ہفتہ، 27 مئی، 2017

کہانی

کہانی سنے گا؟ میں نے لالچ آمیز انداز سے اس سے پوچھا مگر خلاف توقع اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ میں نے اسے اکسانے کے لئے یاد دلایا، میں نے خود لکھی ہے! مگر آج وہ کسی اور ہی دھن میں تھا۔ کہنے لگا ،اس ہی لئے نہیں سننی! میں نے کہا یہ کیا بکواس ہے؟ کہنے لگا ، فائدہ کیا ہے؟ تمہاری ساری کہانیاں ایک جیسی ہی تو ہوتی ہیں۔ ہر کہانی کے اختتام پر کہانی کا مرکزی کردار مر جاتا ہے۔ تو مان کیوں نہیں لیتا کہ کہانیاں لکھنا اب تیرے بس کا کام نہیں رہا؟ تس پر مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ کہانی ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور کہانی تبدیل ہو بھی نہیں سکتی۔ دنیا میں ایسا کون سا نیا کام ہورہا ہے جو پہلے نہ ہو چکا ہو جس پر کہانی لکھی جائے؟   تم لوگوں کا اصل  مسئلہ احساسِ کمتری ہے۔ شکیب جلالی کی کہی ہوتی باتیں انگریزی میں سلویا پلیتھ کے نام سے پڑھ لو گے تو داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے اوندھے ہوجاؤ گے مگر شکیب جلالی کا  کلام دکھ بھی جائے تو یہ سوچ کر آگے بڑھ جاؤ گے کہ ہے تو اردو کا شاعر ہی نا! کبوتر باز!

بک جھک کر اور دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد میں وہاں سے اٹھ کر آگیا اور کہانی کا ناقدانہ جائزہ لینے لگا۔ اچھی خاصی تو کہانی تھی۔ اور اس کہانی کا مرکزی کردار تو ویسے بھی ایک دیوتا تھا اور دیوتا کبھی مر بھی نہیں سکتے۔ خیر! میرا کیا گیا؟ اس ہی کا نقصان ہے کہ وہ  اس کہانی سے محروم رہ گیا۔ میرا کام تو کہانی لکھنا ہے۔ پڑھنا تو اس کا کام تھا۔ اب اگر وہ کام چوری پر اتر آیا ہے تو میں اس پر ترس کھانے کے بجائے خودسے کیوں الجھوں؟ میں نے اس پر چار حرف بھیج کر دوبارہ کہانی پڑھنا شروع کردی۔

اب آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کن گنجلک باتوں میں الجھ گیا ہوں اور خدا جانے وہ ایسی کیا کہانی تھی جس کی تمہید میں دو پیرا گراف لکھ مارے گئے ہیں مگر کہانی ہے کہ سامنے آنے کا نام نہیں لیتی تو بھائی کہانی بہت معمول کی سی ہے کہ دو انسانوں کے ہاں ایک انسان کا بچہ پیدا ہوا۔ جی ہاں جی ہاں اس میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ اس بات پر کہانی لکھی جائے مگر آپ تحمل سے کہانی سنتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ انسان کا بچہ نہایت غیرمعمولی تھا۔ اتنا غیر معمولی کہ اس نے بڑے ہونے کے بعد معاشرے میں موجود انسان نما دیوی دیوتاؤں کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا۔  کسی بھی بچے کے لئے اس کے ماں باپ اور اساتذہ کا بت سب سے بڑا ہوتا ہے مگر اس نے انہیں بھی دیوتا ماننے سے انکار کردیا۔ جانتا ہوں آپ اسے ایک تخیلاتی کہانی سمجھ رہے ہوں گے مگر خود سوچیں کہ   اگر یہ بچہ تخیل میں آ سکتا ہے تو حقیقت میں کیوں نہیں آ سکتا؟ اور معاملہ یہیں پر نہیں رکتا  کہ اس نے دوسروں کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا ہو۔ یہ مافوق الفطرت بچہ خود اپنے آپ کو بھی دیوتا سمجھنے سے انکاری ہوگیا تھا۔ دنیا والے بکمال محبت اسے دیوتاؤں کے استھان پر چڑھاتے کہ بیٹا تم یہاں بیٹھو مگر وہ اتر اتر کر دوڑ جاتا کہ میں دیوتا نہیں ہوں جو غلطی نہ کر سکتا ہو۔ میں تو انسان ہوں۔ غلطیاں کروں گا۔ ہر طرح کی غلطیاں کروں گا۔ کچھ غلطیاں شاید ایک سے زائد بار بھی کروں گا۔ ٹھیک ہے کہ ان اغلاط کو اپنی ذات کا حصہ نہیں بناؤں گا مگر تم مجھے دیوتا بنا کر مجھ سے میرا غلطی کرنے کا حق نہیں چھین  سکتے۔  آگے کی کہانی آپ خود بھی جانتے ہیں کہ  ایسی احمقانہ خواہشات رکھنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے  اور چونکہ ابھی تک اس کے انسان یا دیوتا  ہونے کا فیصلہ نہیں ہوپایا ہے   اس لیے میں نے  اسے ان دیوتاؤں کی طرح زندہ چھوڑ دیا جو اس حسرت میں مرے جاتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں جان سکیں کہ وہ اس سے کہیں کم ہیں جتنا لوگ انہیں کہتے ہیں اور شاید اس سے بہت بہتر ہیں  جیسا وہ انہیں سمجھتے ہیں۔  
کیا کہا؟ میرا دوست ٹھیک کہتا تھا؟ کہانیاں لکھنا واقعی میرے بس کا کام نہیں رہا؟  لعنت ہو تم سب پر۔ میں 
جانتا تھا کہ تم لوگ ایسا ہی کرو گے اس لئے میں نے اصل کہانی لکھی ہی نہیں۔ اللہ حافظ!


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت