پیر، 24 جولائی، 2017

خانہ بدوش

خانہ بدوشوں کا کٹا ہے، ٹک کر نہیں بیٹھے گا!  رسی دیکھ لیو! کھلی رہ گئی تو نکل جائے گا اور پھر تو ڈھونڈتی پھریو! اماں کمرے سے بیٹھی چلا رہی تھی اور میں مزے سے     اس کے گلے میں ہاتھ ڈالے بیٹھ کر  اسے دن بھر کا احوال سنا رہی تھی۔ اور کیوں نہ سناتی؟ اس پوری دنیا میں ایک وہی تو تھا جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ میں کیسی دکھتی ہوں؟ میرے کپڑے کتنے عمدہ یا کتنے بوسیدہ ہیں؟   وہ ایک ہی تو تھا جو میرے دل کی باتیں سن کر انہیں چسکے لے کر آگے نہیں بڑھاتا تھا۔ ان باتوں کو سن کر مجھے احمق نہیں سمجھتا تھا۔ میری کمزوریوں کو جان کر بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا تھا۔ چار ٹانگوں پر چلنے والا وہ جانور، دو ٹانگ پر چلنے والے درندوں سے کروڑھا گنا بہتر تھا۔
ایسا نہیں کہ میرا دنیا میں کوئی دوست نہیں تھا۔ جیسے بہت سے لوگوں کو اپنے بارے میں یہ غلط فہمی تھی کہ میں ان کی اصل نہیں جانتی اور انہیں دوست سمجھتی ہوں ویسے ہی بہت  سے ایسے بھی تھے کہ جو میری مروت کو اخلاص سمجھ کر یہ گمان کر بیٹھتے تھے کہ میں ان کی دوست ہوں۔ شاید ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں انسانوں  میں مساوات کی قائل تھی۔ رنگ، نسل، مذہب وغیرہ سے قطع نظر، انسان بحیثیت انسان میرے نزدیک قابلِ نفرت تھے۔ اور ان سب قابلِ نفرت انسانوں کے بیچ میں ایک ہمدرد بچھڑے کا وجود کیا حیثیت اختیار کرلیتا ہے اس کا اندازہ یا تو میں کر سکتی ہوں یا کوئی بچھڑا۔ اور چونکہ آپ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں لہٰذا آپ اس بارے میں سوچنے کے بجائے کہانی پر توجہ دیں۔
تو جیسا میں نے عرض کیا کہ وہ بچھڑا میرے لئے بہت خاص تھا۔ اور خاص لوگوں کے حوالے سے عام سی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں کہی گئی عام سی بات بھی ہمیں برداشت نہیں ہوتی۔  ہم خود انہیں جتنا مرضی لتاڑ لیں، دشنام سنا دیں، اناپ شناپ جو جی میں آئے بک دیں، مگر کسی بھی اور کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے سامنے ان کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکال سکے۔ کسی اور تو دور، ہم خود انہیں بھی یہ اجازت دینے کے حق میں نہیں ہوتے کہ وہ خود کو برا کہہ سکیں۔ سو جب جب اماں اسے خانہ بدوشوں کا کٹّا کہتیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔  یہ بات اپنی جگہ درست بھی تھی کہ تین ماہ پہلے گزرنے والے خانہ بدوشوں کے قافلے سے ہی اس کٹے کو خریدا گیا تھا مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ اماں خانہ بدوشوں کو پسند نہیں کرتیں اورخانہ بدوشوں کا کٹّا وہ اس معصوم کو محبت میں نہیں کہہ سکتی تھیں۔ اس وقت بھی جب انہوں نے اسے خانہ بدوشوں کا کٹّا کہا تو میں نے پہلے تو نظر انداز کر دیا اور اپنی دکھ بھری داستان اسے سناتی رہی مگر جب اماں کی آوازیں متواتر ہو گئیں تو میں بھنّا کر پاؤں پٹختی ہوئی کھڑی ہوئی اور اٹھ کر اماں کے کمرے میں چلی گئی جہاں وہ چارپائی پر بیٹھی ابّا  کی قمیض کو رفو کرنے میں مصروف تھیں۔ ویسے یہ رفو کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ انسان کو لگتا ہے کہ وہ لباس کو بچا رہا ہے جبکہ درحقیقت وہ اپنی عزت نفس کو بچا رہا ہوتا ہے۔ رفو کپڑے کا نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا ہوتا ہے۔  رسی ٹھیک سے باندھ آئی ہے نا؟  اماں نے قمیض سے نظریں اٹھائے  بغیر اسے مخاطب کیا۔خانہ بدوشوں کا کٹّا ۔۔۔ اماں خبردار جو اب اسےخانہ بدوشوں کا کٹّا کہا تو! میں نے اماں کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دیا۔ اماں نے قمیض پر سے نظر اٹھا کر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا گویا جانچ رہی ہوں کہ آیا قد میں بھی اضافہ ہوا ہے یا صرف حرکت اپنی عمر سے بڑی کر گئی ہے۔ اور جب تسلی ہوگئی کہ معاملہ موخر الذکر کا ہےتو  واپس قمیض میں یوں مشغول ہوگئیں جیسے  میری  بات اس قابل ہی نہ ہو کہ اس پر ردعمل بھی دیا جائے۔ میں مانتی ہوں کہ کہانی گاؤں کے پس منظر میں ہے اور گاؤں والوں سے فلسفے کی باتیں   منسوب ہوتے دیکھنا آپ شہر والوں سے ہضم نہیں ہوتا مگر اب جب اوپر یہ بدعت ایک بار ہو ہی چکی ہے تو ایک بار اور سہی۔ کہنے دیجئے کہ ردعمل کا معاملہ بھی نرالا ہے۔ اس دنیا میں کہ جہاں ہر چیز پر ردعمل دیتے لوگ ہمیں زہر لگ رہے ہوتے ہیں وہیں چند ایک ایسے اشخاص بھی چاہے نہ چاہے ہماری زندگیوں میں ضرور شامل ہوتے ہیں کہ جن کا ردعمل نہ دینا، دنیا کے ردعمل دینے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بالعموم یہ چند لوگ وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ اہتمام کرتے ہیں کہ انہیں غلطی سے بھی گمان نہ ہوجائے کہ ہماری زندگیاں ان کے بغیر کس قدر ادھوری ہوتی ہیں۔اماں بھی ان گنے چنے لوگوں میں سے ایک تھیں!

میں کافی دیر کھڑی اماں کے ردعمل کا انتظار کرتی رہی مگر جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میری ہی یا شاید میری بھی ماں ہیں تو میں خود جا کر ان کے برابر میں بیٹھ گئی اور قمیض ان کے ہاتھ سے لے کر ایک جانب رکھ دی۔اماں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولیں اب کٹے کو کٹا نہ کہوں تو کیا شیر بلاؤں؟ اماں آپ جانتی ہیں مجھے مسئلہ کٹّا کہنے پر نہیں ہے۔میں نے کہا۔ آخر آپ کو خانہ بدوشوں سے مسئلہ کیا ہے؟ان کا نام لیتے ہوئے آپ کے لہجے میں اتنی حقارت کیوں در آتی ہے؟  اماں نے میری طرف دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولیں، آج تو ضرور لوگوں سے گالیاں کھائے گی کہ سادہ سی گاؤں کی کہانی کو فلسفے کی دکان بنا دیا ہے۔میں نے اماں کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، اماں! گھبرا مت! یہ کون سا پیسے دے کر یہ کہانی پڑھ رہے ہیں کہ میں اور تو ان کی فکر کریں؟ جو جی میں آئے بول!  میری بات سن کر اماں مسکرا اٹھیں۔ بولیں، بیٹا! یہ خانہ بدوش میری اور تیری ان تمام حسرتوں کی عملی شکل ہوتے ہیں جو ہم تا عمر پالتے ہیں اور کبھی انہیں حاصل کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ سفر ہم میں سے کسے پسند نہیں؟ دیس دیس کی کہانیوں کو خود مشاہدہ کرنا کسے برا لگے گا؟ روز ایک نئے سرے سے زندگی گزارنے کا خواب دیکھنے والے دیوانے ہم میں کم ہیں؟ یہ میری زمین ، یہ تیری زمین کے بجائے خانہ بدوشوں کی طرح یہ ہم سب کی زمین کا خیال ہم میں سے محض زمینداروں کو ہی ناگوار گزرے گا جو اتنی بڑی بڑی زمینیں گھیرے بیٹھے ہیں کہ ان پر خود کاشت بھی نہیں کرسکتے لہٰذا اس کام کے لئے مزارع پالتے ہیں۔ خود انہیں کتوں کی طرح رکھتے ہیں اوریوں مزارعین کی نظر میں خود بھی کتے کہلاتے ہیں۔ میں نے اماں کی بات کاٹ کر اسے یاد دلایا کہ گفتگو مارکسزم کی طرف جارہی ہے ۔ اماں نے سر ہلاتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ گویا ہوئی، اگر جملے میں وزن ڈالنا ہو تو اس کو کسی مشہور آدمی یا بزرگ سے منسوب کردو۔ ہم بچپن سے یہ سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اگر سفر مفت ہوتا تو تم مجھے دوبارہ کبھی نہیں دیکھتے۔ اب خود بتاؤ کہ یہی بات انہوں نے خانہ بدوشوں کو کیوں نہیں سمجھائی کہ بھائی سفر مفت نہیں ہے لہٰذا تم مجھے دوبارہ دکھنے چاہئے ہو؟ اپنے عزیز ترین خوابوں کو کسی اور کے لئے پورا ہوتے دیکھنے کی اذیت کیا ہوتی ہے جانتی ہو؟ تم کیا جانو!  یہ خانہ بدوش ہوتے ہی منحوس ہیں۔ اب دوڑ جا اور مجھے رفو کرنے دے۔ اور ہاں، باہر جاتے ہوئے کٹے کی رسی دیکھ لیو۔ خانہ بدوشوں کا کٹا ہے، ٹک کر نہیں بیٹھے گا!! کھلی رہ گئی تو نکل جائے گا اور پھر تو ڈھونڈتی پھریو!     

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت