طوائف اگر سدھرنا بھی چاہے تو تماش بین اسے بھولنے
نہیں دیتے۔
اس نے کہتے ہوئے تاسف
سے سر جھٹکا تو میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اس کی عمر تیس بتیس سال ہی رہی ہوگی
مگر وقت
نے اسے عینِ شباب میں ہی بوڑھا کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر جھریاں تو نہیں
تھیں مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی تھکن تھی جو اس کا مجموعی تاثر ایک جوان دکھنے
والے بوڑھے کا بناتی تھی۔
ہم دونوں سمندر کے دوست تھے۔ یہ میرا روز کا معمول تھا کہ میں دفتر سے واپسی پر گھر جانے سے پہلے مغرب
گئے سمندر پر حاضری دینے آجاتا تھا۔ کسی زمانے میں یہ واقعی سمندر ہوا کرتا تھا
مگر شہرمیں آ بسنے کی وجہ سے اب یہ بھی شہر کے باسیوں کی طرح ایک وسیع و عریض جوہڑ
میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کا ساحل اب ایک
وسیع کوڑا دان تھا۔ اس کی موجیں جو کبھی شفاف نیلگوں پانی ساتھ لاتی تھیں اب سیاہی
مائل ہوچکی تھیں۔ میرا ماننا تھا کہ سمندر
کا دامن اتنا وسیع تھا کہ وہ اس شہر کیا، اس پورے ملک کا کچرا بھی اپنے اندر سمو
سکتا تھا۔ اور اس کا ظرف اتنا تھا کہ اس تمام کچرے کو بھی وہ اپنے دل سے لگا کر
رکھتا اور کبھی سطحِ آب کو اس طرح آلودہ
نہ دکھاتا۔ مجھے یاد ہے ایک دن ایسے ہی ساحل پر بینچ پر بیٹھے میں نے اپنے اس
فلسفے کی تکرار کی تھی اور بے دھیانی میں میری آواز تھوڑی بلند ہوگئی تھی تو اس نے
مجھے مخاطب کر کے جواب دیا تھا کہ ، سمندر فضلے کی آلودگی سے کالا نہیں ہوا۔ ہماری سوچوں
کی نجاست نے اس کا رنگ اجاڑ دیا ہے۔ اس دن کے بعد روزانہ ہونے والی ہماری
ملاقاتوں کے سلسلے کی وہ پہلی ملاقات تھی۔
ہماری ملاقاتیں عام لوگوں کی ملاقاتوں سے مختلف ہوتی تھیں۔
ہم دونوں اس بات سے واقف تھے کہ ان ملاقاتوں (اور شاید اس تعلق کا بھی ) واحد سبب ایک دوسرے کی ذات میں دلچسپی نہیں بلکہ
سمندر تھا۔ شاید اس ہی لئے ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے
ذاتی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا تھا۔ آپ
کو پڑھ کر حیرت ہو رہی ہوگی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ناموں تک سے واقف نہیں تھے۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ ناموں کے پیچھے حوالے چھپے
ہوتے ہیں اور جب ہمیں کسی انسان کا حوالہ مل جائے تو ہم اس کی پہچان اس کے
کردار یا گفتار کے بجائے اس حوالے سے جوڑ دینے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔
سمندر ایسا نہیں کرتا۔ یہ سید، شیخ، سنگھ، پیٹر، سومرو، بٹ، مینگل ، خان اور اعوان سب کو ایک جیسا برتتا ہے۔ ایک ہی جیسی موت
بخشتا ہے۔ اس لئے ہم دونوں نے کبھی ایک
دوسرے سے نام پوچھنے کا تردد نہیں کیا تھا اور اطمینان کی بات یہ تھی کہ ایک دوسرے کی پہچان
جانے بغیر بھی ہم زندہ تھے۔
آج البتہ معاملہ مختلف تھا۔ خلافِ معمول آج وہ مجھ سے پہلے
سےساحل پر براجمان تھا۔ خدا جانے کب سے
بیٹھا تھا۔ تھکن تو خیر اس کی شناختی علامت رہی ہی تھی مگر آج وہ کچھ پریشان بھی
معلوم ہورہا تھا۔ یا شاید وہ ہمیشہ سے ہی پریشان رہا ہو اور میں نے آج محسوس کیا
تھا۔ معاملہ جو بھی تھا، بہرحال وہ
میرے معشوق کا عاشق تھا اور یہ تعلق کتنا ہی گھٹیا سہی مگر ہوتا بہرحال نہایت
مضبوط ہے۔ سو فطری طور پر میں اس کے لئے فکرمند تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ مجھے
کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ خود ہی بولنا شروع ہوگیا۔ نجانے کیوں ہم
انسان دوسرے انسانوں کو زبردستی خود سے برتر بنانے پر تلے رہتے ہیں؟ اگر سب انسان ایک ایسے نیک ہوتے تو جنت میں
مدارج کیوں ہوتے؟ پونر جنم پا کر ایک
برہمن اور دوسرا کتا کیوں بنتا؟ خدا کے گھرانے میں صرف تین ہی لوگ کیوں ہوتے؟ جب خدا یا ایشور یا گوڈ کے عقیدے کے حامل تمام
انسان یہ بات مانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی برتر اور باقی اس سے کمتر لوگ ہوتے ہیں
تو پھر ہم انسانوں کو کمتر ہونے کا حق
کیوں نہیں دے سکتے؟ کوئی گناہ محض بدلے کے طور پر کیوں قابلِ فہم قرار دیا جاتا
ہے؟ اور کوئی برائی محض اس لئے کیوں برائی ہے کیونکہ آپ اسے نہیں کرتے؟ برائی محض برائی ہے۔ کسی ایک انسان
کا اسے کرنا نہ کرنا اسے برا کیسے بنا سکتا ہے؟ ویسے ہی اچھائی محض اچھائی ہے۔ اگر
تم کوئی نیک کام کرتے ہو تو یہ مجھ پر کیسے لازم ہوجاتا ہے کہ میں بھی
وہی نیکی دہراؤں؟ مگر میں نیکی کے موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس موضوع پر مجھ
سے بہتر بولنے والے بہت سے موجود ہیں۔ میں تو
محض یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں نے بحیثیت انسان ایک غلطی کر دی تو
مجھے پچھتاوے کا حق کیوں نہیں ہے۔ میں اگر اپنے ماضی سے آگے نکلنا چاہتا ہوں تو
کیوں یہ لازم ہے کہ میرے ماضی کے گندے پوتڑے میرے منہ پر مارے جائیں؟ کیوں میری معافی قبول ہونے پر بھی مجھے پہلے میرے
ماضی کی وہ بھیانک فلم دکھائی جاتی ہے جس سے گھن کھا کر ہی میں توبہ کے راستے پر
چلنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ، ان سب کے باوجود میں
تمہیں معاف کرتا ہوں؟ ان سب کے باوجود؟
اگر پونر جنم کا قصہ درست مان لیا جائے تو کیا ہم اپنے کتے سے بھی یہی کہیں
گے کہ تیرے رذیل ماضی کے باوجودمیں تجھے اپنے گھر میں رکھنے کو تیار ہوں؟ یا اگر
مسلم کی بات درست مان لی جائے تو بخشش کے
طلب گار گناہگاروں کو، بغیر حساب کے بخشنے والے خدا کے ماننے والے دنیا میں ہر بخشش
سے پہلے حساب کیوں مانگتے ہیں؟
وہ مسلسل بولے چلا جا رہا تھا اور میں حیرت سے اس کی شکل
دیکھ رہا تھا۔ جب کلام میں تھوڑا سا وقفہ
آیا اور وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں
رگڑنے لگا تو میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔ میں نے چاہا کہ اسے تسلی دوں مگر جب تسلی کے
لئے مناسب الفاظ نہ ملے تو میں نے بس اتنا پوچھ لیا، کیا ہوا دوست؟ اس نے بھیگی
ہوئی سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور نہایت کرب سے گویا ہوا، طوائف اگر سدھرنا
بھی چاہے تو تماش بین اسے بھولنے نہیں دیتے۔ اس لئے طوائف کو چاہئے کہ وہ تاعمر
طوائف ہی رہے کیونکہ گناہ کرچکنے کے بعد فرشتوں کی اس دنیا میں اس کے لئے کوئی جگہ
نہیں بچی ہے۔ کوٹھے پر اس کی عزت نہیں لٹتی، وہ اس کا پیشہ ہوتا ہے جس کی وہ مناسب
قیمت لیتی ہے۔ یہاں فرشتوں کی دنیا میں روز اس کی عزت لٹے گی ۔اس نے یہ کہہ کر
تاسف سے سر جھٹکا اور اٹھ کر واپسی کی طرف چل دیا۔ میں خاموشی سے اسے جاتا ہوا
دیکھنے لگا۔ اس کی عمر تیس بتیس سال ہی
رہی ہوگی مگر وقت نے اسے عینِ شباب میں ہی بوڑھا کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر جھریاں
تو نہیں تھیں مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی تھکن تھی جو اس کا مجموعی تاثر ایک
جوان دکھنے والے بوڑھے کا بنادیتی تھی۔ ضرور اس نے زندگی میں کوئی نیچ کام کیا ہوگا جس
کے پچھتاوے نے اسے ایسی باتیں کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ اور شاید یہی نیچ کام اس
کے چہرے پر اس پھٹکار کا باعث بنے تھے جسے میں اب تک تھکن سمجھتا آیا تھا۔ خدا ہم
سب کو ایسے کاموں سے محفوظ رکھے۔