ہفتہ، 12 اگست، 2017

کہانی

تخلیق درد سے عبارت ہوتی ہے۔ بنا درد کے تخلیق ایسی ہی ہے جیسے   مہمانوں کے سامنے ناشتے کی میز پر ندیدی  ہوتی اولاد۔  انسان دیکھ دیکھ کر پچھتاتا ہے اور دعا کرتا ہے  لوگ بھول جائیں کہ یہ آپ کی تخلیق ہے۔میری بات سن کر اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا،اس حساب سے تو تم اپنی تمام تخلیقات سے خائف ہوگے؟ تمہارے جیسے سفاک انسان کے اندر درد محسوس کرنے کی صفت ہے ہی کب کہ تم درد کو سینچ کر اسے کہانی میں تبدیل کر سکو؟  میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور ایک بار پھر اسے یاد دلایا کہ  سخن طرازی، سفاکی کا مہذب نام ہے۔   جب انسان کا ظرف اتنا محدود ہوجائے کہ وہ ذرا سا درد بھی برداشت نہ کرسکے اور ہر چھوٹی بڑی تکلیف کو قرطاس پر انڈیل کر  اپنا درد معاشرے میں بانٹ دے تو آپ اسے ادیب کہتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ دردانڈیلے  گا اتنا ہی بڑا ادیب کہلائے گا۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر جھنجھلا کر بولا، یار بندے نے گہری باتیں ہی سننی ہوں تو چاء کے ہوٹل یا محلے کے ٹھیے پر جا کر نہ بیٹھ جائے؟ کہانی سنانے کے لئے بلایا تھا کہانی سنا!  میں نے رحم آمیز نظروں سے اسے دیکھا اور  صفحات اس کے آگے کر دیے جن میں میری لکھی  وہ بغیر درد کی تخلیقات موجود تھیں۔
ونی
باچا خان نے کہا تھا کہ کسی معاشرے کو پرکھنا ہو تو دیکھ لو کہ وہ اپنی خواتین کو کس طرح  برتتا ہے۔ اس نے  ٹوئیٹر پر جا کر یہ جملہ لکھا اور بے صبری سے آنے والے ریٹوئیٹ کا انتظار کرنے لگا۔ انتظار زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا اور چند ہی لمحوں میں ریٹوئیٹ کی تعداد  بڑھنا شروع ہوگئی۔ اس نے اطمینان  کا سانس لیا اور صوفے  پر ہی ٹانگیں پھیلا لیں۔  ریٹوئیٹ کی تعداد تھوڑی سی بڑھ جاتی تو اس نے اسکرین شاٹ لے کر ابھی فیس بک پر بھی پوسٹ کرنا تھا۔ جی نہیں! اسے لائکس یا ریٹوئیٹ جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اور اگر تھا بھی تو اس میں کون سی بری بات ہے؟ کسے نہیں ہوتا؟ جس  زمانے میں وہ موجود تھا وہاں لوگ ریٹوئیٹ اور لائک  حاصل کرنے کے لئے ان لوگوں تک کے تلوے چاٹنے کے لئے تیار تھے جنہیں حقیقی زندگی میں جوتے مارنا بھی جوتوں کی توہین تھی۔ سو اگر اس نے یہ کام کر بھی لیا تو کون گناہ کیا؟ جب پورا معاشرہ ہی گناہ پر سہمت ہوجائے تو پھر وہ چیز گناہ رہتی ہی کب ہے؟ پھر وہ فیشن کہلاتی ہے اور فیشن کرنا کون سا گناہ ہے؟ خیر یہ تو اضافی گفتگو ہے۔ بات تو یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اس نے یہ جملہ توجہ حاصل کرنے کے لئے نہیں لکھا تھا۔ یہ جملہ تو اس نے توجہ دلانے کے لئے لکھا تھا۔ اور بات ہی کچھ ایسی تھی کہ یہ توجہ دلانا ضروری ہوگیا تھا۔ ملک کے ایک حصے سے  کسی گاؤں کی خبر آئی تھی  کہ وہاں کسی آدمی نے علاقے  کے لوگوں کے پیسے چرا لئے تھے اور پکڑا گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ شدید طیش میں تھے۔ انہوں نے پنچایت بلائی اور پنچایت نے فیصلہ سنا دیا کہ چونکہ یہ آدمی چور ہے لہٰذا اس آدمی کی بیٹی کی عزت سب پر حلال ہے۔
اس نے جب سے یہ خبر پڑھی تھی اس کے اندر ایک عجیب سی بے بسی کی آگ جل اٹھی تھی۔   رہ رہ کر سلگتا تھا کہ ہم کس جاہل معاشرے میں جیتے ہیں؟ باپ کے کرموں کی سزا کوئی بیٹی کو کیسے دے سکتا ہے؟ گناہ کوئی بھی کرے سزا عورت ہی کیوں بھگتتی ہے؟  تعلیم کس حد تک ضرور ی  ہے اس کا اندازہ ان جاہلوں کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ کیا ہوتا اگر یہ بھی پڑھ لکھ جاتے؟  ایسی خبریں تو نہ سننے کو ملتیں! عورت کی عزت تو محفوظ ہوتی!اور شاید ان جاہلوں کی اکثریت کی وجہ سے ہی ہم پر ایسے گھٹیا لوگ مسلط ہیں! سوچ جب یہاں پر پہنچی تو اس نے ایک بار پھر موبائل اٹھا لیا اور یہ خیال لوگوں تک پہنچانے کے لئے ٹوئیٹر کی اپلیکیشن کھول لی۔ مگر ٹوئیٹر کھولتے ہی سامنے ایک خبر موجود تھی کہ فلاں سیاستدان  کی چوری پکڑی جا چکی ہے مگر وہ اب بھی اپنے گناہوں سے انکاری ہے۔ غصہ تو پہلے ہی شدید تھا مگر یہ تازہ خبر پڑھ کر آگ مزید بھڑک اٹھی۔ اس نے لکھا، ان حرامیوں کی ان ہی حرکات کی وجہ سے ان کی بیٹیاں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرتی ہیں۔ اور یہ لکھ  کر موبائل ایک طرف پھینک دیا۔
یار یہ کیا بکواس ہے؟ تو اسے کہانی کہتا ہے؟  اس نے کاغذ پر سے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا اورتاسف سے گردن ہلانے لگا۔   میں نےجھلا کر کہا، میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ بغیر درد کے تخلیق ۔۔۔ ہاں ہاں! دوبارہ فلسفے کی کلاس نہ شروع کر۔ پہلے باقی کہانی دیکھ لوں پھر بات کرتا ہوں۔ اس نے میری بات کاٹ کر دوسری کہانی پڑھنا شروع کردی۔

حامد
مریض کا نام کیا تھا؟
جی حامد!
حامد؟   ارے یہ تو میرے بیٹے کا نام بھی ہے۔
مگر آپ تو شکل سے اتنے احمق نہیں لگتے کہ بیٹے کا نام حامد رکھیں؟
آپ ہوش میں تو ہیں؟
آپ کو کیا لگتا ہے؟
معاف کیجئے گا میں غصہ کر گیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔
آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ سمجھ سکتے ہوتے تو اپنے بیٹے کا نام حامد کیوں رکھتے؟
آخر حامد نام میں کیا برائی ہے؟
آپ حامد کا  مطلب جانتے ہیں؟
جی ہاں! حمد اور تعریف کرنے والا
اور تعریف کرنے والے کا ہمارے معاشرے میں کیا مقام ہے؟
جی بہت اونچا مقام ہے
ہاں سو تو ہے ۔۔۔ مگر وہ تو تب ہے نا جب مسلسل تعریف کرنے کا موقع دیا جائے۔
میں سمجھا نہیں ۔۔
میرا بیٹا بھی نہیں سمجھا تھا۔ حالانکہ کتنے سامنے کی بات ہے کہ جب کوئی نیا تعریف کرنے والا سر اٹھاتا ہے تو پرانے تعریف کرنے والے اسے روند ڈالتے ہیں۔
مجھے آپ کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ مگر میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ براہِ کرم فارم بھروادیجئے۔
جی بھریے
وجہء موت کیا تھی
جی وہ گاڑی  کے نیچے آگیا تھا۔
اوہ!  گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہوگیا؟
جی نہیں۔ گاڑی کی ٹکر سے تو بچ گیا تھا مگر اس کے بعد گاڑی کے نہ رکنے کا صدمہ نہ جھیل سکا اور چل بسا!

اس نے کاغذ ہوا میں لہرائے اور بولا ، انہیں  تو کہانیاں کہتا ہے؟  نہ ان میں زبان کی چاشنی ہے اورنہ  بیان کا سلیقہ۔ نہ الفاظ کو برتنے کی تمیز ہے اور  نہ ہی  معاشرے کی اصلاح کا پہلو۔ کس زاویے سے تو خود کو ادیب اور اسے ادب کہتا ہے بے؟

میں نے ایک آخری بار اسے رحم آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ ادیب کے قلم سے نکلنے والا خون حیض کا ہوتا ہے جو اپنے ساتھ معاشرے  کی کلفتیں بہا کر لے جانے کے لئے نکلتا ہے۔ اب اگر تم  یہی حیض زدہ خون کسی مریض معاشرے  کی جان بچانے کے لئے  استعمال کرنا چاہتے ہو تو بھائی مجھے  ادب سکھانے سے پہلے خود کو کسی اچھے نفسیات دان کو دکھا لو۔ چلتا ہوں۔  اللہ حافظ! 

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں

بلاگ فالوورز

آمدورفت