اتوار، 23 اپریل، 2017

بِلؔا

آج مدت کے بعد اس کمینے کا نمبر اپنے موبائل اسکرین پر دیکھ کر میرے لبوں پر بےاختیار ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔ نام تو اس کا عاطف تھا مگر ہم سب دوست اسے بِلا کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ تھا بھی بھوکے  بلے ہی کی خصلت کا۔ حرام ہے کہ صرف ایک بلی پر اس کا گزارہ ہوجائے!  اس کی وجہ سے، محلے کی تمام لڑکیاں، کبھی نہ کبھی ہماری بھابھی رہ چکی تھیں۔ بِلا، بَلا کا ٹھرکی تھا۔ اس کے بارے میں ہم تمام دوستوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہماری بیویاں بھلے بغیر دوپٹے کے ساری دنیا کے سامنے گھوم لیں مگر بلے کے سامنے ہم انہیں شٹل کاک برقعے میں بھی نہیں لائیں گے۔

جب تک ہم دوست اس محلے میں رہے، بلے کے کارناموں کی دھوم رہی۔ ہم دوستوں نے بلے کو ماہرِ زنانیات کا خطاب دے رکھا تھا۔ ہمارے دوستوں میں اشرف کا ماننا تھا کہ بلا محض دیوار سونگھ کر بتا سکتا ہے کہ کمرے میں کتنی خواتین موجود ہیں جبکہ خرم کا کہنا تھا کہ بلا اگر چاہے تو اس ہی دیوار کے پیچھے رہ کر ان خواتین کی عمر اور ان کے کپڑوں کے رنگ تک بتا سکتا ہے۔

انٹر میڈیٹ کے  فورا بعد ہم لوگوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا اور گلشن اقبال آگئے۔ دوستوں سے البتہ وقتاؔ فوقتاؔ ملاقات اور بات ہوتی رہتی تھی۔ میں وقت کے ساتھ ڈاکٹر بن گیا تھا جبکہ بلے نے ہیومن ریسورس میں ماسٹرز کر لیا تھا کہ اس شعبے میں خواتین ہمیشہ زیادہ پائی جاتی تھیں اور بلے کو خواتین کے جھرمٹ میں رہنا بچپن سے پسند تھا۔ بلے کے کارنامے اب بھی سننے کو ملتے رہتے تھے۔ انسانی عادات اگر بروقت نہ سدھاری جائیں تو وہ فطرت بن جاتی ہیں۔ اور فطرت میں آجانے والی چیز کا جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بلے کی شادی پر ہم سب دوستوں نے اسے سمجھایا تھا کہ کم سے کم شادی کے بعد تو اسے اپنی زندگی میں سدھار لانا چاہیئے اور ماضی کے تمام طریقے چھوڑ کر انسانوں والی زندگی گزارنی چاہیئے۔ مگر جو باز آجائے وہ بلا ہی کیوں کہلائے؟ آج اس بات کو بھی بیس سال ہونے کو آرہے تھے اور بلے کے کارنامے اس ہی زور و شور سے جاری تھے۔ بلے سے مایوس ہوکر ہم لوگ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ میں نے اپنا ہسپتال بنا لیا تھا۔ اشرف ایک بینک میں جنرل مینجر ہوگیا تھا۔ سلمان ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ عامر کینیڈا منتقل ہوگیا تھا۔ ہم سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے تھے اور اب مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرپاتے تھے۔ آج بلے کا فون بھی کوئی سال بھر کے بعد آیا تھا اور میں موبائل پر اس کا نام دیکھ کر مسکرا اٹھا تھا۔

مصروفیات اور نہ ملنے کے گلے شکووں کے بعد کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں اور اس کے بعد بلے نے مجھ سے ملنے کی فرمائش کردی۔ ادھر میں خود بھی اس سے ملنا چاہ رہا تھا سو میں نے بھی فوراّ حامی بھر لی۔ اگلے دن ہم دونوں میرے دفتر میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ میں آج دو سال کے بعد بلے کو دیکھ رہا تھا۔ ان دو برسوں میں وہ بہت تبدیل ہوگیا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ آنکھوں کی سوزش بتا رہی تھی کہ وہ کافی دن سے ڈھنگ سے سویا نہیں ہے اور شاید روتا بھی رہا ہے۔ میں نے اس کا دل بہلانے کیلئے اس کا پسندیدہ خواتین کا موضوع چھیڑ ا مگر میں نے دیکھا کہ اس سے اس کا اضطراب کچھ اور بڑھ گیا ہے۔ میرے لیئے یہ سب کچھ بہت حیران کن تھا۔ بلا ہمیشہ سے زندگی کو کھل کر جینے کا عادی اور بے بات مسکرانے والا انسان تھا۔ اس کی یہ بے چینی اور اضطراب میرے دل میں وسوسے پیدا کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے تو اس نے کسی قسم کی پریشانی سے یکسر انکار کردیا مگر میرے بےحد کریدنے پر وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بول ہی پڑا کہ اس کی زندگی کی اغلاط بالآخر اپنے مکروہ ترین روپ میں اس کے سامنے آگئی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ میں اس لڑکی سے ملوں اور اگر وہ واقعی امید سے ہے تو اس کو اِس گناہ کے بوجھ سے نجات دلوائوں۔

میں ہکا بکا بیٹھا اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ بچہ ناجائز ہی سہی، مگر دنیا میں آنے کا حق ضرور رکھتا ہے۔ میں نے بلے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے یہ سب نہیں کرنا چاہیئے اور ویسے بھی ،ایک گناہ کو چھپانے کیلئے اس سے بڑا دوسرا گناہ کرنا کون سی عقلمندی ہے؟ اگر وہ چاہے تو میں اس لڑکی سے اس کی شادی کروانے میں ہر ممکن مدد کرسکتا ہوں۔ ہم اس لڑکی کو الگ گھر لیکر دے دیں گے اور یہ بات ہم بلے کے گھر میں کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیں گے۔ وہ اتنا صاحب حیثیت ہے کہ دو گھرانوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اگر اسے کسی قسم کی تنگی ہے تو میں اس سلسلے میں ماہانہ بنیاد پر اس کی مدد کرسکتا ہوں۔ بلا خاموشی سے میری بات سنتا رہا اور جب میں خاموش ہوا تو سسکیاں بھرتے ہوئے میرے پیروں میں گرگیا۔ وہ رو رو کر مجھ سے مدد مانگ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا تھا اور اگر یہ بچہ دنیا میں آجاتا تو جو طوفان اٹھتا اس کا بقول بلے مجھے اندازہ نہیں تھا۔ بلے کے آنسو اور بےبسی دیکھ کر میں لرز کر رہ گیا۔ مجھ سے اپنے دوست کی بےکسی دیکھی نہیں گئی اور میں نے بلے کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ہسپتال میرا اپنا تھا سو میں کسی کو جوابدہ نہیں تھا۔ اگلے دن بلا خود اس لڑکی کو میرے ہسپتال چھوڑ کر چلاگیا جہاں چند بنیادی ٹیسٹ سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ وہ لڑکی امید سے تھی۔ بچہ ابھی تیسرے ماہ میں ہی تھا سو ہمیں اسے تلف کرنے میں کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی۔ وہ لڑکی ایک دن ہمارے پاس ہی رہی اور اگلے دن بلا خود آکر اسے اپنے ساتھ واپس لے گیا۔ خدا جانے اس لڑکی نے اس ایک دن کی غیر حاضری کی اپنے گھر میں کیا توجیح پیش کی ہوگی۔ مگر جو لڑکی اپنے گھر والوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر شادی سے پہلے اپنے سے کم از کم پچیس برس بڑے مرد سے امید سے ہوسکتی ہے اس کیلئے ایک دن کی غیر حاظری کی کہانی بنانا کون سا مشکل کام ہوگا؟ میں نے اس لڑکی اور بلے دونوں ہی پر اس دن لعنت بھیج دی اور طے کرلیا کہ میں آئندہ بلے سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔ دوستی کی وجہ سے کیئے جانے والے اس کام کا میرے ضمیر پر بے تحاشہ بوجھ تھا اور میں بلے کی شکل دوبارہ دیکھ کر اپنے ماتھے کے اس داغ کو تازہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

انسان صرف ارادہ کرنے کی حد تک خودمختار ہے۔ ارادوں کی تکمیل صرف کائنات کے مالک کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ہی طور سے اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ بلے سے نہ ملنے کا فیصلہ کیئے ہوئے مجھے چار دن ہی ہوئے تھے کہ سلمان کا فون آگیا اور مجھے بلے کے گھر جانا پڑ ا۔ بلا مر گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بہت شدید دل کا دورہ تھا اور ہسپتال یا ڈاکٹر کی نوبت آنے سے پہلے ہی بلے نے اپنے ہی گھر میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی تھی۔

جنازے اور تدفین سے واپسی پر ہم تمام دوست بلے کے گھر پہنچ گئے۔ بلے نے اپنے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی تھی۔ بیٹے ابھی اسکول اور بیٹی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ ہم دوست ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے کہ ایک نوجوان نے ہمارے پاس آکر میرا نام پوچھا اور مجھے ایک کونے میں لے جاکر میرے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔ میں حیرت سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ بول پڑا، سر! آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ نے ہم دونوں پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ میں ساری عمر آپ کا قرض نہیں اتار سکتا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انکل سے کیئے گئے اپنے وعدے کو نبھائوں گا اور اس ہی سال، اپنی نوکری لگتے ہی ان کی بیٹی کو شادی کرکے اپنے ساتھ لے جائوں گا۔

میں خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا اور دل میں حیران تھا کہ یہ لڑکا کون ہے اور خود کو میرا احسان مند کیوں کہہ رہا ہے جبکہ میں آج سے پہلے اس لڑکے سے ملا تک نہیں ہوں؟ میں نے اس سے سوال کرنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ میری نظر سامنے والے کمرے کے دروازے پر کھڑی بلے کی بیٹی پر پڑی جو دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں مسلسل رونے سے سرخ ہوچکی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور حلیہ شدید خراب تھا۔ مگر ان سب چیزوں کے باوجود بھی میں اس لڑکی کو بخوبی پہچان سکتا تھا۔ چار دن پہلے ہی تو میں نے اس کا آپریشن کیا تھا۔

میں نے اس لڑکے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے سر ہلا کر واپس اپنے دوستوں میں آگیا۔ کون کہتا تھا کہ بلا ہارٹ اٹیک سے مرا ہے؟ بلا تو دراصل شرم اور تقدیر کے اس وار سے مر گیا تھا جسے اس نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے لیئے لکھا تھا۔

2 تبصرے :

  1. عاطف بھائی بہت پُر اثر تحریر
    پڑھتے ہوئے پہلی بار کسی تحریر نے اتنے گہرے ٹرانس میں لیا
    اللہ سے دُعا کہ لکھے کا حق ادا ہو اور ہمیں اپنے اپنے اندر جھانکنا نصیب ہو
    جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. اوئے ظالم۔ اللہ ہمارے ضمیر جگا کر رکھے۔

    اھدنا الصراط السمتقیم

    دل دھڑکنا بھولا ہوا۔

    جواب دیںحذف کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت