تو بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں بہت سارے لوگ رہتے تھے۔ نانا ابا نے کہانی کہنا
شروع کی ہی تھی کہ جویریہ بول اٹھی، مگر گاؤں میں جب بہت زیادہ لوگ رہنے لگیں تو
پھر وہ گاؤں تو نہیں ہوا نا؟ پھر تو وہ قصبہ یا چھوٹا شہر ہوجائے گا؟ نانا ابا ایک لحظے
کے لئے چونکے اور پھر سادگی سے بولے، مگر چونکہ اس گاؤں کے لوگ آپ کی طرح ذہین
نہیں تھے تو وہ خود کو گاؤں ہی سمجھتے تھے اور کیونکہ انہیں گاؤں والا کہنے سے کسی
اور گاؤں والے کی دل آزاری نہیں ہوتی لہٰذا اصولی طور پر ہمیں ان کی اس معصوم خواہش کا احترام کرنا چاہئے ۔ نانا ابو آپ اس کو چھوڑیں کہانی سنائیں۔ ننھے شہود کو
جویریہ کی نکتہ چینی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔ نانا ابا نے مسکرا کر اس کے سر پر شفقت بھرا
ہاتھ پھیرا اور کہانی دوبارہ شروع کردی۔ تو بھئی جیسا کہ میں نے بتایا اس گاؤں میں
بہت سارے لوگ رہتے تھے اور مل جل کر رہتے تھے۔ چھوٹی موٹی باتیں تو ہر جگہ ہی رہتی
ہیں مگر عمومی طور پر وہ پر امن اور پرسکون طور پر ساتھ رہنے والے لوگ تھے۔ اس گاؤں کے سیانوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس طرح
جوڑ کے رکھنے میں اس مندر کا بہت بڑا ہاتھ تھا کہ جس میں پرلوک سے آئے دیوی دیوتا
موجود تھے۔ گاؤں میں ذرا بھی اونچ نیچ ہوتی تو یہ دیوی دیوتا بیچ میں پڑ کر اسے
ختم کرا دیتے۔ جسے چاہتے نواز دیتے اور جسے چاہتے عمران دیتے۔کوئی پیار سے مان
جاتا تو کوئی لالچ سے اور جو کوئی ان دونوں سے نہ مانتا تو اس کے لئے تو ڈنڈا تھا
ہی۔ غرضیکہ پورا گاؤں ان دیوی دیوتاؤں کے دم سے ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔
پیارے بچو! دنیا
میں حماقت اور ذلالت کے علاوہ کوئی چیز
مستقل نہیں ہے۔ سو گاؤں والوں کے یہ دن بھی مستقل نہیں رہے۔ پر لوک کے اپنے حالات
خراب ہونے کی وجہ سے دیوی دیوتاؤں نے اعلان کر دیا کہ وہ مندر خالی کر کے واپس پرلوک سدھار رہے
ہیں۔ چند ایک بدخواہوں نے موقع دیکھ کر لوگوں کو بھڑکانا شروع کردیا کہ اب جب
مندر خالی ہونے ہی لگا ہے تو اس مندر کو
یا تو گرا دیا جائے یا پھر اس میں تالا ڈال دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس
مندر میں گھس کر دیوی یا دیوتا نہ بن سکے۔ لوگ انہیں یاد دلاتے کہ ان ہی دیوتاؤں
کی وجہ سے گاؤں کا نظام قائم ہے تو یہ بدخواہ جواب میں کہتے کہ نظام قائم رکھنے کی
قیمت کے طور پر یہ جو دیوی دیوتاؤں کو ہر قسم کی تنقید اور سوالات سے استثنا حاصل
ہے وہ بہت بڑی قیمت ہے۔ یہ دیوی دیوتا جو من میں آئے کر گزریں کوئی انہیں کچھ نہیں
کہہ سکتا ۔ کہنا تو دور کی بات، ان کے بارے میں غلط سوچتا یا سوال کرتا پا لیا
جائے تو غریب کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔
گاؤں والے مگر عقل مند تھے لہٰذا ان کی باتوں میں نہ آئے۔ اور آتے بھی کیسے؟ دیویوں کی کرپا سے ان لوگوں
کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور جلد ہی یہ لوگ یا تو چوریاں پکڑے جانے پر جیل میں
پائے گئے یا سڑک پر جھگڑتے ہوئے قتل ہوگئے۔ گاؤں والوں نے ان کے انجام سے عبرت
پکڑی اور ہمیشہ کے لئے ان باتوں پر وقت ضائع کرنے سے توبہ کرلی۔
تو پھر وہ دیوی دیوتا وہاں رکے یا چلے گئے؟ جویریہ نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے نانا ابا سے
سوال کیا جو کہانی یہاں تک پہنچا کر خاموش ہوگئے تھے اور خلا میں تک رہے تھے۔ جویریہ کے سوال کو سن
کر وہ چونک اٹھے اور بولے، ہاں وہ دیوی دیوتا تو چلے گئے مگر ان کے جانے کے بعد
گاؤں کے دو حصے کر دئے گئے اور گاؤں کے ساتھ ساتھ مندر بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
دونوں مندروں میں متعلقہ گاؤں کے اپنے اپنے دیوتا لاکر سجا دئے گئے اور گاؤں کا
کاروبار ویسے ہی چلنے لگا جیسے صدیوں سے چلتا آیا تھا۔
تو کیا یہ نئے دیوتا بھی پرانے دیوتاؤں جیسے ہی تھے؟ جویریہ
کہانی کو گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتی تھی۔
نانا ابا مسکرائے، یا شاید انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی ، بہر حال ان کے
ہونٹ مڑے ضرور اور وہ اس مسکراہٹ یا نیم مسکراہٹ کے درمیان بولے، بالکل ویسے ہی!
اتنے ہی سفاک، ہٹ دھرم اور عوام کو جوتی کی نوک پر رکھ کر انتظامی حکم چلانے والے۔
ایک طرف کے گاؤں کے مندر کے دیوتا نے تو خود اپنے ہی گاؤں میں یہ کہہ کر مزید
تقسیم کی بنیاد بھی رکھ دی کہ جو زبان میں بولوں گا پورے گاؤں میں کسی کو وہ زبان
آتی ہو یا نہیں اسے بہرحال وہی زبان بولنی ہوگی۔ اور جو یہ زبان نہیں بول سکتا وہ
خواہ گونگا رہے میری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نانا ابا بھی شاید اپنی ہی دھن
میں کچھ مزید بھی بولتے مگر باہر سے رشید ماموں نے آکر بتایا کہ پڑوس والے فوجی
انکل جو نانا ابا کے بچپن کے دوست ہیں ،نانا ابا کی خیریت پوچھنے آئے ہیں۔ یہ سنتے ہی نانا ابا نے اپنا پاندان اٹھایا
اور چلنے لگے۔ شہود نے پیچھے سے آواز لگائی ، نانا ابا کہانی تو مکمل کرتے جائیں؟
نانا ابا کمرے کے دروازے پر رکے اور مڑ کر بولے، دیوتا کے بارے میں جو آخری بات
میں نے کی وہ محض ایک افواہ ہے۔ وہ دیوتا واقعی اس قابل تھا کہ اس کی پوجا کی جائے
اور اسے مندر میں رکھا جائے۔ اس ہی کے وجود کے دم سے گاؤں میں آج بھی سب ہنسی خوشی
رہتے ہیں۔ اب بھاگ جاؤ۔ اگلی کہانی اگلی بار!
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں