مجبوری ہے وگرنہ تمہارے جیسوں کو تو میں ویسے بھی خاطر میں نہ لاؤں، اور پھر کسی نئی گاڑی پر نگاہیں مرکوز کر لیتے۔
بیٹے کے اسکول سے پانچ منٹ کی مسافت قبل پڑنے والا یہ اشارہ عام طور پر کھلنے میں وقت لیتا تھا اور میں روز روز کے مشاہدے کی بنا پر چونکہ ان تمام بچوں اور گداگروں  اور ان کے معمولات کو حفظ کر چکی تھی لہٰذا میں نے سڑک کے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔   گاڑی اتفاق سے سڑک کے انتہائی دائیں جانب ہی تھی لہٰذا مجھے سڑک کے دوسری طرف دیکھنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔
عمارات پر لگے بورڈز پر میرے مطلب کی کوئی چیز موجود نہیں تھی سو میں نے سڑک کی طرف توجہ مبذول کردی۔ دوسری طرف بھی اشارہ بند تھا سو سڑک پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔  فٹ پاتھ کے ساتھ البتہ ایک چمچماتی نئی  گاڑی کھڑی تھی  اور جب میں نے اس گاڑی کو غور سے دیکھا تو میں لرز کر رہ گئی۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک پینتیس چھتیس سالہ نوجوان بیٹھا ہوا تھا جس کی گود میں ایک چھ سالہ لڑکی یونیفارم پہنے بیٹھی تھی۔ میں ان دونوں کے چہرے تو نہیں دیکھ سکتی تھی مگر میں نے محسوس کرلیا تھا کہ بچی اس ڈرائیور کی گود میں بیٹھی بری طرح کسمسا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور کو کہا کہ اشارہ کھلتے ہی گاڑی واپس گھما لے اور اس گاڑی کے آگے لگائے۔ بیٹے کے اسکول کی چھٹی کا وقت ہوچکا تھا مگر میں جانتی تھی کہ وہ اسکول میں محفوظ ہے اور میرا انتظار کر سکتا ہے جبکہ یہاں اس وقت ایک معصوم کلی کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
میرا جملہ مکمل ہونے  تک اشارہ کھل چکا  تھا سو ڈرائیور نے گاڑی واپس گھما لی اور جیسے ہی میری گاڑی اس گاڑی کے آگے جا کر رکی تو میں 
ایک لحظے کا توقف کئے بغیر گاڑی سے اتری اور تیزی سے اس گاڑی پر پہنچ گئی۔
میرے شیشہ بجانے پر وہ ڈرائیور بری طرح اچھل پڑا تھا جس سے میرا شک یقین میں بدل گیا۔ اس مردود ڈرائیور نے جب میرے تیور دیکھے تو دروازہ کھولے یا شیشہ نیچے کئے بغیر ہی گاڑٰ ی کے اندر سے ہاتھ کا اشارہ کیا گویا پوچھنا چاہتا ہو کہ میں کیوں اس کی اس غلیظ مصروفیت میں مخل ہو رہی ہوں۔ میں نے چاہا تو تھا کہ میرا لہجہ نارمل رہے مگر جب میں بولی تو مجھے خود اپنی آواز سن کر اندازہ ہوا کہ میں باقاعدہ چیخ پڑی تھی۔  میں نے چیخ کر اس ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکلنے کو کہا مگر وہ تھوڑا اور دبک کر نشست پیچھے کر کے بیٹھ گیا۔ اس کی گود میں موجود بچی موقع دیکھ کر اس کی گود سے نکل کر پیسنجر سیٹ پر جاچکی تھی اور اب بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ میں نے جب اس بچی کو روتے ہوئے دیکھا توخدا جانے مجھے کیا ہوگیا۔ میں نے چیخ چیخ کر اس ڈرائیور کو مغلظات سنانی شروع کردیں اور ساتھ میں گاڑی کے شیشے  پر دو ہتڑ برسانے شروع کردئے۔وہ کمینہ ڈرائیور اب اپنی نشست میں مسلسل دھنسا چلا جا رہا تھا مگر باہر اب میں اکیلی نہیں رہی تھی۔ میرا اپنا ڈرائیور تو گاڑی پارک کر کے آ ہی چکا تھا مگر ایک عورت کو اس طرح گاڑی کو پیٹتے  اور چلاتے ہوئے دیکھ کر بہت سےو ہ بھائی بھی متوجہ ہوچکے تھے جن کی توجہ کی حسرت لئے ان کی سگی بہنیں مدت سے ان کی راہ تک رہی تھیں۔
مجمعے کو دیکھ کر پہلے تو وہ اور سراسیمہ ہوا مگر جب فرار کی کوئی راہ نہ دکھی کہ گاڑی کے پیچھے میرے آنے سے پہلے ہی ایک اور گاڑی کھڑی تھی جس نے اس شیطان کے ریورس کا راستہ روک رکھا تھا، تو  بالآخر وہ گاڑی سے اتر آیا۔
اس کے گاڑی سے اترتے ہی میں نے  اسے گریبان سے پکڑ کر اسے تھپڑوں کی زد پر لے لیا۔ شروع میں تو وہ بیچارگی کا ناٹک کرتے ہوئے اپنا قصور دریافت کرتا رہا اور مجمع بھی مجھے ہی روکنے کی کوشش کرتا رہا مگر جب میں نے لوگوں کو  اس کے کرتوت کے بارے میں بتایا اور گاڑی میں موجود بچی نے میرے بیان کی تصدیق کر دی کہ ڈرائیور انکل روز اسکول سے واپسی میں کہیں نہ کہیں گاڑی روک کر اسے گاڑی چلانے کے بہانے اپنی گود میں بٹھاتے ہیں اور اس کی فراک کے اندر ہاتھ ڈال کر اسے گدگدی کرتے ہیں اور آج انکل اسے اپنی گود میں بٹھا کر تکلیف دے رہے تھے، تو مجمع نے بھی اسے لاتوں گھونسوں پر لے لیا۔
ڈرائیور کے موبائل سے ہی اس بچی کے والدین کا نمبر نکال کر میں نے انہیں اس جگہ پر بلوایا اور اگلے پندرہ منٹ کہ جب تک وہ وہاں پہنچ نہیں گئیں  میں وہیں کھڑی ان کا انتظار کرتی رہی۔ بیٹا اسکول میں انتظار کر رہا تھا سو میں نے اپنے دیور کو بھیج کر اس کو اسکول سے اٹھوا لیا اور بچی کو ساتھ خیریت کے اس کی والدہ کے حوالے کرنے کے بعد جا کر میں کہیں گھر لوٹی۔ لڑکی کو ان کے حوالے کروقت میں نے انہیں دبے الفاظ میں باتیں بھی سنادیں کہ وہ آج کل کے حالات میں اس طرح بیٹی کو ایک جوان ڈرائیور کے ساتھ اکیلا کس طرح چھوڑ سکتی ہیں؟ ہمارے بھوکے سماج میں یہ معصوم کلیاں کب ان بھیڑیوں کی نظر ہوجائیں کون جانتا ہے؟ اور کون یہ خطرہ مول لے سکتا ہے؟
واپسی کے راستے میں بھی میں اس معاشرتی گھٹن اور بچوں کے استحصال کے بارے میں سوچتی رہی مگر مجھے آج یہ اطمینان تھا کہ اس برائی کے خلاف جو کچھ میرے بس میں تھا سو میں نے کر دیا تھا۔ بچوں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے اپنے بیٹے کا بھی خیال آیا جو بیچارہ آج میری وجہ سے اسکول میں انتظار کی کوفت سہتا رہا تھا مگر جب میں گھر پہنچی تو وہ کار پورچ میں ہی گاڑی میں موجود تھا۔

گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہ اپنے سگے چاچو کی گود میں بیٹھا کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ شاید اسے بہت زور سے گدگدی ہورہی تھی! 

1 تبصرہ :

  1. ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے لیکن آخری لائن سے مجھے اختلاف ہے

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت