پیاری ڈائری!
طویل غیر
حاضری کی معذرت! ایسا نہیں کہ لکھنے ایسا کچھ نہ رہا ہومگر لکھنے پر طبیعت مائل ہی
نہیں ہوتی۔ وہ کیا ہے نا کہ ڈائری لکھنے کے پیسے نہیں ملتے اور فن بے شک پیسوں کا
محتاج نہ ہو مگر حقیقی فنکار ساری عمر پائی پائی کا محتاج ہوتا ہے۔
آج صبح سے ارادہ
کر کے بیٹھا تھا کہ ڈائری لکھوں گا اور آج خلافِ معمول کوئی جلی کٹی نہیں لکھوں
گا۔ کچھ پر امید لکھوں گا۔ جس طرح بالآخر خالہ کے جمشید سے بیاہی جانے والی
دوشیزائیں شادی سے پہلے فواد خان کو تصور کر کے شاعری بھرے مضامین لکھتی ہیں، ویسا کچھ! مگر برا ہو اس
نئی نسل کا کہ انہوں نے اچھے خاصے مزاج کو مکدر کرکے رکھ دیا۔ بھئی گانوں کی حد تک
تو ری مکس کی سمجھ آتی ہے مگر ہماری صدیوں پرانی لوک کہانیوں میں تضمین کرنا کون
سی شرافت ہے؟
ہوا کچھ یوں
کہ ہماری نواسی نے ہم سے کہانی سننے کی فرمائش کردی۔ ہم کافی دن سے دیکھ رہے تھے
کہ وہ اپنے آج کے کام کو پرسوں پر ٹالنے کی روش پر گامزن تھیں کہ کل پر ٹالنا ان
کے نزدیک بہت مین سٹریم تھا۔ سو ہم نے انہیں اپنے بچپن کی سنی ہوئی کہانی سنا دی
کہ جس میں ایک چڑیا اپنے بچوں کے ساتھ کسی کھیت میں رہا کرتی تھی ۔ جب اور جہاں جی
کرتا غیور مردوں کی طرح منہ مارتی پھرتی کہ جانتی تھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ایک
دن چڑیا کے بچوں کے نے اسے بتایا کہ انہوں نے خود اپنے گناہگار کانوں سے کسان کو
اسے گالیاں دیتے سنا ہے ۔ کسان نے پیٹ بھر کر گالیاں دینے کے بعد یہ بھی فرمایا ہے
کہ اس نے اپنے بھائی سے بات کر لی ہے اور کل ہی وہ کھیت سے چڑیا کا خاتمہ کر لے
گا۔ چڑیا سیاسی رہنما تو تھی نہیں کہ چھوٹوں کی باتوں میں آجاتی، اس نے بچوں کو
تسلی دی کہ اس کی کسان کے بھائی کے ساتھ اچھی سیٹنگ ہے انشاءاللہ کچھ نہیں بگڑے
گا۔ جہاں جی چاہے منہ مارو!
بچے بے فکر ہو کر ایک مرتبہ پھر کھیت اجاڑنے میں
مشغول ہوگئے ۔ چند دن بعد بچوں نے پھر اطلاع دی کہ کسان اب کی مرتبہ زیادہ گندی
گالیوں پر اتر آیا ہے اور کہتا ہے کہ کل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہمارا
گھونسلہ اجاڑ دے گا۔ چڑیا نے بچوں کو ایک مرتبہ پھر دھنیا پلا کر سلا دیا اور اپنے
معمولات میں مصروف ہوگئی۔
تیسری مرتبہ
البتہ صورتحال بہت سنگین تھی۔ بچوں نے بتایا کہ کسان نے گھر میں انٹرنیٹ لگوا لیا
ہے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد خادم حسین رضوی جیسی گالیاں بکنے
لگا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ آج خود اپنے ہاتھ سے ہمارا گھونسلہ اکھاڑ پھینکے
گا۔
روایتی کہانی
کے مطابق اب چڑیا کو بچوں کو سمجھانا تھا کہ بچو! سامان سمیٹ لو۔ اب یہ انسان کام
کر کے ہی رہے گا کیونکہ یہ اس بار کسی پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی آج کا کام کل پر
ٹال رہا ہے مگر اس سے پہلے کے ہم یہ انجام اس دس سالہ بچی کو سمجھاتے اس نے کہا،
نانو! آگے کی کہانی مجھے پتہ ہے۔ اس چڑیا نے دس پندرہ چڑیاں اور اکٹھی کی ہوں گی
اور کھیت میں دھرنا دے کر بیٹھ گئی ہوگی۔ اس کے بعد کسان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے
سارے نقصانات معاف کرے اور کھیت میں سے ایک حصہ ان چ٭٭یوں ۔۔۔ (خادم حسین صاحب کے نام کی دہشت سے اب
کمپیوٹر چڑیوں کو بھی سینسر کر رہا ہے۔ سبحان اللہ) کو بھی دینے پر مجبور ہوگیا
ہوگا اور اس کے بعد سب یوں ہنسی خوشی رہنے لگے ہوں گے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہم نے تپ کر
اس سے پوچھا اور جب آپ یہ سب جانتی ہی ہیں تو یہ بھی بتا دیں کہ کہانی کا حاصل کیا
تھا؟ تس پر وہ بڑے رسان سے بولیں، دھرنے میں بڑی برکت ہے!
خود بتاؤ۔ اس
قسم کی اولاد کے ہوتے ہوئے انسان کیسے شاعری بھرے مضامین لکھ سکتا ہے؟
والسلام
زبان دراز
دھرنوی